یہ سب میری ماں کی دعا ہے


ہر معاشرے میں، مختلف دور میں مختلف رجحانات، کسی نہ کسی وجہ سے جنم لیتے ہیں اور کسی نہ کسی وجہ سے جلد یا بہ دیر، غیر محسوس طریقے سے یادوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔

ان دنوں ہمارے ہاں، ہر قسم کی گاڑیوں پر ہر قسم کے جملے (یا عبارت) لکھنے کا چلن عام ہے۔ یوں تو بہت سارے دلچسپ اور غیر دلچسپ، معنی خیز اور بے معنی، ذاتی اور خاندانی اوصاف پر مبنی جملے، بہت ساری گاڑیوں پر لکھے دیکھے جا سکتے ہیں مگر ایک جملہ ان دنوں صحیح معنوں میں ان ہے، اور وہ ہے، یہ سب میری ماں کی دعا ہے۔ عہد حاضر کی اصطلاح میں کہا جاسکتا ہے کہ اس جملے کی روزافزوں لائکس، سڑکوں پر بے تحاشا دیکھی جا سکتی ہیں اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ جملہ، روڈ ٹرینڈنگ میں مسلسل ٹاپ پر جا رہا ہے۔

اب اگر وہ گاڑیاں جن پر فرماں بردار اولاد، اس اشتہار کا علم اٹھائے، سڑکوں کو روند رہی ہوتی ہے، ان کا چال چلن دیکھیں تو پہلے تو اس بات کی حیرانی ہوتی ہے کہ ان کے حصے میں دعائیں، آئیں کیسے۔ پھر اس بات کو یوں درگزر کیا جاسکتا ہے کہ چار دیواری میں دعائیں دیتے ہوئے، شاید ان سادہ لوح خواتین نے، چوراہے میں اپنے لخت جگر، برخرداروں کو گاڑی گھماتے (اور نچاتے) نہیں دیکھا ہوگا، وگرنہ انھیں اپنے پرانے (اور روایتی) احساسات سے دستبردار ہونے پر ذرا دیر نہ لگے۔

ادھر ماں کی ممتا اور محبت سے مالا مال، یہ دعائیہ گروہ، اس جملے کی فخر یہ نمائش کے بعد ، شاید یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ جو کہہ دیا، سو کہہ دیا، جو لکھ دیا، سو لکھ دیا، یہ کیا ستم ہے کہ اب اس منتخب تحریری جملے کی پاسداری (اور احترام) کا حق بھی، ہم ہی ادا کریں۔ بھلا ڈرائیونگ (اور ڈرائیونگ کے اسلوب) کا اپنی گاڑی پر نمایاں کردہ ان جذبات سے کیا تعلق؟ ہماری اپنی گاڑی، سو ہماری اپنی مرضی کہ جیسے چلائیں، جیسے بھگائیں۔ کیا حرج ہے جو ہم ادھر سے ادھر جائیں یا ادھر سے ادھر آئیں۔ اوراس میں کیا مضائقہ ہے کہ سڑک پر جب جہاں جانے کو جی چاہے، وہاں جلدی سے جست لگادی جائے! (جلنے وال جلا کریں)

ان کا یہ طرز عمل شاید، اس لئے قابل فہم ہے کہ، مزاجاً ان آزاد بندوں کو، ان کی دنیا سے نکال کر، کسی اور دنیا میں پابند کرنے کی خواہش، ان معصوموں کے ساتھ سراسر زیادتی ہے اور شاید اسی لئے یہ آزاد منش، ٹریفک رولز اور روایات کی ان رسمی زنجیروں کے لئے، خود کو کسی طور آمادہ نہیں کر پاتے اور ان سے بغاوت، ناپسندیدگی اور لاتعلقی کے اظہار کا کوئی موقع ہاتھ (اور گھات) سے جانے نہیں دیتے۔

دعاؤں سے آراستہ یہ جری اور بے خطر، جب اپنے کمالات کا سرعام مظاہرہ کرتے ہیں تو ان کے پہلو بہ پہلو اور گردونواح کی گاڑیوں میں دبکے، اپنی ماؤں کی وہ دعائیں یاد کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جو شاہراہ حیات کے کسی موڑ پر انھیں طویل زندگی کے لئے کبھی دی گئی تھیں۔ یہ بلا، ٹلنے میں، کن کی دعاؤں اور کن کی اداؤں کا کتنا ہاتھ ہوتا (اور ہو سکتا) ہے، اس بعید از قیاس کا قیاس لگانا، منظر کی گواہی دستیاب ہو، تب بھی شاید آسان نہیں۔ ہاں یہ الگ بات کہ معجزوں کے لئے ہر جگہ گنجائش نکالی جا سکتی ہے۔

ان حوصلہ مندوں کو اگر بلا سبب اور (بلا شرکت غیرے) اوور ٹیکنگ یا ٹریفک سگنل کی بے تو قیری کرتے ہوئے دیکھا جائے تو ان کی گاڑی پر ثبت تحریر (یہ سب میری ماں کی دعا ہے) ان کے طرز عمل کی نہایت دلچسپ تصویر کشی کر رہی ہوتی ہے اور اس بارے میں کم از کم، پورے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس علانیہ دعا کا ہرگز یہ منشا نہیں رہا ہوگا کہ ان کے خلف کی طرف سے، سڑک پر ان عزائم کا اس اعتماد اور اس اہتمام سے مظاہرہ کیا جائے۔

یہاں فطری طور پر، ذہن میں یہ سوال ضرور ابھرتا ہے (اور ابھرے گا) کہ ہمارے ہاں وہ گاڑیاں جن پر اس قسم کا دعوی موجود نہیں ہوتا، اور بہ ظاہر، جنہیں ماں کی دعاؤں کا تحفظ حاصل نہیں، ان کا طرز سفر اور طرز عمل کیا بہت شاندار اور قابل تقلید ہے؟ جی ہاں، یہ مشاہدہ بھی سو فیصد درست ہے، کیوں کہ یہاں بھی سگنل شکنی اور افراتفری سمیت، شرمندگی اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملے گا کیوں کہ ہماری سڑکوں پر رواں، دوسری گاڑیوں میں ڈرائیونگ سیٹ پر موجود جانباز مخلوق بھی عام طور ہر، اپنی عادات و اطوار میں، اس دعا یافتہ طبقہ سے کسی طور مختلف نہیں، مگر یہ مشتہر، دراصل خودنوشت تحریر اجاگر کر کے، ذمہ داری کی زیادہ اونچی دیوار تخلیق کر لیتے ہیں اور یوں خود بہ خود، خود کو دوسروں سے زیادہ جواب دہ بنا لیتے ہیں۔ شاید ان کی اسی نمائشی تحریر اور اسی سیماب صفت طبیعت (اور اس طبیعت سے جنم لینے والے مظاہر) کو دیکھتے ہوئے، ان ہوش ربا، برق رفتاروں سے یہ جاننے کی آرزو ضرور جنم لیتی ہے، بتا تیری رضا کیا ہے!

مگر سوال کنندہ کی بدقسمتی ملاحظہ ہو کہ، یہ شہ سوار اس سوال کا جواب دینے سے اکثر، محض اس لئے قاصر ہوتے ہیں کہ جب تک آپ یہ سوال پوچھنے کا ارادہ باندھ رہے ہوتے ہیں، وہ اپنی منزل مقصود پر پہنچ کر کاک پٹ کا دروازہ کھول چکے ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments