سینیٹ میں اوپن بیلٹنگ کے لیے صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ نے رائے محفوظ کر لی


پاکستان

پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے سینیٹ میں اگلے ماہ ہونے والے انتخابات اوپن رائے شماری سے کروانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے محفوظ کر لی ہے۔

جمعرات کی سماعت کے دوران عدالت نے یہ واضح کیا ہے کہ صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 226 جو کہ خفیہ رائے شماری سے متعلق ہے کے بارے میں رائے مانگی ہے تو عدالت اپنے آپ کو صرف اس حد تک ہی محدود رکھے گی جبکہ متناسب نمائندگی کا معاملہ چونکہ عدالت کے سامنے نہیں آیا اس لیے اس بارے میں کوئی رائے نہیں دے گی۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید نے جواب الجواب دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ووٹ کا جائزہ لینے سے سیکریسی ختم نہیں ہوتی۔ انھوں نے کہا کہ کوئی شہری پیسہ لے کر ووٹ نہ دے یہ جرم ہوگا لیکن اگر کوئی ایم پی اے ووٹ نہ ڈالنے کے پیسے لے کر ووٹ ڈالے تو جرم نہیں ہوگا۔

اٹارنی جنرل نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ یہ صدارتی ریفرنس سیاسی ہے۔ اُن کے مطابق اصل میں یہ ریفرنس آرٹیکل 226 کی تشریح کے لیے ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سینیٹ الیکشن: تحریک انصاف اور عمران خان کے لیے ’خطرے کی گھنٹی‘؟

مریم نواز: ’پتلی گلی سے نہیں نکلنے دوں گی، اب یہ میرا دوسرا روپ دیکھیں گے‘

’خفیہ رائے شماری کا حق چھینا تو اسمبلی کے ارکان ڈیپ سٹیٹ کے رحم وکرم پر ہوں گے‘

بینچ میں موجود جسٹس یحییٰ آفریدی نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا ریفرنس پر سپریم کورٹ کی رائے حتمی ہوگی جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ حکومت عدالت کی رائے کی پابند ہو گی۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ کیا عدالتی رائے پر نظر ثانی درخواست آ سکتی ہے، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ریفرینس پر نظر ثانی درخواستیں نہیں آ سکتی۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے پھر یہ سوال کیا کہ کیا ایسا فیصلہ درست ہو گا جس کے اثرات سیاسی ہوں اور نظر ثانی بھی نہ ہو سکے جس پر خالد جاوید کا کہنا تھا کہ عدالت ہر چیز کا تفصیل سے جائزہ لے کر فیصلہ کرتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کا سیاست سے تعلق نہیں اور وہ صرف آئین کی تشریح کرے گی جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالت ریفرنس پر رائے دے یا نہ دے اثرات سیاسی ہی ہوں گے۔

اٹارنی جنرل نے بھی اس کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ صدارتی ریفرنس ہرگز سیاسی معاملہ نہیں لیکن اس کے سیاسی نتائج ضرور ہوں گے۔

اس سے قبل جمعرات کے روز چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے صدارتی ریفرنس کی سماعت شروع کی تو پاکستان بار کونسل کے وکیل منصور عثمان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ سینیٹ کے انتخابات الیکشن ایکٹ سنہ 2017 کے تحت ہی ہوتے ہیں لیکن ان انتخابات کو آئین کے مطابق ہی سمجھا جائے۔

انھوں نے کہا کہ اگر انتخابات میں کوئی بدعنوانی سامنے آتی ہے تو اس کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔

انھوں نے کہا کہ آئین کے ارٹیکل 226 کے بارے میں جو رائے مانگی گئی ہے اس میں یہ واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ تمام انتخابات خفیہ رائے شماری سے ہوں گے ماسوائے وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلیٰ کے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر رشوت ووٹ سے جڑی ہو تو پھر کیسے اس سے روگردانی کی جا سکتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر تمام سیاسی جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ سینیٹ کے انتحابات میں پیسہ چلتا ہے تو پھر اس معاملے کو ٹھیک کیوں نہیں کیا گیا۔

بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے پاس اس مسئلے کو ٹھیک کرنے کا موقع تھا لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان

انھوں نے کہا کہ پیسوں کی وصولی کی جو مبینہ ویڈیو سامنے آئی ہے تو کیا دوبارہ ایسا ہی ہونا چاہیے، جس پر پاکستان بار کونسل کے وکیل کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

منصور عثمان نے کہا کہ ایک طرف حکومت نے آئین کے آرٹیکل 226 میں ترمیم کے لیے پارلیمنٹ میں بل جمع کروایا جبکہ اوپن رائے شماری سے متعلق آرڈیننس بھی لے آئی ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرڈیننس کیوں جاری ہوا یہ معاملہ عدالت کے سامنے نہیں آیا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت اگر کوئی رکن اسمبلی اپنی پارٹی کی پالیسی کے خلاف ووٹ دیتے ہیں تو وہ نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن یہ بات کیسے کر سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ بات خفیہ رائے شماری کی ہو رہی ہے اور وہ کسی رکنِ پارلیمان کی اہلی اور نااہلی کی باتیں کر رہے ہیں۔

بینچ میں موجود جسٹس اعجاز الاحسن نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب عدالت کی طرف سے پوچھا جاتا ہے کہ بدعنوانی کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں تو کوئی جواب نہیں ملتا۔ انھوں نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن سویا ہوا ہے اور وہ کہہ رہا ہے کہ اسے مت اٹھاؤ۔

انھوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کام صرف انتخابات کروانا نہیں بلکہ بدعنوانی کو بھی روکنا ہے۔

صدارتی ریفرنس میں کیا ذکر کیا گیا تھا؟

وفاقی حکومت نے اگلے ماہ ہونے والے سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹنگ کے ذریعے کروانے سے متعلق سپریم کورٹ میں جو ریفرنس دائر کیا تھا، اس میں بات صرف ایک ہی نقطے کی تھی کہ کیا حکومت ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کے لیے خفیہ رائے شماری کے بجائے اوپن بیلٹنگ کے ذریعے ووٹ ڈلوانے کے لیے قانون سازی کرسکتی ہے یا نہیں۔

ابھی یہ صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہی تھا کہ حکومت نے اس ضمن میں ایک صدارتی آرڈیننس جاری کردیا۔ چونکہ آئین کے آرٹیکل 226 جو کہ خفیہ رائے شماری سے متعلق ہے، میں ترمیم کے لیے حکومت کے پاس پارلیمان میں درکار حمایت حاصل نہیں ہے تو اس لیے آرڈیننس جاری کیا گیا جو کہ صرف ایک وقت ہی استعمال ہوگا یعنی اگلے ماہ ہونے والے سینیٹ کے انتخابات میں اس کا نفاذ ہوگا۔

حکومت کی طرف سے آئین کے آرٹیکل 226 میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تو حزب مخالف کی جماعتوں نے اس کی مخالفت کی اور حکومت کے پاس اس میں ترمیم کے لیے دو تہائی کی اکثریت نہیں تھی۔

اس صدارتی آرڈیننس میں سپریم کورٹ سے اس آرٹیکل کے حوالے سے رائے طلب کی گئی تھی۔ اٹارنی جنرل، صوبہ پنجاب، خیبرپختون خوا اور بلوچستان کے ایڈووکیٹس جنرل نے تو اس صدارتی ریفرنس کی حمایت کی اور یہ مؤقف اختیار کیا کہ سینیٹ کے انتخابات میں رشوت کو روکنے کے لیے حکومت کا یہ اقدام اچھا ہے، اس لیے سپریم کورٹ ایسا کرنے کی اجازت دے۔

اس صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے چاروں ارکان کو بھی طلب کر رکھا تھا اور حکومت کی یہ کوشش تھی کہ الیکشن کمیشن بھی اس مطالبے کی حمایت کرے۔

اس کے علاوہ اس ریفرنس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے بینچ کی طرف سے بھی جو ریمارکس آئے ان میں بھی ساری ذمہ داری الیکشن کمیشن پر عائد کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ایسا نہیں ہوا اور چیف الیکشن کمشنر نے تو صاف کہہ دیا کہ سینیٹ کے انتخابات کروانے کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے، اس لیے الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت خفیہ ووٹنگ ہی کروائے گا، تاہم انھوں نے کہا کہ بدعنوانی کو روکنے کے لیے الیکشن کمیشن کی طرف سے اقدامات کیے گئے ہیں۔

سینیٹ

سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل اور پھر پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی سمیت حزب مخالف کی جماعتوں اور وکلا کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل کی طرف سے اس صدارتی ریفرنس اور اس سلسلے میں جاری ہونے والے آرڈیننس کی مخالفت کی گئی اور کہا گیا کہ اگر سینیٹ کے انتخابات میں ارکان پارلیمنٹ کو پیسہ دیا جاتا ہے تو ثبوت سامنے آنے کی صورت میں ہی کسی کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے، محض مفروضوں کو بنیاد بنا کر نہ تو قانون سازی کی جاسکتی ہے اور نہ ہی آرڈیننس جاری کیا جاسکتا ہے۔

اس صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اور بینچ میں شامل جسٹس اعجاز الاحسن کا مؤقف یہی تھا کہ سیاسی جماعتوں کے ارکان پارلیمان کو دیکھتے ہوئے سینیٹ میں ان کی نشستیں ہونی چاہیے تبھی متناسب نمائندگی کی تعریف پوری ہوتی ہے تاہم سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل، رضا ربانی اور حزب مخالف کی جماعتوں کے وکلا نے اس نکتے سے اتفاق نہیں کیا تھا۔

اٹارنی جنرل نے سماعت کے دوران یہاں تک کہہ دیا تھا کہ لوگ اسلام آباد میں نوٹوں کے بیگ لیے پھر رہے ہیں اور تمام کی نظریں اس صدارتی ارڈیننس کے بارے میں عدالتی فیصلے پر لگی ہوئی ہیں۔

الیکشن کمیشن نے اٹارنی جنرل کے اس بیان کا نوٹس لیا اور ان سے شواہد مانگے لیکن ابھی تک اٹارنی جنرل آفس کی طرف سے کوئی ریکارڈ الیکشن کمیشن میں جمع نہیں کروایا گیا۔

ایک مہینے تک اس ریفرنس کی سماعت ہونے پر اٹارنی جنرل نے بھی صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ عدالت اس ریفرنس پر رائے جلد دے کیونکہ سینیٹ کے انتخابات میں بہت کم وقت رہ گیا ہے۔

پاکستان بار کونسل اور سندھ بار کونسل کی طرف سے اس صدارتی ریفرنس میں فریق بننے پر بھی اٹارنی جنرل خوش نہیں تھے اور انھوں نے اس پانچ رکنی بینچ سے کہا کہ اس صدارتی ریفرنس میں چونکہ عدالت سے رائے مانگی گئی ہے اس لیے عدالت کو کسی فریق کو سننے کی ضرورت نہیں ہے اور عدالت ان کے یعنی اٹارنی جنرل کے دلائل سننے کے بعد اپنی رائے دے۔

سینیٹ کے انتخابات کے لیے ووٹنگ 3 مارچ کو ہونی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp