اخلاق ،اقدار اور معاش


علم الاخلاق (Ethics) انسانی زندگی کے وہ اہم اصول ہیں جنہیں ہم اخلاقی عمل سے منسوب کر تے ہیں۔ پس علم الاخلاق انسانوں کے با ہمی روابط یا سماجی تعلقات کی نسبت سے وہ رویہ یا کردار ہے جسے آپ سماجی طور پر مناسب یا غیر مناسب تصور کر سکتے ہیں۔ علم معاشیات کا مبداء علم الاخلا ق ہے۔

تخلیق انسان مادیت و روحانیت کا حسین امتزاج ہے جہاں جسم و روح دو قوتوں کی شکل میں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ جہاں دنیاوی ضرورتیں انسانی جسم کو متوازن رکھتی ہیں وہیں اخلاق و حصائل اس کی روحانی ترقی یا تنزلی کا باعث بنتی ہیں۔ یہ ترقی یا تنزلی کا سفر اس کے معاملات میں نمایاں طور پر اثر انداز ہوتا ہے۔ روح کی بیماریاں جسم کی بیماریوں سے الگ ہوتی ہیں۔ معا شیات کے مادی پہلوں کو گاہے بگا ہے اجاگر کیا جاتا ہے ۔

آج ہم آپ کو ایسی اخلاقی بیماری سے متعارف کرواتے ہیں جو آگے چل کر معاشی انحطاط کا باعث بنتی ہے۔ حرص ، طمع یا لالچ وہ اخلاقی بیماری ہے جو بہت سے معاشی اور معاشرتی مسائل کا موجب بنتی ہے۔ غرض لالچ کا اصل مفہوم یہ ہے کہ کسی چیز میں حد درجہ دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب رغبت اختیار کرنا۔ پس لالچ ایک ایسا رویہ ہے جس میں فرد زیادہ سے زیادہ کی خواہش میں خود کو دوسروں سے پیچھے چھوڑتا چلا جا تا ہے۔

لالچ چاہے پیسے کی ہو یا مرتبے کی ہر دو طرح سے تباہی کا باعث بنتی ہے ، یہ وہ روحانی بیماری ہے جس کو دوسروں میں ڈھونڈنا آسان اور خود میں تلاش کرنا مشکل ہے۔ انفرادی سطح پر لالچ ایک معاشرتی برائی ہے مگر اگر اسے اجتماعی سطح پر دیکھا جائے تو یہ لوگوں کے درمیان تعاون کو ختم کر نے اور روابط کے منقطع ہو نے کا باعث بنتی ہے جس سے افراد اور ادارہ جات کی پیداوار پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور یہ اثر مجمو عی طور پر پوری معیشت تک جا پہنچتا ہے۔

Greed creates unsustainable growth or growth at the expense of social justice.

آج ہمیں رحمت العالمین ﷺ سے لے کر صحابہ کرام ؓ اسلاف کے کار ہائے نمایاں تو درکنار، ہمیں ان کے نام کنیت ،لقب تک یاد نہیں۔ آج ہم دولت،  محل بنانے  اور دیگر طیبات حیات سے متمتع ہونے کے باوجود اضطراب و بے چینی سے کیوں دوچار ہیں؟ اسلامی تعلمیات کے علاوہ یہ حقیقت غیروں نے بھی تسلیم کی کہ دولت شہرت غریبوں سے نفرت ، غرور آپ کو کبھی چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔

ڈاکٹر الیگزینڈر کانن کہتا ہے ”نیک راہوں پر چلنے سے ہم ایک ایسے افق پہ جا پہنچتے ہیں جہاں اللہ سے شرف کلام حاصل ہوتا ہے ، کتنے عظیم ہیں وہ اسرار جن کا علم ہمیں علیم و خبیر رب کے آفاقی دماغ سے تعلق قائم کرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے“

دراصل یہ وہ نا قابل تردید حقائق ہیں جنہیں آج ہم سادگی کا نام دے کر نظر انداز کر رہے ہیں وہی حقیقاً دل کا سکون ہیں۔

معاشرے میں یتیم بچوں کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرنا، علم کے متلاشی کی مالی امداد کر دینا غم زدہ کا غم بانٹ لینا، غربیوں سے میل جول ، یہ وہ اثاثہ ہیں جو جسم میں عروق و اعصاب میں سیل رنگ و بو بسا دیتے ہیں ، وہ لوگ قابل دید ہیں جو ان بے سہاروں کی خاطر سب کچھ قربان کر تے ہوئے کائنات کی سب سے بڑی لذت کو حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں مکمل ضابطۂ حیات موجود ہے۔ ہماری اخلاقی تہذیب ہے ، ہر ایک کی اپنی حیثیت ہے۔ ہمارا اخلاق ہمارا سرمایہ ہے۔ انسان پھول کی مانند ہے ، کسی سے محبت جیسی خوشبو جنم لیتی ہے جس سے سارا معاشرہ مہک اٹھتا ہے اور کسی کے کردار سے حقارت نفاق کی وہ گھن آتی ہے کہ معاشرہ ٹوٹ جاتا ہے۔ انسان ایک برادری ہونے کے باوجود منقسم ہو جاتے ہیں۔

ایک قول ہے کہ ”Those who live by hate die by hate & those who live by sword die by sword۔“ نفرت کبھی نفرت سے ختم نہیں ہو سکتی ۔ آج ہم گمنام منزل کے مسافر ہیں۔ آج ہم مصائب و الم میں گر گئے ، وہی سب ہم نے اپنا لیا جس کے باعث تباہی کو دعوت خود دی جاتی ہے ، فرمایا ”کیا بدکاروں کا یہ خیال ہے کہ وہ ہم سے بچ کر نکل جائیں گے؟ ان کا یہ خیال نہایت خام اور غلط ہے۔

ہم یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ دنیا مکافات عمل ہے ، کئی اعمال کی بدولت حادثات، بیماری ،مالی نقصان، تجارتی خسارے اور متعدد آلام میں گر چکے ہیں۔ بے حیائی ، فحاشی، عریانی ، تہذیب و اخلاق کی پستی نے ہمیں تباہی کے دہانے لا کھڑا کر دیا۔ ہمارا معاشرہ تو کجا ہمارے اداروں میں بھی درس اخلاق کا فقدان ہوتا جا رہا ہے۔  روشن خیالی کے نام پر خود اپنی ہی تباہی کا سامان کیا جانے لگا ہے۔  علم ، دنیاوی جاہ و جلال کے ہوتے ہوئے بھی ہمارا قلب ویران ہے۔

دراصل جس جگہ سکون ہے ہم وہ منزل ہی بھول چکے۔ منزل تک پہنچنے کے لیے ہی تو دماغ میں فکر کا دیا دل میں وجدان کی ہمہ بین آنکھ لگائی ، جسم میں عروق و اعصاب کا حیرت انگیز جال بچھایا ، کاروان بہار کو رنگ و بو دیا۔ ساتھ ہی فرمایا“ جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور احکام خداوندی کو مانتے ہیں جو شرک کے عیب سے پاک ہیں جو اللہ کی راہ میں حسب استطاعت صرف کرتے ہیں اور جن کے دل اس خیال سے لرزاں رہتے ہیں کہ انہوں نے اللہ کے پاس جانا ہے۔‘‘

اسلام کے زریں اصولوں پر غیروں نے عمل کیا تو ترقی کی منازل کے عروج تک جا پہنچے اور ہم اخلاق کی بدترین گھاٹی کے مسافر بن گے۔ ایک مغربی حکیم کا قول ہے ’نفرت نفرت سے نہیں ختم ہو سکتی ۔ اس پر محبت سے غلبہ حاصل کرو‘ ۔ دنیا کو محبت کرنا سکھاؤ اور جنت اپنی تمام تر رنگینوں ، رعنائیوں کے ساتھ یہیں نمودار ہو جائے گی۔ ترک محبت موت ہے۔ جدید تعلیم کی محنت لا حاصل ہے ، وہ تعلیم ہی کیا جو کم از کم انسانیت، تہذیب ، آداب زندگی کے طور طریقے ہی نہ بتا سکے۔

جدید تعلیم یاقتہ افراد اپنی ہی اخلاقی تہذیب ،معاشرتی اقدار، حجاب کو ضعیف العقیدہ لوگوں کی تخلیق سمجھتے ہیں۔ ہم کامیابی کا راستہ چھوڑ کر کامیابی کے متلاشی ایسے ہی ہے جیسے مردہ گھوڑے پر چابک برسانا۔ یہ کامیابی نہیں بلکہ انسانیت ڈوب رہی ہے۔ ہمیں اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلنا ہو گا۔ ہمارا جملہ معاشی نظام سودی ہو چکا جو ترقی نہیں تنزلی کا باعث ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments