طوطا طوطی اور الو کی کہانی


کسی طوطے طوطی کا ایک بستی سے گزر ہوا۔ سستانے کے لئے بستی کے ایک گھنے درخت پر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر کے بعد طوطی نے محسوس کیا کہ پوری بستی پر ویرانی پھیلی ہوئی ہے۔ کہیں کوئی چہل پہل دکھائی نہیں دے رہی۔ طوطی نے ماحول کی اس وحشت ناکی کی جانب اپنے طوطے کی توجہ دلائی تو طوطے نے کہا کہ تو سچ ہی کہتی ہے۔ میں بھی ایسا ہی محسوس کر رہا ہوں۔ طوطی نے سوال کیا کہ ایسا کیوں ہے۔ طوطے نے کہا کہ بزرگ کہا کرتے تھے کہ جس بستی میں الو بسیرا کر لیتے ہیں وہاں نحوست چھا جاتی ہے اور بستیاں ویران ہو جایا کرتی ہیں۔

طوطا طوطی کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ اسی درخت پر ایک الو بھی بیٹھا ان دونوں کی باتیں بڑے غور سے سن رہا ہے۔ جب وہ اپنی بات ختم کر چکے تو الو اڑ کر ان کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ طوطا طوطی گھبرا گئے، دل ہی دل میں پشیمان بھی ہوئے اور سوچنے لگے کہ الو یقیناً ناراض بھی ہو گا اور ممکن ہے کہ کسی سخت ردعمل کا اظہار بھی کرے لیکن ان کو اس بات پر بڑی حیرت ہوئی کہ الو نے کسی ناراضگی کے اظہار کی بجائے نہایت دوستانہ لہجے میں کہنا شروع کیا کہ لگتا ہے کہ تم اس بستی کے لئے اجنبی ہو اور سستانے کی خاطر کچھ دیر کے لئے اس درخت پر ٹھہر گئے ہو اس لئے آج تم دونوں میرے مہمان ہو۔

وہ دونوں تو پہلے ہی شرمندہ تھے اس لئے شکایت دور کرنے کے لئے الو کی مہمان داری قبول کر لی۔ کھا پی کر جب وہ دونوں جانے لگے تو الو نے طوطی کا ہاتھ پکڑ لیا اور طوطے سے کہا تم اسے کہاں لے جا رہے ہو۔ طوطا حیران بھی ہوا اور اسے بہت غصہ بھی آیا۔ اس نے کہا تم یہ کیا کہہ رہے ہو، یہ تو میری بیوی ہے۔ الو نے کہا غلط، یہ میری بیوی ہے۔ الو نے کہا کہ اس بستی میں ابھی کچھ انسان زندہ ہیں جن میں یہاں کا قاضی بھی ہے، اس کے پاس چلتے ہیں وہ جو بھی فیصلہ کرے گا اسے ہم دونوں کو قبول کرنا ہو گا۔

طوطے نے سوچا کہ کوئی قاضی کسی طوطی کو الو کی بیوی کیسے قرار دے سکتا ہے لہٰذا اس نے قاضی کے پاس جانے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی کیونکہ وہ سچا تھا۔ قاضی نے دونوں کے دعوے سننے کے بعد فیصلہ دیا کہ یہ طوطی الو ہی کی بیوی ہے۔ طوطا طوطی دونوں روتے دھوتے درخت پر واپس آ گئے۔ فیصلہ ہو چکا تھا اس لئے طوطا جانے لگا تو الو نے کہا کہ کیا وہ اپنی طوطی کو لے کر نہیں جائے گا؟ اس نے کہا کہ جب قاضی نے فیصلہ سنا ہی دیا ہے تو اب کیا ہو سکتا ہے۔ الو نے کہا کہ نہیں یہ تمہاری ہی بیوی ہے اور تمہارے ساتھ ہی جائے گی۔ میں تو تمہیں یہ بتانا چاہ رہا تھا کہ بستیاں الوؤں کی وجہ سے نہیں، عدل و انصاف کے ایسے جاہلانہ اور سفاکانہ فیصلوں کی وجہ سے ویران ہوا کرتی ہیں (منقول) ۔

کن کن عدل و انصاف کے منافی فیصلوں پر رویا جائے۔ ہر مارشل کو قانونی تحفظ دینے والے فیصلوں پر۔ صدر کو جب با اختیار بنایا جائے تو اس کے بار بار اسمبلیاں توڑ دینے پر۔ ذوالفقار علی بھٹو کو سولی پر چڑھا دینے پر۔ میر مرتضیٰ بھٹو کو پولیس کے ہاتھوں مارے جانے کے باوجود قاتلوں کا اتہ پتہ نہ ملنے پر۔ ساہیوال کے سانحہ کے بعد کسی مجرم کو بھی سزا نہ سنائے جانے پر۔ ایم کیو ایم کا شیرازہ بکھر جانے کے بعد سانحۂ بلدیہ ٹاؤن کے واقعے کی فراموشی پر۔

ماڈل ٹاؤن لاہورمیں پولیس  ہی کے ہاتھوں 14 لاشیں اور 100 سے زائد زخمی ہوجانے کے باوجود کسی کے بھی مجرم ثابت نہ ہونے پر۔ پھانسی پا جانے والے ان بے قصوروں پر جن کو پھانسی پا جانے کے برسوں بعد عدالت بے قصور قرار دے دے۔ قصور میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے بعد ان کی برہنہ ویڈیوز فروخت کرنے والوں کے لئے کسی بھی سزا کا کوئی فیصلہ سامنے نہ آنے پر۔ مسیحی میاں بیوی کو اینٹوں کے بھٹے میں جھونک دینے والوں کو کوئی سزا نہ سنائے جانے پر۔

سڑک پر کھڑے ایک کانسٹیبل کو بے دردی کے ساتھ کچل دینے والے کی رہائی پر۔ درجنوں افراد کے قاتل، عذیر بلوچ کی ہر مقدمے کی برات پر۔ احسان اللہ احسان کو نہایت ادبی انسان قرار دے کر فرار کر دینے جیسی مجرمانہ غفلت پر۔ ایک قاتل، چور اور ڈاکو پر اپنی پارٹی چھوڑ کر ”مرضی“ کی پارٹی میں شامل ہونے کے بعد پاک صاف قرار دیے جانے پر یہاں تک کہ ایک دو نہیں پورے 20 پریزائیڈنگ آفیسرز کے ووٹوں کے تھیلے سمیت اغواء ہو جانے کے 16 گھنٹے بعد از خود بازیاب ہو جانے کے بعد کسی بھی قسم کی قانونی چارہ جوئی نہ ہونے پر۔

وہ کون سی نا انصافی ہے جو معاشرے میں ہوا اور پانی کی طرح عام نہیں۔ ایک ایسی قوم جو بھارت میں ہو یا پاکستان میں، دونوں ممالک میں اسے پاکستان بنانے کے جرم کی سزا مل رہی ہو، اس کے شہر کی تعلیم گاہوں سے لے کر ملوں اور کارخانوں تک دوسرے شہروں کا کوٹا ہو، جس پر 1973 سے کوٹا سسٹم کا غیر منصفانہ قانون نافذ کیا گیا ہو اور جس کے لئے گورنمنٹ کی ساری نوکریوں کے دروازے بند کردینے کے بعد یہ سمجھا جائے کہ ملک میں انصاف کا بول بالا ہے، کتنی بڑی بھول ہے۔

ان تمام حقائق کو سامنے رکھ کر کسی طوطا طوطی کی طرح یہ سمجھا جائے کہ ملک کی تباہی، بربادی اور ویرانی حالی کا سبب کوئی ”الو“ ہے، ذمہ دار عدالتوں کے ججوں، امتیازانہ قوانین اور اختیارات پر اپنی ضد اور انا غالب کرنے والوں سے سراسر چشم پوشی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

جب تک عدالتوں سمیت ہر شعبہ زندگی کی ترازوئیں ظالم اور مظلوم کے فرق کو اپنی عدل کی ترازو میں تول کر ظاہر کرنے کی بجائے آلو پیاز ہی تولتی رہیں گی ، اس وقت تک پورے پاکستان میں امن و امان بر قرار نہیں رہ سکتا۔ ضروری ہے کہ ہر شعبۂ زندگی میں عدل و انصاف کو رائج کیا جائے بصورت دیگر 22 کروڑ عوام ہی کیا 15 لاکھ فوج بھی اس کی سرحدوں کی حفاظت کے لئے ناکافی ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments