افغان جہاد کی حقیقت
ایک ڈکٹیٹر نے اقتدار پر اپنے ناجائز قبضے کو حلال کرنے کے لیے عالمی سامراجی طاقتوں کے حکم پر ریاستی پراپیگنڈے کا خوب استعمال کیا اور عوام الناس کو باور کروانے کی پوری کوشش کی کہ سوویت یونین نے دراصل افغانستان میں اپنی افواج اس لیے بھیجی ہیں کیونکہ وہ بحر ہند کے گرم پانیوں تک رسائی چاہتا ہے۔
حالانکہ تاریخی حقائق ہمیں بتاتے ہیں کہ افغانستان بہت پہلے سے ہی سوویت یونین کی حامی بلکہ زیر اثر سوشلسٹ/ کمیونسٹ ریاست بن چکا تھا اور 1977 میں افغانستان میں روسی افواج کے داخلے تک اس کی حیثیت محض ایک سوویت پراکسی ریاست کی تھی۔ کابل میں افغان کمیونسٹ پارٹی کا ایک دھڑا ”پرچم“ اقتدار میں تھا۔ پرچم پارٹی سے تعلق رکھنے والے نور محمد ترکئی افغانستان کے پہلے صدر سردار داؤد کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار میں آ چکے تھے۔
دوسری جانب افغان کمیونسٹ پارٹی کا دوسرا دھڑا ”خلق“ بھی حصول اقتدار کے لیے سوویت یونین کو اپنی حمایت کا یقین دلا رہا تھا۔ افغانی کمیونسٹوں کی یہ آپسی چپقلش تھی جس نے حالات بہت خراب کر دیے تھے۔ مخالف سیاست دانوں کو چن چن کر قتل کیا جا رہا تھا۔ خلق پارٹی کے سرکردہ لیڈر ماسکو میں سیاسی پناہ لے چکے تھے۔ وہیں اس دھڑے نے ماسکو کو اپنے اصل سوشلسٹ ہونے کی یقین دہانیاں کروائیں اور سوویت سرکار کو کابل میں حکومت کی تبدیلی کے لیے اکسایا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ لینن کی موت کے بعد سے ہی سٹالنسٹ کمیونزم نے سوویت یونین پر اپنے پنجے گاڑ لیے تھے۔ سوشلزم کے مساوات اور آزادی کے آفاقی اصولوں کے برخلاف ذاتی قسم کی سینٹرلائزڈ ڈکٹیٹر شپ قائم کر لی گئی تھی۔ نتیجے میں اندرونی سیاسی خلفشار اور تناؤ بڑھتا گیا۔ بیرون ممالک میں بے جا پراکسی جنگی اخراجات نے معیشت کمزور کر دی تھی۔ اسی لیے ابتدا میں ماسکو کابل کی اندرونی سیاسی لڑائی میں فریق بننا نہیں چاہتا تھا۔ تاہم افغان سیاست کی اندرونی دگرگوں صورتحال اور بڑھتے ہوئے بحران کے سبب آخر کار انہیں کابل میں فوج بھیجنی پڑی۔
یہ ایک عارضی آپریشن تھا۔ حالات ٹھیک ہوتے ہی سوویت افواج نے واپس چلے جانا تھا۔ مگر امریکہ نے اس ساری بدلتی صورتحال کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہا۔ افغانستان کے پڑوس میں انہیں ضیاء کی صورت ایک کٹھ پتلی اتحادی مل گیا۔ جنرل صاحب بھٹو کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر ناجائز طریقے سے بزور بندوق اقتدار پر قابض ہوئے تھے ، انہیں بھی غیر آئینی اقتدار کو سند قبولیت دلوانے کے لیے عالمی سرپرستی کی ضرورت تھی۔
اسی لیے منظم طریقے سے سرکاری سطح پر یہ بیانیہ بنایا گیا کہ افغانستان کے بعد سوویت یونین کا اگلا ہدف پاکستان پر قبضہ کرنا ہے تاکہ کراچی کی گرم پانیوں کی بندرگاہ تک رسائی حاصل کر سکے۔ اس لیے پاکستان پر امریکی مدد سے سوویت یونین کو افغانستان سے نکالنا لازمی ہو چکا ہے۔ لہٰذا پاکستان کو اپنے دفاع کے لیے امریکہ کی مدد کرنی چاہیے کہ وہ کمیونسٹ سوویت یونین کو شکست دے سکے۔ عوام میں یہ بات پھیلائی گئی کہ ”امریکی جہاد“ ناگزیر ہو چکا ہے۔
امریکہ اور اس کے خطے میں سب سے بڑے عرب اتحادیوں کی مالی مدد سے جہاد کا آغاز کیا گیا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ اگر جہاد شروع نہ ہوتا تو روسی فوج نے منصوبے کے مطابق کابل میں حکومت تبدیل کر کے جلد واپس چلے جانا تھا۔ اگر پاکستان میں کوئی بھی عوامی ووٹ سے آئی جمہوری حکومت ہوتی وہ کبھی امریکہ۔ سوویت باہمی لڑائی میں کرائے کے جہادی کا کردار ادا نہ کرتی۔ یوں افغانستان امریکی جہاد کے نتیجے میں ہونے والی تباہی بربادی سے بچ جاتا۔ اور آج افغانستان اور پاکستان دونوں ملکوں کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات بالکل مختلف ہوتے
- افغانستان، طالبان اور امن کا خواب - 19/08/2021
- وادی سندھ کی قدیم ہڑپائی تہذیب کے لوگ اور آریائی ڈی این اے کی جدید تحقیق - 17/04/2021
- کیا قدیم مقدس ویدیں پنجاب اور ہریانہ میں لکھی گئیں تھی؟ - 02/04/2021
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).