بالاکوٹ حملے اور 'سرپرائز ڈے' کو انڈیا اور پاکستان نے رائے عامہ کی تبدیلی کے لیے کیسے استعمال کیا؟


انڈیا

‘اگر میں پاکستانی افواج کے شعبہ تعلقات عامہ پر بھروسہ کروں جو میں کرتی ہوں تو پاکستان نے انڈیا کے دو طیارے گرائے تھے۔۔۔‘، ’26 فروری 2019 کو انڈیا کے حملے کے نتیجے میں پاکستان میں 300 افراد ہلاک ہوئے تھے۔۔۔۔‘

یہ دعوے، آج سے دو برس قبل انڈین فضائیہ کی جانب سے پاکستان کے شمالی علاقے بالاکوٹ میں شدت پسند تنظیم کے کیمپ کو نشانہ بنانے کے دعوے اور پاکستانی فضائیہ کے طیاروں کی جوابی کارروائی کے بعد پاکستان اور انڈیا کی سرحد کے دونوں اطراف موجود نوجوانوں کے ہیں۔

پاکستان کے شہر راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی ماہا قیوم ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ ’14 فروری 2019 کو ہونے والے پلوامہ حملے کے پیچھے بھی مودی حکومت کا ہاتھ تھا۔‘

جبکہ دوسری جانب انڈیا کے شہر لکھنؤ سے تعلق رکھنے والی رتوجا تیواری کہتی ہیں کہ ’وہ 300 لوگ افسوسناک طور پر مارے گئے لیکن پاکستان نے ایک دہشتگرد حملہ کیا تھا، تو اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔‘

ماہا قیوم

پاکستانی نوجوان ماہا قیوم کا دعویٰ ہے کہ ’14 فروری 2019 کو ہونے والے پلوامہ حملے کے پیچھے بھی مودی حکومت کا ہاتھ تھا‘

یہ بھی پڑھیے

بالاکوٹ میں انڈین طیارے پاکستانی طیاروں سے کیسے بچے؟

’292 شدت پسندوں کی ہلاکت‘ کی حقیقت کیا ہے؟

’سوچا بادلوں میں پاکستان کو طیارے دکھائی نہیں دیں گے‘

بالاکوٹ فضائی حملہ: وہ سوال جن کے جواب نہیں مل سکے

رتوجا تیواری

لکھنؤ سے تعلق رکھنے والی رتوجا تیواری کہتی ہیں کہ ‘وہ 300 لوگ افسوسناک طور پر مارے گئے لیکن پاکستان نے ایک دہشتگرد حملہ کیا تھا، تو اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا’

انڈیا کے شہر فرید آباد سے تعلق رکھنے والی مونیکا ورما بھی اس دعوے سے اتفاق کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ‘سب کو پتا ہے کہ انڈیا میں ایسی حرکتیں اور اپنی دہشتگرد عزائم کو پورا کرنے میں کس ملک کو سب سے زیادہ مزا آتا ہے اور فائدہ ملتا ہے۔’

مونیکا کے مطابق انھیں اندازہ تھا کہ ‘پلوامہ حملے کے بعد پاکستان کو ’سزا‘ دی جائے گی اور وہ بالاکوٹ کی صورت میں دی گئی۔‘

ادھر پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے یاسر منیر کا اب بھی یہی خیال ہے کہ ’پاکستان نے انڈیا کے دو طیارے مار گرائے تھے جن میں سے ایک ملبہ انڈیا کی جانب گرا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اس سے ہمیں یہ احساس ہوا کہ ہماری افواج ہماری حفاظت کے لیے ہر وقت موجود ہیں۔‘

واضح رہے کہ انڈین حکومت کی جانب سے پاکستان پر حملے کے دوران تین سو افراد کی ہلاکت اور پاکستان کی جانب سے دوسرا طیارہ مار گرانے کے دعوے کی آزادانہ تصدیق نہیں ہو سکی تھی۔

پلوامہ

دو برس قبل، 26 اور 27 فروری کے روز انڈیا اور پاکستان میں جہاں افواہوں اور جھوٹی خبروں کا بازار گرم تھا، وہیں دونوں ریاستوں کی جانب سے متضاد بیانات دیے جا رہے تھے اور دونوں ممالک میں مختلف بیانیوں کو تقویت مل رہی تھی۔

آج دو برس بعد بھی سرحد کے دونوں اطراف نوجوان اس دوران دونوں ریاستوں کی جانب سے کیے گئے ایسے دعوؤں پر یقین رکھتے ہیں جن میں سے بیشتر غیر مصدقہ ہیں تاہم دونوں ممالک کی سیاسی قیادت آج بھی جنگ سے متعلق بیانیوں کو بیچتی دکھائی دیتی ہیں۔

اس کا ثبوت گذشتہ دو روز کے دوران دونوں اطراف سے کی جانے والی ٹویٹس سے ملتا ہے۔

انڈیا کے رکنِ پارلیمان اور حکمراں جماعت بی جے پی کے منوج کوتک نے ٹویٹ کیا کہ ’26 فروری کو علی الصبح انڈین ایئر فورس نے نریندر مودی جی کی گھر میں گھس کر ماریں گے پالیسی کے مطابق اچھا سلوک کیا۔ ہمیں اپنی جانباز افواج پر فخر ہے۔’

آج پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ‘پاکستان کے خلاف فضائی حملےکی شکل میں انڈیا کی عسکری مہم جوئی پرہماری جوابی کارروائی کو 2 برس مکمل ہونے پرمیں قوم کو مبارکباد اور اپنی افواج کو سلام پیش کرتا ہوں۔’

آج سے دو برس قبل 26 اور 27 فروری کے دوران جب حالات خاصے کشیدہ تھے اور سرحد کے دنوں جانب ایک جنگی ماحول پیدا ہو چکا تھا ایسے میں دونوں ملکوں نے رائے عامہ کو تبدیل کرنے کے لیے ایسا کیا کیا اور اس ساری صورتحال سے انھیں کیا فائدہ حاصل ہوا؟

اس حوالے سے ہم نے پاکستان میں متعدد اخبارات کے مدیر کی حیثیت سے کام کرنے والے صحافی بدر عالم اور انڈیا میں ٹی ایف آئی پوسٹ پورٹل کی نوجوان مدیر شوبھانگی شرما سے بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ دونوں ریاستوں میں 26 اور 27 فروری کے بعد سے بیانیے کیسے تبدیل ہوئے۔

پاکستان اور انڈیا میں موجود بیانیوں سے کس کو فائدہ ہوا؟

پاکستان

بدر عالم کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے حالیہ دنوں میں ارنب گوسوامی کی واٹس ایپ پر بات چیت لیک ہونے اور عدالتی کمیشن سے انڈیا کی حد تک تو یہ واضح ہے کہ وہاں حکومت پلوامہ حملے کے بعد یہ چاہتی تھی کہ رائے عامہ کو اس طرح موڑا جائے کہ انھیں آنے والے انتخابات میں اس کا فائدہ ہو۔

خیال رہے کہ گذشتہ ماہ انڈین اینکر ارنب گوسوامی اور بھارتی براڈ کاسٹ آڈیئنس ریسرچ کونسل (بی اے آر سی) کے سابق سربراہ کی 2019 میں بالاکوٹ حملے سے پہلے کی واٹس ایپ پر بات چیت منظر عام پر آئی تھی، جس میں وہ مبینہ طور پر ‘معمول سے بڑی کارروائی’ کا ذکر کر رہے ہیں اور اس واقعے کی کوریج سے اپنے چینل کی ریٹینگ بڑھانے کی بات کرتے ہیں۔

بدر عالم کا مزید کہنا تھا کہ ‘لوگوں کو صحیح معلومات تک رسائی نہ ہونے کا فائدہ نریندر مودی کی جماعت نے اٹھایا اور ان کی جانب سے بالاکوٹ حملے کو الیکشن مہم کا اہم حصہ بنایا گیا جس سے انھیں دوبارہ اقتدار میں آنے میں مدد ملی۔’

بدر عالم کا کہنا تھا کہ ‘دوسری جانب پاکستان میں اس بیانیے کو تقویت دی گئی کہ ہماری افواج ناقابلِ تسخیر ہیں اور ہمارا دفاع بہت مضبوط ہاتھوں میں ہے۔’

انھوں نے کہ لیکن دونوں جانب حکومتوں نے کوئی تحقیقاتی کمیشن بٹھانے کی کوشش نہیں کی کہ ایسا کیا ہوا کہ ہمسایہ ملک کے ساتھ تعلقات اس نہج تک پہنچ گئے۔ اس موقع کو غور و خوض کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت تھی تاکہ آئندہ ایسے واقعات نہ ہوں۔

انھوں نے کہا کہ ‘اس سے نہ صرف حکومتوں کے درمیان تعلقات خراب ہوئے بلکہ دونوں ملکوں کے عوام میں بھی ایک دوسرے کے بارے میں منفی خیالات پیدا ہوئے۔’

انڈیا اب گھر میں گھس کر مار سکتا ہے

انڈیا

ادھر ٹی ایف آئی پوسٹ پورٹل کی نوجوان مدیر شوبھانگی شرما کا کہنا تھا کہ ’26 فروری کی کارروائی نے بہت بڑی تبدیلی لوگوں کی اس سوچ میں لائی ہے کہ انڈیا ‘اب گھر میں بھی گھس کر مار سکتا ہے’ اور پاکستان اب ‘ایٹمی طاقت’ ہونے کی دھمکی نہیں دے سکتا۔’

ان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں یہ پیغام گیا کہ انڈیا اب پاکستان کی دہشت گردی کی سرگرمیوں کو اور زیادہ برداشت نہیں کر سکتا۔

انھوں نے کہا کہ ‘ انڈین حکومت کی اس کارروائی نے پورا بیانیہ تبدیل کر دیا ہے اور اب پاکستان یہ دھمکی نہیں دے سکتا کہ وہ ایک ایٹمی طاقت ہے اور ہم اس سے ڈریں کیونکہ اب بات کافی بدل چکی ہے۔’

ہم نے اس حوالے سے پاکستان اور انڈیا کے نوجوانوں کے تاثرات پر مبنی ویڈیوز پاکستان میں موجود میڈیا کے حقوق و آزادی کے لیے کام کرنے والی تنظیم میڈیا میٹرز کی شریک بانی صدف خان کو دکھائیں۔

انڈیا

انھوں نے پاکستان میں موجود نوجوانوں کی باتوں سے غیریقینی صورتحال میں معلومات کے کسی معتبر ذریعے کی عدم موجودگی اور انڈیا کے نوجوانوں کی باتوں سے پاکستان کو پلوامہ حملے کے عوض ‘سزا’ دینے اور انڈیا میں عوام میں موجود ‘غصے’ کی جھلک نظر آنے کے بارے میں بات کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘انڈیا میں بغیر تحقیقات کے پلوامہ حملے کے حوالے سے پاکستان پر الزام عائد کرنے کے باعث وہاں بظاہر خاصہ دباؤ پیدا ہوگیا جو انڈیا کی جانب سے غیرذمہ داری کا ثبوت تھا اور ریاستی پروپیگینڈا کے باعث اکثر سچ کی کھوج کے حوالے سے کوئی نہیں سوچتا۔’

انھوں نے کہا کہ ‘دوسری جانب پاکستانی نوجوانوں کی غیر یقینی اور سوشل میڈیا کا رخ کرنا ہمیں یہ بتاتا ہے کہ یہاں صحیح معلومات تک عدم رسائی کا مسئلہ ہے۔’

انڈیا

تو پھر سچ کی تلاش کیسے کی جائے؟

اس حوالے صدف خان کہتی ہیں کہ یہاں ہمیں یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی ہو گی کہ دونوں ملکوں میں نقطہ نظر مختلف ہو سکتا ہے لیکن ہماری نسل کے پاس معلومات تک رسائی پھر بھی اس سے زیادہ ہے جو ہم سے پچھلی نسلوں کے پاس تھی، اور اس کی کھوج کے لیے ہمیں تھوڑی سی محنت کی ضرورت ہے۔

بدر عالم کا کہنا تھا کہ ‘جب انڈیا نے یہ دعویٰ کیا کہ بالاکوٹ میں انھوں نے سینکڑوں افراد کو ہلاک کر دیا ہے، تو بین الاقوامی اداروں کی جانب سے مختلف طریقوں سے اس بات کی تردید کی گئی۔’

انھوں نے کہا کہ اچھی صحافت اسی بات کا نام ہے کہ آپ سچ کی کھوج کے لیے تحقیق کریں اور اس کی پرتوں کو ہٹا کر سچ کی تلاش کریں جس کے ذریعے آپ پرواپیگینڈا کو شکست دینے کے ساتھ صحیح معلومات تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp