شریف اشرف اور کچھ سوالات



خورے کیہڑا بی لا بیٹھے آں محل اگے کنکاں دی تھاں

ترجمہ : کھیتوں میں گندم کے پودوں کی بجائے محل اگ آئے ہیں۔ حیران ہوں کہ میں نے زمین میں کون سا بیج بو دیا تھا؟ یہ شعر ہے ذہین فطین کالم نگار محمد شریف اشرف کا۔ جو ایک اخبار میں باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ موصوف پیشہ ور شجر کار بھی ہیں۔ بنجر زمینوں میں سرسبز جنگل اگاتے ہیں۔ تبھی انہیں سریا، سیمنٹ، ریٹ، بجری کے جنگل اچھے نہیں لگے۔ بہ زباں شاعر یہ شعر سن کر کالم نگار ایک عالم حیرت میں ڈوب گیا۔ عالم تصور میں نظر دور دور تک دوڑائی اور کالم نگار اس شعر کی معنویت پر غور کرنے لگا۔

کیا بدبخت لوگ ہیں ہم بھی کہ فیکٹریوں کو ڈھا کر، انہیں میرج ہالوں میں ڈھال لیتے ہیں۔ دھواں اگلتی چمنیاں بہت سے گھروں کے لئے رزق کا پیغام لاتی ہیں۔ البتہ دلہنوں کی طرح سولہ سنگھار کیے یہ میرج ہال غریب کنواریوں کے لئے حسرت اور مایوسیوں کے پیامبر ضرور ہیں۔ سونا اگلتی زمینوں کو ان کے پلاٹ بنانے کی شکل میں بانجھ کیا جا رہا ہے۔ یہ پلاٹ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ بکتے چلے جاتے ہیں۔ ان کی قیمت بھی بڑھتی رہتی ہے۔

یہ پلاٹ ایک خریدار سے دوسرے خریدار تک پہنچتے پہنچتے گراں ہو کر عام آدمی کی دسترس سے باہر ہو جاتے ہیں۔ چند ماہ بعد ملک بھر میں گندم کی کٹائی کا موسم ہوگا۔ کاشتکار اپنے اپنے کھیتوں سے گندم منڈیوں میں لائیں گے۔ جگہ جگہ سرکاری خریداری مراکز برائے گندم قائم کیے جائیں گے۔ سرکار قحط سے بچنے کے لئے ایک سال کے لئے گندم کا پورا اسٹاک رکھتی ہے۔ کیا سرکار کی ذمہ داری صرف گندم پر ہی ختم ہو جاتی ہے؟ میاں شہباز شریف کے دور سے حکومت لوگوں کی حفاظت کی ذمہ داری سے دستبردار ہو گئی ہے۔

رہی تعلیم۔ ایک عرصہ ہوا سرکار نے منادی کر دی کہ جس کی جیب بھاری ہے صرف وہی تعلیم حاصل کرے۔ باقی رہی عام خلق خدا، انہوں نے پڑھ لکھ کر کرنا بھی کیا ہے؟ اگر انہیں جوں توں کر کے ڈگری مل بھی گئی تو وہ اپنی باقی عمر عزیز نوکری کی تلاش میں ضائع کر دیں گے۔ آج ہمارا پورا ملک ہی رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں ملوث ہو گیا ہے۔ انگریزی زبان کے ایک معروف کالم نگار نے یہ طعنہ نما تجویز دی تھی کہ کاکول اکیڈمی کے نصاب میں رئیل اسٹیٹ کو ایک مضمون کے طور پر شامل کر لیا جائے۔فوجی افسروں نے ریٹائرمنٹ کے بعد اور کرنا بھی کیا ہوتا ہے۔

کالم نگار کی تجویز ہے کہ سول سروس اکیڈمی میں بھی یہ مضمون پڑھا لیا جائے کہ ہماری سول سروس کے لوگ بھی ریٹائرمنٹ کے بعد اسی دھندے میں مصروف پائے جاتے ہیں۔ پھر عام اسکولوں کالجوں میں بھی یہ مضمون کیوں نہ پڑھا لیا جائے کہ ٹاؤن ڈویلپنگ کے علاوہ اس ملک میں اور کوئی انڈسٹری بھی کہاں رہی ہے؟ 1970ء کے عام الیکشن میں ہمارے سیاسی افق پر جو بھونچال آیا تھا وہ روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کی بدولت تھا۔ پاکستان کے سیاسی پیش منظر میں یہ بات بالکل نئی تھی۔ اس نعرے سے پہلی مرتبہ وطن عزیز میں کچلے غریب، مظلوم عوام کا حق زندگی تسلیم کیا گیا۔ ریاست اپنے تمام شہریوں کی ضروریات کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ ان انسانی ضروریات میں سر چھپانے کے لئے ایک گھر لازماً شامل ہے کہ صدیوں سے انسانوں کو غاروں میں رہنے کی عادت نہیں رہی۔

آج پاکستان میں ملک کی معیشت پر قابض لوگوں نے سٹہ بازی کر کے اپنی گوناگوں اغراض کی تکمیل کے لئے زمین کی قیمتیں آسمانوں تک پہنچا دی ہیں۔ پندرہ بیس ہزار ماہوار کمانے والے لوگوں نے اپنی چھت تلے رہنے کے سپنے تک دیکھنے ترک کر دیے ہیں۔ آج کے سیاسی پیش منظر میں سب سے ہم مسئلہ یہی ہے کہ اہل فقہ نظام نو کے تقاضوں کے پیش نظر قرآن و سنت کی روشنی میں زمین کی ملکیت کے ضابطے نئے سرے سے طے کریں۔

زمین کی ملکیت کے اجارہ داروں نے رہائش تو درکنار عام آدمی کے لئے اپنے مردوں کی تدفین بھی مشکل بنا دی ہے۔ زمین کی ملکیت میں ان لوگوں کے حقوق متعین کیے جائیں جو ملک کے شہری تو ضرور ہیں، ووٹر بھی ہیں لیکن کاغذات مال کے ملکیت کے کالم میں ملک بھر میں سے کہیں بھی ایک مرلہ زمین کے مالک نہیں۔ بھٹو کے دور میں زرعی اصلاحات کی گئیں۔ یہ ایک بہت بڑے کام کا آغاز تھا۔ پھر بھٹو کو ہی منظر عام سے ہٹا دیا گیا۔ مغربی پاکستان کی جاگیردار سیاسی قیادت نے ملک گنوا کر اپنی جاگیریں بچا لیں۔

آنے والے حکمرانوں نے اسلام کے مقدس نام سے واپسی کی طرف سفر شروع کر دیا۔ پھر اس معکوس ترقی کو ہی احیائے دین قرار دیا گیا۔ آج فقہ کے ماہرین کے لئے کچھ سوال ہیں۔

1۔ کیا زمین کی ملکیت صرف حقوق پر ہی مشتمل ہے اور اس میں کوئی فرائض شامل نہیں؟

2۔ کسی ریاستی اقدام سے اگر زمین کی نوعیت بدل جائے، وہ زرعی سے کمرشل یا رہائشی ہو جائے تو کیا اس اضافے سے صرف زمین کا مالک کی مستفید ہوگا؟ کیا ملک کے تمام دیگر شہری قیمت کی اس بڑھوتری میں حصہ دار نہیں ہوں گے ؟

3۔ کیا ریاست مفاد عامہ کے لئے بلا قیمت زمین حاصل کر سکتی ہے؟

4۔ کیا زرعی زمین کی ملکیت کے حقوق صرف زراعت تک ہی محدود ہیں؟

5۔ منصفانہ شرح منافع کیا ہے؟

6۔ کیا غیر منصفانہ شرح منافع بھی سود کی تعریف میں آتا ہے؟

7۔ کیا ریاست بے گھر شہریوں کے مفاد کی خاطر زمین کی ملکیت کے قانون میں غیر معمولی بنیادی نوعیت کی تبدیلی کر سکتی ہے؟ محمد اشرف شریف کا نوحہ یہ ہے کہ کھیتوں میں گندم کی بجائے محل اگ آئے ہیں اور وہ حیرت زدہ ہیں کہ وہ کیا بیج بو بیٹھے ہیں۔

لیکن میں حیران و پریشان ہوں وہ کھیت دیکھ دیکھ کر جن کی پلاٹنگ کر دی گئی ہے۔ اب ان کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں سے محل کوٹھوں کی بجائے گھاس جھانکتا رہتا ہے۔ دس دس سال سے یہ تمام رقبہ جات بیکار پڑے ہیں۔ ہزار ہزار ایکڑ کی کالونی میں ایک آدھ گھر بھی تعمیر نہیں کیا گیا اور نہ ہی مستقبل قریب میں یہاں مکانات بننے کے کوئی آثار نظر آتے ہیں۔ ہمیں کئی مرتبہ بھاری زر مبادلہ خرچ کر کے بیرون ممالک سے گندم منگوانی پڑتی ہے۔ کیا ان حالات میں ایسے زمین خالی چھوڑ دینے کا کوئی شرعی اور قانونی جواز ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments