اظہار رائے کی آزادی اور اسلام


انسانی معاشرہ کئی عناصر کے باہم ملاپ سے تشکیل پاتا ہے، جن میں اختلاف کے باوجود ایک کشش موجود ہوتی ہے جو ان سب کے اوپر غالب رہتے ہوئے ان عناصر کو یکجا رکھتی ہے۔ انسان کی کئی ضروریات بنیادی نوعیت کی ہیں جن کے بغیر وہ زندگی نہیں گزار سکتا جن میں مکان، خوراک، صحت کی سہولت، وغیرہ شامل ہے۔ تاہم یہ وہ ضروریات ہیں جو باقی حیوانات کو بھی درکار ہیں اور یوں ہم محض ان ضروریات تک زندگی کو محدود رکھ کر انسانوں کو گویا حیوانات کی سطح تک رکھ کر سوچتے ہیں اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

تاہم انسان کو اگر اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے تو اس کی بایں وجہ اس کے اندر وہ امتیازی خصوصیات ہیں، جو اس کو باقی مخلوقات سے ممتاز کرتی ہیں۔ ان خصوصیات میں ایک بہت ہی نمایاں وصف جو انسانی معاشرے کا جھومر اور اس کی پہچان بنتی ہے وہ اظہار رائے کی آزادی ہے۔ گویا ایک انسانی معاشرے میں اس حق کو باقاعدہ مسلمات میں شمار کیا جاتا ہے کہ یہاں ہر انسان کو اس کی مرضی کے مطابق جینے کا حق دینے کے ساتھ ساتھ اسے اظہار رائے کا بھی حق دیا جائے۔

اظہار رائے کا مطلب محض کسی کے اشاروں کے مطابق رائے زنی کا نام نہیں بلکہ ایک اعلیٰ انسانی وصف ہے جو کسی انسان کی اس خوابیدہ صلاحیت کی غمازی کرتا ہے کہ وہ اپنے متعلق اور اپنے گردوپیش کے متعلق کیا سوچتا ہے اور اس معاشرے میں وہ کس قسم کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ اگر انسانی معاشرے میں آزادی کا تصور محض عبادات کی ازادی اور چند مذہبی اور غیرمذہبی رسوم کی بجا آوری تک ہی محدود ہو اور اظہار رائے کا حق حاصل نہ ہو تو یہ آزادی کا ایک محدود تصور اور غلامی کی ایک مہیب قسم ہے جو بظاہر نظر نہیں آتی لیکن حساس قلوب کو متأثر کرتی ہے اور ان کی تخلیقی اور دیگر خصوصیات پر ایک پہرہ لگا کر انہیں جبر و استحصال کا احساس دلاتی ہے۔ اور اگر اس بنیادی انسانی حق کو دھونس اور طاقت سے دبا دیا جائے تو گویا ہم نے معاشرے سے اس کی گویائی چھین کر، اسے گونگا اور بہرہ بنا دیا ہے جہاں وہ نہ کچھ دیکھ سکتا ہے نہ سن سکتا ہے اور یوں بادشاہ وقت کے لئے راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔

اس بات میں کوئی شک یا دو رائے نہیں ہیں کہ ہمارا معاشرہ جو اسلامی معاشرہ کہلوانے پہ فخر محسوس کرتا ہے، مگر اس کی حقیقی تعلیمات سے کوسوں دور اور اس کے تقاضوں سے یکسر نابلد ہے، اور آج کے موجودہ دور میں اس کا استعمال اسی بنیادی انسانی حق کو کچلنے اور اس کو پامال کرنے کے واسطے ہی کیا جاتا ہے۔ تاہم اگر اسلام کی حقیقی تعلیمات کا قلب سلیم کے ساتھ مطالعہ کیا جائے اور تمام تعصبات کو ایک طرف رکھ کر اس کے افکار کو دیکھا جائے تو اسلام، اپنے پیرووکاروں کو اس بات کی ہدایت کرتا ہے کہ دنیا میں جہاں بھی ظلم ہو رہا ہو اس کے خلاف آواز اٹھائی جائے اور ظالم کا ہاتھ روکا جائے۔

حدیث کے مفہوم کے مطابق برائی کو روکنے کا پہلا درجہ اگر ہاتھ سے روکنا ہے تو دوسرے درجے میں اس کے خلاف زبان سے جہاد ہے تاکہ ظالم کو اس کے ظلم کا احساس دلایا جا سکے۔ اور ہمیں کلاسیک اسلامی معاشرے میں اظہار رائے کی آزادی کی مثالیں بھی بہت ملتی ہیں، جن میں سب سے نمایاں مثال دور فاروقی کی ہے کہ جب ایک شخص علی الاعلان آپ سے بھرے مجمعے میں آپ کی دو چادروں کے بارے میں استفسار کرتا ہے کہ آپ نے مال غنیمت سے یہ دو چادریں کیسے لے لیں؟

اور وقت کا امیرالمومنین سب کے سامنے اس کی سرزنش کرنے کی بجائے نہایت تحمل سے اس کی بات بھی سنتا ہے اور اپنے فرزند کو اس شخص کے گمان باطل کو رفع کرنے کا بھی کہتا ہے۔ اس کے علاوہ یہی امیرالمومنین ہیں جو بعد میں اپنے کسی محکمہ زراعت کو حرکت میں بھی نہیں لاتے کہ اس شخص کو اس کی گستاخی کی سزا دلوائیں کہ اس نے بھرے مجمعے میں ایسی جرأت کیوں کی۔

ہمارے یہاں چونکہ من حیث القوم زوال ہی زوال ہے، لہٰذا اس زوال زدہ معاشرے میں مذہب کی تعلیمات پر بھی زوال چھا گیا اور آج اظہار رائے کے اوپر سب سے پہلا وار ہی مسجد اور خانقاہ کی طرف سے ہوتا ہے، جہاں اپنے متعلقین اور مریدین کو اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دی جاتی کہ وہ صاحب جبہ و دستار اور سجادہ نشین کے اعمال کی بابت بازپرس کر سکیں، بلکہ اس کی بجائے اگر کوئی اس خطا کا سہواً مرتکب ہو بھی جائے تو اس کے خلاف جو طوفان بدتمیزی اٹھتا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ اور پھر اسی مذہبی رنگ کا استعمال ہمارے یہاں سیاسی جماعتوں میں بھی موجود ہے، کہ جہاں اپنے مطلب کی خاطر جیسا اسلام مطلوب ہے اس کی ویسی تشریح کر دی جاتی ہے اور سوال پوچھنے والے یا انگشت نمائی کرنے والے کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا جاتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں مذہب کے نام پر آزادی اظہار کو کچلنے کا استعمال اب اس قدر جڑیں مضبوط کر چکا ہے کہ یہاں انسان کو اپنا بنیادی حق بھی مانگتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ مبادا صاحب سلامت کی اس کو اپنی شان میں گستاخی سمجھتے ہوئے، راندۂ درگاہ ہونے کا پروانہ جاری کر دیں اور یوں اس انسان کی زندگی اس کے اوپر تنگ کر دی جائے۔

ہمارا مذہب جو ہمیں کشادگی دینے کے واسطے آیا تھا اور جہاں مکہ کے اس معاشرے میں جس کے اندر آزاد انسانوں کی زبان پہ بھی قفل تھے، اس نے وہاں غلاموں کو بھی جرأت کلام کا حوصلہ بخشا اور یوں ایک غلام بھی اپنے آقا سے اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کرنے کے قابل ہو گیا، مگر افسوس اس کی تعلیمات کو یکسر ایک نئے انداز اور روپ میں پیش کرنے کے نتیجے میں آج یہی مذہب سب سے زیادی گھٹن اور غلامی کی تصویر بنتا چلا جا رہا ہے اور آج آزاد انسانوں کو بھی مذہب کی من مانی تاویلات کے تحت غلامی کے شکنجے میں جکڑ کر ان کو اظہار رائے سے محروم کر دیا گیا ہے اور کوئی جو خلاف ورزی کا مرتکب پایا جائے تو اس کو نشان عبرت بنا کر پورے معاشرے کو نفسیاتی خوف اور عبرت پکڑنے کا سبق یاد دلایا جاتا ہے۔

کیا ہم آج جس معاشرے میں زندہ ہیں، اس کے متعلق یہ گمان رکھتے ہیں کہ ہم واقعی آزاد ہیں؟ اگر محض چند بدنی ضروریات اور مذہبی رسومات کے پورا ہونے کا نام آزادی ہے تو ان کو یہ آزادی مبارک ہو، مگر یہ آزادی کا ایک بہت ہی محدود اور پست درجے کا تصور ہے۔

انسان تو حیوان ناطق ہے اور گویائی اس کا بنیادی وصف ہے۔ لیکن انسان کو اسی وصف کے استعمال سے محروم اور کسی دوسری قوت کے تابع کر دیا جائے تو وہاں حقیقی آزادی مفقود ہو جاتی ہے اور غلامی اپنے ڈیرے ڈال لیتی ہے ۔ غلامی ایک ایسی لعنت ہے جو انسان کو درجۂ انسانیت سے گرا کر درجۂ حیوانیت تک پہنچا دیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments