27 فروری سرپرائز ڈے


یہ سچ ہے کہ ہندوستان نے کبھی پاکستان کو دل سے قبول نہ کیا ہے اور نہ ہی کرے گا۔ وقتی ضرورت کے تحت اور مصلحتاً وہ پاکستان کی تجارتی بنیادوں پہ تعریف کرتا رہتا ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے لیے ہندوستان کے دل میں نفرت کی آگ اب آتش فشاں بن چکی ہے جو وقتاً فوقتآً لاوا اگلتی رہتی ہے۔

ہندوستان کی پاکستان سے نفرت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، دنیا جانتی ہے کہ انڈیا کے دل میں ہمیشہ ہی مسلمانوں سے بغض اور نفرت کے جذبات رہے ہیں اور جب بھی انڈیا کو موقع ملا اس نے کھل کر اس کا اظہار بھی کیا ہے۔ خود ہندوستان میں موجودہ حالات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ہندوستان مسلم امہ سے کس قدر نفرت رکھتا ہے۔ کشمیر میں بھی انڈیا نے مظلوم کشمیروں کے حقوق پامال کر کے اس نے مسلم دشمنی کی تمام حدیں پار کر دیں ہیں۔

آج ہندوستان کی کوشش ہے کہ ہندوستان سے تمام مسلمان نکل جائیں اور انڈیا صحیح معنوں میں ہندوستان بن جائے ، اس کے لیے وہ اب اپنے ہی ملک کے اندر بھی انتہائی نازیبا ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔ ہندوستان کی مسلم دشمنی کا اندازہ ہم ایک مہاسبھائی لیڈر کے اس جملے سے بخوبی لگا سکتے ہیں کہ ”اگر آٹھ سو سال کے بعد اسپین میں مسلمانوں کا نام و نشان مٹ سکتا ہے تو ہندوستان میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا“ ۔ اب مودی اور مودی حکومت کی پاکستان بلکہ مسلم دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں رہی، یہ اب پوری دنیا جانتی ہے کہ مودی حکومت ایک ایسی حکومت ہے جو ہمیشہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے سے باز نہیں آئے گی۔

ایک مثل مشہور ہے کہ جو قومیں اپنی تاریخ بھول جاتی ہیں، ان کا جغرافیہ انہیں بھلا دیتا ہے ، ہمیں اس سے سبق لینا چاہیے اور اپنے ملک کے دشمنوں پہ ہمیشہ نظر رکھنی چاہیے۔ ہندوستان کشمیر کو اپنا حصہ سمجھتا ہے اور اس کے لیے اس نے گزشتہ 72 سالوں سے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی زندگی حرام کر رکھی ہے۔ اس نے اب تو کشمیریوں سے ان کے تقریباً تمام حقوق چھین لیے ہیں۔ پچھلے سال مودی حکومت نے اپنے آنے والے انتخابات میں اپنی مقبولیت کا گراف بلند کرنے اور دنیا کے سامنے پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے پلوامہ اٹیک کا ایک خود ساختہ ڈرامہ رچایا۔

15 مئی کو 3 بجکر 15 منٹ پہ سرینگر سے 20 کلومیٹر دور جموں ہائی وے پہ جب سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے ، ایک سکیورٹی کے قافلے پہ جس میں کئی گاڑیاں اور بسیں شامل تھیں کو ایک بارود سے بھری گاڑی نے ٹکر مار دی جس کے نتیجے میں 40 سکیورٹی اہلکار مر گئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انڈین حکومت تحقیقات کرواتی مگر ہمیشہ کی طرح فوری طور پر الزام پاکستان پہ دھر دیا گیا اور بیان داغ دیا گیا کہ بھارت کے خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جیش محمد نامی تنظیم نے مقامی میڈیا کو یہ بتایا ہے کہ یہ حملہ اس تنظیم نے کروایا ہے اور یہ تنظیم پاکستان میں موجود ہے۔

مودی حکومت نے اپنے عوام کے جذبات سے کھیلنے کا فیصلہ کر لیا اور یہ سوچا کہ اس واقعے کو بڑھاوا دے کر وہ آنے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ لہٰذا اس نے پاکستان کو دھمکیاں دینی شروع کر دیں اور الزام پاکستان پہ لگا دیا کہ یہ سب پاکستان کی کارستانی ہے۔ مودی نے پاکستان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ”پلوامہ حملے کا جواب کیسے دینا ہے، کب دینا ہے، کہاں دینا ہے اور کس طرح دینا ہے ، ان سبھی معاملات کا فیصلہ فوج کرے گی“۔

پاکستان حکومت نے اس امر پہ فوری رد عمل ظاہر کیا اور پاکستان کے وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے پلوامہ حملے کے نتیجے میں انڈیا کی طرف سے لگائے گئے الزامات کو من گھڑت، ڈرامہ اور بالکل بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ حملہ منظم ہے تو ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ آیا اس کا فائدہ ہمیں ہو گا یا کہ خود انڈین حکومت کو۔ مودی حکومت کو اپنی ہار واضح نظر آ رہی ہے لہٰذا وہ ایسا کوئی تنازع کھڑا کرنے کے لیے بے تاب ہیں جس کا فائدہ اس کی حکومت کو ہو۔

بقول شاعر
جب کریلا نیم پہ پہنچا تو کڑوا ہو گیا
جھوٹ اس نے اس قدر بولا کہ سچا ہو گیا

اس کے بعد ہندوستان نے پلوامہ اٹیک کے بدلے کا بہانہ بنا کر پاکستانی بارڈر سے ملحقہ علاقوں جس میں سیالکوٹ، نارووال اور ظفروال سیکٹر شامل ہیں پر بلا اشتعال فائرنگ اور حملے شروع کر دیے۔ پاک فوج جو ہمیشہ جاگتی رہتی اور ہوشیار رہتی ہے ، نے جوابی کارروائیاں کیں۔ اس سے اگلے دن یعنی 26 فروری کو پونچھ کے علاقے کوٹلی پہ جو کہ لائن آف کنٹرول کے بالکل پاس ہی ہے انڈین جنگی جہاز حملے کی نیت سے پہنچے۔ پاک فضائیہ کے طیارے فوری طور پر پہنچ گئے۔ جنہیں دیکھ کر انڈین جنگی جہاز دم دبا کر واپس بھاگ کھڑے ہوئے اور گھبراہٹ میں اپنا بوجھ بھی اسی علاقے میں پھینک گئے تاکہ وہ تیزی سے باڈر کراس کر سکیں۔ پاک فضائیہ کی بروقت کارروائی کی بدولت پاکستان بھاری جانی و مالی نقصان سے بچ گیا۔ پاک فضائیہ اسی وقت ان جہازوں کو مار گرا سکتی تھی مگر بارڈر کے قریب ہونے کی وجہ سے یہ خدشہ تھا کہ جہازوں کا ملبہ بارڈر کے پار گرے گا، جس پہ انڈیا پاکستان پہ یہ الزام لگا سکتا ہے کہ پاک فضائیہ نے بارڈر کراس کر کے انڈیا پہ حملہ کیا ہے۔

وقت کے تقاضے کے تحت انڈین جہازوں کو نہیں گرایا گیا ، فقط بھگایا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انڈین افواج اس سے سبق سیکھتیں اور مزید کسی حملے کا ارادہ ترک کر دیتیں مگر دوسرے ہی دن 27 فروری بروز بدھ کو انڈیا نے دوبارہ دو جنگی جہاز پاکستان پہ حملے کے لیے بھیجے ،  پاک فضائیہ نے بروقت کارروائی کر کے دونوں جہاز مار گرائے اور ایک پائیلٹ ”ابھی نندن“ کو زندہ گرفتار بھی کر لیا۔ یہ دونوں جہاز پاک فضائیہ کے دو نڈر پائیلٹس جن کے نام ونگ کمانڈر نعمان علی خان اور سکواڈرن لیڈر حسن محمود صدیقی تھے ، انہوں نے گرائے ۔ ونگ کمانڈر نعمان علی خان نے ونگ کمانڈر ابھینندن کے مگ 21 کو گرایا تھا۔ جبکہ سکواڈرن لیڈر حسن محمود صدیقی نے انڈیا کے ایک دوسرے جنگی جہاز ایس یو 30 کو نشانہ بنایا تھا جو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی حدود میں گرا تھا۔

ارادے جن پختہ ہوں، نظر جن کی خدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے
پاک فضائیہ کے ان جوانوں نے پاکستان کا سر فخر سے پوری دنیا کے سامنے بلند کر دیا۔

ان تمام حالات کے دوران پاکستانی حکومت، اپوزیشن اور عوام سب متحد ہو گئے۔ انڈیا کی جانب سے پلوامہ حملے کا پاکستان پر الزام لگائے جانے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے کئی بار ہندوستانی حکومت کو پیش کش کی کہ پاکستانی حکومت کو ثبوت پیش کیے جائیں تاکہ اگر کوئی ہمارے ملک سے غفلت ہوئی ہے تو اس کی کھلی تحقیقات ہوں مگر افسوس کہ ہندوستانی حکومت ایک سال گزر جانے کے بعد بھی اب تک کوئی ایک ثبوت بھی سامنے نہیں لا سکی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ الزامات جو پاکستان پہ اس نے لگائے تھے وہ من گھڑت اور جھوٹ پہ مبنی بلکہ یہ کہا جائے تو درست ہو گا کہ ڈرامہ تھے۔ ہندوستان اب اپنی شرمندگی مٹانے اور دنیا کے سامنے اپنا وقار بحال کرنے کی ناکام کوششیں کر رہا ہے۔

اس وقت سے اب تک انڈین ٹی وی چینلز اور ہندوستان کا سوشل میڈیا جھوٹ پہ مبنی پروگرامز بنا کر اور بیان بازیاں کر کے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے لیکن انڈیا ان اوچھے ہتھکنڈوں اورڈرامہ بازی میں بھی بری طرح ناکام ہو گیا ہے۔ دوسری طرف پاکستانی حکومت، پاکستانی فوج کی حکمت عملی اور عوام کا بھرپور مثبت رویہ دنیا کو یہ باور کرا گیا ہے کہ پاکستان اور پاکستانی عوام ایک پرامن اور بہادر اور ناقابل شکست قوم ہیں۔

یہی نہیں ، پاکستان نے کھلے دل کا واضح ثبوت دیتے ہوئے گرائے گئے جہاز کے زندہ بچ جانے والے شکست خوردہ پائیلٹ قیدی ”ابھینندن“ کو سب سے پہلے تو محب وطن پاکستانیوں سے پٹنے سے بچایا، اس کے بعد اس کے زخموں پر مرہم لگایا، گرما گرم چائے پلائی اور اس شکست خوردہ پائیلٹ کی زبردست خاطر داری کی اور اس کے بعد است یکم مارچ کو واہگہ باڈر پر ہندوستان حکومت کے حوالے کر دیا۔ پاکستان کے اس مثبت رویے کو دنیا بھر میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔

اس ساری صورت حال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جو حق پہ ہوتے ہیں وہ کبھی گھبراتے نہیں اور یہ کہ ہمیشہ جیت سچ کی ہی ہوتی ہے اور جھوٹ ناکام ہوتا ہے۔ کیونکہ ہم ایک اللہ پہ ایمان رکھتے ہیں، اللہ کے سوا کسی سے خوفزدہ نہیں ہوتے ہیں۔ جہاں تک ملکی وقار و سالیمیت کا تعلق ہے ہم اس پہ کبھی سمجھوتہ نہیں کر سکتے اور یہی ہمارے لیے سب سے اہم ہے۔

آج اس واقعے کو گزرے دو سال کا عرصہ بیت گیا ہے اور حکومت پاکستان نے 27 فروری کو پاکستان بھر میں سرپرائز ڈے منانے کا اعلان کیا ہے۔ پچھلے سال اسی دن صدر مملکت نے بہادری کا مظاہرہ کرنے والے افسروں کو اعزازات سے نوازا تھا ۔ان میں ونگ کمانڈر محمد نعمان علی خان اور سکواڈرن لیڈر حسن محمود صدیقی شامل ہیں۔ ان دونوں افسران کو ان کی دلیرانہ بہادری پہ بالترتیب ستارہ جرأت اور تمغۂ شجاعت کے اعزازات دیے گئے۔

سرپرائز ڈے پر پاک فضائیہ نے پچھلے سال بھی زبردست ایئر شو پیش کر کے شاندار دفاعی کامیابی کا جشن منایا۔ پاکستان کے محب وطن عوام اس بار بھی پچھلے سال کی طرح اپنی پاک فوج کے ساتھ بھرپور طریقے سے  دے رہے ہیں اور یہ دن مختلف تقاریب منعقد کر کےمنا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments