کتابوں کا قبرستان اور شعور کے گورکن



آج مجھے اپنے استاد، سائیں فقیر محمد کی بہت یاد آ رہی ہے۔ سائیں فقیر محمد ریاضی پڑھاتے تھے، جس کی سمجھ مجھے نہ تب کبھی آئی اور نہ آج آتی ہے، اس لئے طالب علمی کے زمانے میں ان کی کلاس میں ان سے بھرپور مار کھانا ایک بلاناغہ عمل تھا۔ میں شہر کے سب سے بڑے پرائمری اسکول میں پڑھتا تھا، جہاں سائیں فقیر محمد پانچویں جماعت کے کلاس ٹیچر ہوا کرتے تھے۔ ان دنوں ہمارے یہاں نجی اسکولوں کا رواج نہ ہونے کے برابر تھا، پورے شہر میں فقط دو  نجی اسکول تھے، جن میں بھی چند نودولتیوں کے بچے پڑھتے تھے، جبکہ شہر کے معززین، ایم این اے، ایم پی اے اور سرکاری افسران کے بچے بھی ہمارے ساتھ ہی سرکاری اسکولوں میں پڑھتے تھے۔

سائیں فقیر محمد نے پھینٹی لگانے میں کبھی بھی اقربا پروری سے کام نہیں لیا، بلکہ اس امر میں وہ ہمیشہ سب کے ساتھ مساوات سے پیش آتے تھے۔ پھر کیا اپنا کیا پرایا، کیا امیر زادہ اور کیا غریب کا بچہ، ان کی کلاس میں اکثریت مرغا بنی ہوئی ہی پائی جاتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاضی تمام علوم کی ماں ہے ، اس لئے اگر یہ نہیں آئی تو پھر چاہے تم کلرک بنو یا کلیکٹر، حرف شناس تو کہلاؤ گے پر تعلیم یافتہ نہیں۔

وہ کہتے تھے کہ تعلیم یاد کرنے کا نام نہیں بلکہ سمجھنے کا نام ہے اور ریاضی واحد مضمون ہے جسے یاد نہیں کیا جا سکتا اور اسے سمجھے بغیر اس پہ دسترس حاصل کرنا ناممکن ہے۔ اس لئے یہ مضمون نہ صرف اپنے وجود میں شعور پرور ہے بلکہ باقی مضامین کو بھی شعوری دائرے میں جانچنے کی تربیت دیتا ہے۔

تعلیم سے متعلق ایک سطر میں اتنی جامع وضاحت پیش کرنے والے ہمارے یہ استاد فائنل پاس تھے، جنہوں نے بہت عرصے بعد اپنے احباب کے اسرار پر میٹرک کیا تھا۔ ان کے وقت میں ساتویں جماعت کو فائنل کہا جاتا تھا اور بقول ان کے فائنل کے انتہائی امتحان میں ایک ہی سوال کا جواب لکھنا ہوتا تھا کہ ”اگر اپ کو ملک کا گورنر جنرل بنایا جائے تو آپ ملک کے لئے کیا کریں گے؟“ ۔ اس امتحانی سوال پہ ذرا سا غور کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس زمانے میں فائنل پاس کرنے والے طالب علم کی اتنی شعوری تربیت کی جاتی تھی کہ وہ اپنے آپ کو ملک کے گورنر جنرل کے طور پہ سوچے اور پھر ملک کی بہتری کے لئے منصوبہ سازی کا ایک نقشہ کھینچ کر دے۔

شومئی قسمت کہ سائیں فقیر محمد اور ان کے عہد کے اساتذہ سے کسب فیض صرف ایلیمنٹری اسکول تک ہی ممکن رہا، بعد ازاں ایسے اساتذہ یا تو ریٹائر ہو گئے یا پھر اللہ کو پیارے۔ اس کے بعد  پرائمری سے لے کر ہائی اسکول تک نئے اساتذہ کی ایک فوج ظفر موج بھرتی ہوئی، جو تھی تو بڑے جامعات سے فارغ التحصیل، پر ان کی اکثریت، بقول سائیں فقیر محمد، حرف شناس تو تھی لیکن تعلیم کی معنویت سے قطعی نابلد۔ ان کی تمام تر توجہ اسکول کے بجائے باقی کام دھندوں پہ رہتی تھی، جبکہ اپنے اور اپنے جیسوں کی قابلیت پہ اتنا بھروسا بھی نہ تھا کہ اپنے بچوں کو اپنی زیر نگرانی اپنے ہی اسکول میں بھرتی کرواتے۔ اس لئے پہلے نجی اسکولوں، پھر نجی کالجوں اور آخر میں نجی جامعات کا دور دورہ۔ پھر شاگرد گاہک اور تعلیم دھندہ بن گئی، علم اسکول بدر کر دیا گیا۔ نتیجتاً اسکول کا بستہ تو وزنی ہو گیا لیکن اخلاقی تربیت ہلکی پڑ گئی اور اجتماعی شعور ”فوت شد“ ۔

جب میں پرائمری میں تھا ، تب میری اماں بھی اسکول ٹیچر ہوا کرتی تھیں۔ ان کی پوسٹنگ شہر سے دور ایک گاؤں میں تھی اس لئے وہ صبح نکلتی تھیں اور واپس آتے آتے شام ہو جاتی تھی۔ اور جن دنوں ہر جگہ چھٹی کا سماں ہوتا تھا انہی دنوں میں اماں کی تربیتی ورکشاپ شروع ہو جاتی تھیں اور ہم اس انتظار میں رہتے تھے کہ کب اماں کی ورکشاپ ختم ہوں اور کب ہم کہیں گھومنے جائیں؟

اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اب تربیتی ورکشاپ نہیں ہوتیں۔ اب تو زیادہ ہوتی ہیں۔ کبھی سرکاری تو کبھی نجی تو کبھی نیم سرکاری ، الغرض مختلف اقسام کی تربیتی ورکشاپس اور بعض اوقات تو یہ ورکشاپ تربیتی جلسے کا روپ دھار لیتی ہیں پر سب بے نتیجہ اور بے وقعت۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ اتنا اعلیٰ تربیت یافتہ ہونے کہ باوجود سرکاری اسکول کے اساتذہ اپنے بچوں کو اپنے ہی اسکول میں اپنے زیر نگرانی پڑھانے کا حوصلہ اب بھی نہیں رکھتے۔ کیونکہ اب تربیت، کچھ سیکھنے سے زیادہ، تربیت پر ملنے والے وظیفے کے لئے لی جاتی ہے۔

سائیں فقیر محمد کو ایک اور بات سے بھی غصہ آتا تھا اور وہ تھی پھٹی ہوئی کتاب۔ ہمارے اسکول کے زمانے میں کتابوں کی واقعتاً بڑی عزت ہوا کرتی تھی۔ اس وقت تدریسی کتب سے کم از کم تین نسلیں استفادہ کرتی تھیں، جب تک کہ سلیبس ری وائیز نہ ہو جائے۔ کتابیں سستی تھیں لیکن مفت ہرگز نہیں تھیں۔ اس لئے جلدساز سے ان پر جلد چڑھوائی جاتی تھی تاکہ کتاب لمبے عرصے تک محفوظ رہ سکے۔ یہ عمل کتاب سے محبت پیداکرنے میں تربیت کی حیثیت رکھتا تھا۔ میری عمر کے اکثر پڑھے لکھے لوگوں کے گھروں میں ایسی ایک الماری اب بھی ضرور پائی جاتی ہے، جس میں اسکول کے زمانے کی کچھ تدریسی کتب محفوظ ہیں اور ان کے سرورق پر کسی نہ کسی کا نام لکھا ہوا ہوتا ہے۔

اب حال یہ ہے کہ ابھی کچھ عرصہ پہلے، جب میں نے اپنی بیٹی کے لئے ایک پٹھان بھائی سے بھنے ہوئے چنے لئے، تو جس کاغذ میں اس نے مجھے چنے پکڑائے وہ چھٹی جماعت کے معاشرتی علوم کی کتاب کا ورق تھا، اور اس کی اشاعت بھی اسی سال کی تھی۔ میں کیونکہ ایک عرصہ معاشرتی علوم پڑھاتا رہا ہوں، اس لئے اس مضمون سے ایک جذباتی وابستگی ہے۔ سو کاغذ کو دیکھتے ہی اس میں لپٹے چنے جیسے اپنا سواد ہی کھو بیٹھے۔ مجھے چنے بیچنے والے سے زیادہ اس پہلے شخص پہ غصہ آ رہا تھا جس نے ایک کتاب کو ردی کا کاغذ بنا دیا۔

چنے بیچنے والا تو مزدور تھا اور شاید ان پڑھ بھی ہو، پر کتاب کو ردی کا ٹکڑا بنانے والا پہلا ہاتھ نہ صرف حرف شناس تھا بلکہ صاحب منصب بھی۔ ویسے قصور شاید اس پہلے شخص کا بھی نہیں، بلکہ برسوں سے پنپتے ہوئے اس نظام کا ہے، جس نے تعلیم سے علم و آگہی اور تربیت اخلاص کو الگ کر کے اسے محض حصول معاش کے لئے سند تک رسائی کا ذریعہ بنا دیا ہے۔

اور اب یہ نظام پہلے سے زیادہ منظم اور مستحکم ہو چکا ہے جس کی کٹھن محنت کا حاصل ہے کہ آج ہر چھوٹے بڑے اسکول میں ایک شکستہ کمرہ یا اگر اسکول بڑا ہے تو اس کی لائبریری میں ایک یا اس سے زائد بوسیدہ الماریاں ایسی بھی پائی جاتی ہیں جہاں تدریسی کتب کا ایک قبرستان ہوتا ہے۔

ان چھوٹے بڑے قبرستانوں کے پیچھے اصل ہاتھ بھی انہی گورکنوں کا ہے جنہوں نے نظام کی باگیں کچھ اس طرح کھینچیں کہ اسکول کی انتظامی معلومات کا ترسیلی نظام (اسکول مینجمینٹ انفارمیشن سسٹم) جو کہ ایک مربوط اور جامع منصوبہ بندی کے لئے مستند معلومات کا ذریعہ تھا اور اس میں اسکول مینجمینٹ کمیٹی ( اساتذہ اور علاقائی معززین) بھی اپنی تجاویز پیش کر سکتے تھے، کو غیر فعال کر دیا اور اب اس کی حیثیت ایک رسمی فارم پر کرنے تک رہ گئی ہے۔ نتیجتاً ٹیکسٹ بک بورڈ کو بغیر کسی منصوبہ بندی کے معلومات (ڈیٹا) بھیجی جانے لگی اور پھر آگے بورڈ نے بھی مندرجہ بالا نظام کے تحت اپنا حصہ ڈالتے ہوئے کتابوں کی ایسی بے ہنگم ترسیل شروع کر دی کہ کچھ کتابیں تو بالکل بھی موصول نہیں ہوتیں اور کچھ ضرورت سے زیادہ ارسال کر دی جاتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جن کتابوں کو پہلے پوشاک سے آراستہ کیا جاتا تھا، اب وہ اسکول کے کسی شکستہ کمرے یا پھر کسی بوسیدہ الماری میں بے گور و کفن لاشوں کی طرح پڑی ہوئی پائی جاتی ہیں۔ اس عالم میں اب اگر وہاں سے کچھ چنے بیچنے والے کے پاس پہنچ بھی جائیں تو کون سی بڑی بات ہے۔ ویسے بھی علم و آگہی سے متعلق ہماری آنکھیں موندنے کی روایت اور اس کی بہتری کے لئے ہمارا عملی تردد، دراصل ہمارے اجتماعی شعور کے آثار مدفن ہیں، جن کے گورکن کسی دوسرے سیارے کے باسی نہیں بلکہ ہم خود ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments