اوپن بیلٹ اور ضمیر کی آزادی


موجودہ حکومت نے سپریم کورٹ کے روبرو ایک مشاورتی سوال بذریعہ صدارتی ریفرنس برائے رائے پیش کیا تھا، حکومت بہ وجوہ آئین کی شق 226 کی عملاً انحراف کی آرزو مند تھی۔ اور ہے۔ برائے مشورہ پیش کیا گیا سوال تو بہت سادہ اور سہل تھا کہ آیا آئین میں تبدیلی، ترمیم کیے بغیر کیا سینیٹ کے انتخابات الیکشن کمیشن کے قوانین میں ترمیم کر کے منعقد کرانا ممکن ہے؟

معزز عدالت میں دوران سماعت اس کو پیچیدہ و کثیر پہلو بنا دیا گیا حالانکہ سوال ہذا تاحال بہ اصرار بین السطور میں از خود تسلیم کرتا ہے کہ یہ غیر مبہم آئینی شق 226 ہے (جس کا براہ راست حوالہ ریفرنس میں موجود نہیں ) لکین ملک کے سپریم لاء کی حیثیت سے حکومتی ارادے اور خواہش کی راہ میں ناقابل عبور رکاوٹ ہے۔ بادی النظر میں معزز و محترم اعلیٰ عدلیہ کو اس مشاورتی سوال پر غورکرنے سے فی الفور انکار کرتے ہوئے ریفرنس صدر مملکت کو واپس بھجوانا دینا چاہیے،  اس پر تنبیہی نوٹ بھی تحریر ہونا چاہیے۔

جناب صدر مملکت نے ماضی کی طرح اس بار بھی ریفرنس دائر کرتے ہوئے اس کے مطالعہ کی زحمت اٹھائی اور نہ ہی اپنا ذہن استعمال کیا ہے ۔ خیر یہ میری رائے ہے، یقیناً عدلیہ کو قانون دان ہی درست مشورہ معاونت فراہم کر سکتے ہیں، میرے جرأت مند اظہار کی بنیاد ملک کے سینیئر وکلاء اور سابق ججر و لاء افسران کی کھلے عام بیان کردہ آراء پر منحصر ہے، پھر یوں ہوا اور کیونکر ہوا سے دامن بچاتے ہوئے بصد احترام کہنا چاہتا ہوں کہ معزز عدلیہ زیر غور سوال کا جواب تلاش کرنے میں سرگرداں ہوئی تو محسوس ہو رہا ہے کہ نظریۂ ضرورت کے از سر نو احیاء کی سعی لاحاصل ہو رہی ہے کیونکہ عدلیہ نے اس سوال کو سینیٹ انتخابات میں ووٹوں کی خرید و فروخت کے واقعاتی پہلوؤں کے ساتھ جوڑ کر اپنے لئے سوالات کی پیچیدہ تر گتھی ترتیب دے لی ہے۔

سماعت کے دوران سامنے آنے والے عدالتی تبصروں سے ملک بھر کے قانونی و سیاسی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔ قابل اطمینان بات ہے کہ  24 فروری کی سماعت میں قابل صد احترام چیف جسٹس نے ببانگ دہل کہہ دیا ہے کہ اگر آئین خفیہ رائے شماری کا کہتا تو پھر آئینی رائے مقدم ہو گی۔ اس میں رد و بدل پارلیمنٹ کا استحقاق ہے عدلیہ کا نہیں۔ بلاشبہ آئین کی شق 226 خفیہ رائے شماری کا حکم لگاتی ہے تو یہ یقین رکھنا چاہیے کہ اب زیر غور سوال منطقی انجام کو پہنچ گیا ہے۔

اس سے پیشتریہ کہا جا رہا تھا کہ الیکشن کمیشن نے اب تک سینیٹ انتخابات میں روپے پیسے کے استعمال کو روکنے کے لئے کچھ نہیں کیا اور یہ کہ اب عدلیہ اس حوالے سے بھی جائزہ لے گی ۔ اگر میں غلطی پر نہیں تو یہاں معزز ججز اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے ہیں کہ گویا وہ آئینی رٹ پٹیشن کی سماعت فرما رہے ہیں حالانکہ صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ سے محض مشورہ طلب کیا گیا ہے حکم نہیں۔ جبکہ مشورہ کبھی بھی حکم کا درجہ نہیں رکھتا۔

سماعت کے دوران بینچ نے 226 پر توجہ مرکوز رکھنے کے برعکس آرٹیکل 59 کی ذیلی شق 2 پر بحث چھیڑ دی جہاں واحد قابل انتقال متناسب نمائندگی کے ذریعے انتخاب کی بات کی گئی ہے۔

سوال اٹھا کہ اگر متناسب نمائندگی کے تحت ہی سینیٹرز تعینات ہونے ہیں تو پھر انتخابی عمل کی کیا ضرورت ہے؟ صوبائی اسمبلی میں جس پارٹی کی جتنی عددی حیثیت ہے، اسے اسی تناسب سے سینیٹ میں نمائندگی مل جانی چاہیے۔

ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے میں عرض کرنا چاہوں گا کہ متذکرہ صدر ذیلی شق میں واحد قابل انتقال کی بات کی گئی ہے وہ متناسب نمائندگی کے دوسرے پیرائے کو فوقیت دیتی ہے، یہاں متناسب نمائندگی کے لئے لسٹ سسٹم بروئے کار لانے کا معاملہ نہیں جیسا کہ خواتین و اقلیتی یا ٹیکنوکریٹ کی مختص نشستوں کے لئے اختیار کیا جاتا ہے۔ اگر لسٹ سسٹم کو سینیٹ کے انتخاب کے لیے اپنا لیا جائے تو پھر اسمبلیوں میں کم تعداد رکھنے والی جماعتوں کی نمائندگی کا امکان ہی ختم ہو جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر اس وقت پنجاب میں ایک سینیٹر کی انتخابی کامیابی کے لئے جتنے ووٹ درکار ہیں، قاف لیگ کے پاس اتنے ارکان اسمبلی نہیں۔ اگر متناسب نمائدنگی کے اصول کو لسٹ سسٹم (پہلے سے ترجیحی بنیاد پر سینیٹ کے لئے جمع کرائی گئی پارٹی لسٹ) کے ساتھ مدغم کر دیا جائے تو قاف لیگ کو موجودہ صورتحال میں سینیٹ کی ایک نشست بھی نہیں مل سکتی لیکن واحد قابل انتقال ووٹ کے طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے ارکان مطلوبہ تعداد میں ووٹ دے کر جناب کامل علی آغا کو سینیٹر منتخب کرا لیں گے اور یہ عمل کرپٹ پریکٹس شمار نہیں ہو گا بلکہ یہ دو سیاسی اتحادی جماعتوں کا باہمی تعاون کہلائے گا، جس کی سیاسی اصول کے تناظر میں ستائش کرنی چاہیے۔

بلوچستان اسمبلی میں جہاں سیاسی تقسیم زیادہ ہے مگر ارکان اسمبلی کی تعداد دیگر صوبوں سے کم ہے، ساڑھے چھ ووٹ ایک سینیٹر منتخب کرانے کے لئے درکار ہوتے ہیں، وہاں سیاسی جماعتیں باہمی اعتماد و تعاون سے ایک انتخابی مرحلے میں اپنی اتحادی جماعت کو ووٹ دے دیتی ہیں اور بعد ازاں دوسری بار وہی اتحادی جماعت پہلی جماعت کے تعاون کا بدلہ چکا دیتی ہے۔

قائد جمہوریت میر حاصل خان بزنجو پہلی بار جب سینیٹر منتخب ہوئے تو نیشنل پارٹی نے مطلوبہ ووٹ دیگر جماعتوں سے حاصل کیے اس عمل میں سیاسی مفاہمت تعاون اور شخصیتی پہلو مؤثر کردار ادا کر رہا تھا نہ کہ نوٹ یا خریداری۔

محترم ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی بھی باہمی سیاسی جماعتی تعاون کی وجہ سے ایوان بالا کے رکن منتخب ہوئے تھے ۔ایسی بیسیوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جن میں کم عددی پوزیشن والی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی بنیادوں پر تعاون کر کے اپنے ارکان کو ایوان بالا میں نمائندگی دلاتی ہیں اور یوں وہ مرکزی فیصلہ سازی آئین و قانون سازی میں شریک ہو کر وفاقیت کے اصولوں و نظام کو تقویت پہنچاتی ہیں۔

یہ سمجھنا کہ کم تعداد رکھنے والی جماعت اگر اپنا سینیٹر منتخب کرا لے تو لازمی طور پر اس عمل میں سرمایہ نوٹ اور خرید و فروخت کا عنصر شامل ہوتا ہے، مکمل سچائی نہیں البتہ بعض واقعات کو استنثاء ضرور حاصل ہے جیسا کہ 2018ء کے سینیٹ انتخابات میں بلوچستان اسمبلی میں ہوا جب نوٹ اور خلائی قوت کے اتحاد نے مسلم لیگ (ن) کو سینیٹ کی تمام نشستوں سے محروم کر دیا تھا۔ کے پی کے میں البتہ معاملہ برعکس تھا جس کی ویڈیو کی ان دنوں سیاسی ابلاغی و قانونی حلقوں دھوم مچی ہوئی ہے۔

ملک فری مارکیٹ اکانومی پر چل رہا ہے، مارکیٹ کا اصول کہتا ہے جو شے بازار میں برائے فروخت موجود ہو گی اس کے خریدار یا صارف بھی ہوں گے ۔ پی ٹی آئی کے ارکان تسلیم کر چکے ہیں کہ انہوں نے ووٹ کے بدلے رقم وصول کی۔ کس لیے کیسے اور کس کے کہنے پر یہ سوال تحقیقات کا طالب ہے، چاہیے تو یہ تھا کہ پی ٹی آئی اپنے تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط کرے لیکن وہ اپنا کیا دھرا انتخابی عمل پر دھر کر پوری آئینی سکیم منہدم کرنے پہ تل گئی ہے جو صحت مندانہ سیاسی سوچ کے منافی ہے۔

چیئرمین سینیٹ کے انتخاب سے لے کر عدم اعتماد کی تحریک تک روپے پیسے اور طاقت کے رسوخ کا سلسلہ فعال رہا تھا جس سے پی ٹی آئی مکمل طور پر مستفید ہوئی تھی۔

حکومت کے پیش کردہ سوال کی غایت یہ ہے کہ سینیٹ کا انتخاب شو آف ہینڈ سے کرایا جائے یا خفیہ بیلٹ کو قابل شناخت بنا لیا جائے تاکہ بعد میں معلوم ہو سکے کہ کسی رکن نے پارٹی امیدوار کو ووٹ دیا ہے یا نہیں؟

جمہوری اصول دنیا بھر میں رائے دہندہ کی رائے کو دائمی طور پر خفیہ رکھنے کی جانب گہرا فکری رجحان و عملی نظام رکھتا ہے ۔ یہی طریقہ رائے دہندہ اور اس کی رائے کی حفاظت یقینی بناتا ہے۔ آئین میں وزیراعظم کے انتخاب، عدم اعتماد کی تحریک اور بجٹ کی منظوری کے لئے اراکین کو پارٹی ڈسپلن کے مطابق ووٹ دالنے کا پابند کیا گیا دیگر امور پر انہیں آئین اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق رائے دینے کی مکمل آزادی عطا کرتا ہے، البتہ شاید پولیٹیکل ایکٹ پارلیمانی پارٹی کے فیصلے پر عمل کا پابند بناتا ہے۔

آئین میں ووٹ دیتے ہوئے جن امور پر پارٹی ڈسپلن کی قدغن ہے، ان کی خلاف ورزی ہر پارٹی سربراہ سپیکر یا چیئرمین کو جیسی بھی صورتحال ہو متعلقہ رکن کو نا اہل قرار دینے کی درخواست دے سکتا ہے سپیکر یا چیئرمین ایسی درخواست کو مزید کارروائی کے لئے الیکشن کمیشن کو بھجوانے کا پابند ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر سپریم کورٹ شفافیت کے قیام کے لیے سینیٹ انتخاب کو آئینی ترمیم کے بغیر انتخابی قواعد میں ضروری رد و بدل کے ذریعے قابل شناخت بیلٹ پیپر یا شو آف ہینڈ کے حق میں مشورہ دے دے تو کیا ایسی صورتحال میں اراکین اسمبلی کو اپنے ضمیر کے مطابق آزادانہ طور پر ووٹ دینے کے حق سے بھی محروم کرنا نہیں پڑے گا؟

1973ء کے بنیادی آئین میں اراکین اسمبلی کو ضمیر کی آزادی کے مطابق قانون سازی میں رائے دینے کا مستحق قرار دیا گیا۔میرا بنیادی استدلال یہ ہے کہ اوپن بیلٹ کی حمایت کرتے ہوئے تمام متعلقہ حلقوں کو اراکین اسمبلی کے ضمیر کی آزادانہ رائے کے اظہار کو بھی ملحوظ رکھنا اور اسے تحفظ دینے کا مشورہ دینا چاہیے، متناسب نمائندگی کے اصول کو لسٹ سسٹم بنانے کی بجائے ( 2 ) 59 کے مطابق واحد قابل انتقال ووٹ کے رائج طریقہ کار کو بدلنے سے احتزاز کرنے میں ملک، وفاقیت، پارلیمنٹ اور جمہوریت کی بقاء ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments