بچھڑی کونج قطاراں ۔۔ مبشر سلیم



\"\"

جناح اسپتال کے آوٹ ڈور سے باہر آ کر نو تعمیر ہونے والا برن یونٹ دیکھنے کےغرض سے باہر آیا، تو میری نظر اُس پر پڑی۔ سفید شلوار قمیص، سفید جیکٹ، سیاہ بوٹ، سر پر سفید دُپٹا؛ ایک لمحے کے لیے میری نظریں اُس سے ٹکرائیں، تو اس لمحے میں وقت کی قید سے نکل گیا؛ لیکن وہ رُکی نہیں۔ چند قدم چلنے کے بعد مڑی اور ایک بار میری طرف دیکھا، تو ہم دونوں کے قدم رُک گئے۔ اس کے بال ابھی کالے تھے۔ قدرتی سیاہ بھی ہوسکتے تھے، لیکن اس کے چہرے کی زردی اور تھکاوٹ اس کی عمر کی چغلی کھا رہی تھی۔

اس سے پہلی ملاقات حمید لطیف اسپتال میں ہوئی تھی؛ پرفیسرعزیز کی اہلیہ کی کیمو تھراپی کا تیسرا سائیکل تھا۔ جب میں اسپتال پہنچا، تو ڈاکٹر زیبا ہدایات دے کر رخصت ہو رہی تھیں۔ میں نے آنٹی کو سلام کیا اور کرسی کھینچ کر اُن کے قریب بیٹھ گیا۔ ابھی حال احوال ہی پوچھ رہا تھا، کہ وہ کمرے میں داخل ہوئی اور آتے ہی دوائیوں والا لفافہ نکالا؛ اس میں سے ٹیکے، ڈرپیں، سرنجیں، برینولا نکال کر انھیں میز پر ترتیب سے رکھنا شروع کر دیا۔

”تمھارا نام کس نے رکھا تھا؟“ میں نے پوچھا، تو وہ یک دم چونک اُٹھی؛ ”آپ کو میرا نام کا کیسے پتا چلا؟“ پھر اُس کی نظریں بے اختیار سینے کے بائیں جانب لٹکے آئی ڈ ی کارڈ کی طرف گئیں۔ ”ڈاکٹر زیبا، آنٹی سے کہ گئیں تھیں، کہ آپ فکر مت کیجئے گا، سسٹر گل ناز آپ کا بہت خیال رکھے گی۔“ میری وضاحت پر اُس کے چہرے کا تناو کچھ کم ہوا، لیکن اُس نے کوئی جواب نہیں دیا، بل کہ اپنا کام جاری رکھا۔ ایک ٹیکے کو توڑ کر سرنج میں بھرا اور ڈرپ اُٹھا کر اسٹینڈ کے ساتھ لٹکانے لگی۔ میں کچھ دیر تو خاموشی سے اسے دیکھتا رہا، جب اُس نے ٹیکے نکال نکال کر سرنج میں بھرنے، پھر اُن کو ڈرپ میں منتقل کرنا شروع کیے، تو میں نے پوچھا، ”کب سے یہاں کام کر رہی ہیں؟“ اِس بار غیر متوقع طور پر فوراً بولی، ”میں جناح اسپتال میں کام کرتی ہوں۔ سسٹر طاہرہ شادی کے بعد ایک مہینے کی چھٹی پر تھیں، تو ڈاکٹر زیبا کے کہنے پر وہاں سے چٹھی لے کر یہاں آئی ہوں۔“
”اوہ! آپ جناح میں ہوتی ہیں!“ میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا۔ میں بھی علامہ اقبال میں تیسرے ”پراف“ (پروفیشنل ایگزام) کی تیاری کر رہا ہوں۔“ میری بات سن کر ایک بار بے یقینی سے میری طرف دیکھا، اور بتایا، ”میں آنکولوجی میں ہوتی ہوں۔“ اُس نے بڑھ کر آنٹی کا ہاتھ پکڑا اور ان کے منہ سے ہلکی سی ”اُف“ کی آواز نکلی۔ برینولا لگ چکا تھا۔ جس سرعت سے سوئی لگائی، اتنی ہی پھرتی سے ٹیپیں لگانے کے بعد ڈِرپ چالو کردی، اور گھڑی ہاتھ میں پکڑ کر گرتے قطروں کا حساب لگانے لگی۔ جب اِس کام سے فارغ ہوئی، تو دوبارہ ٹیکے بھرنے لگی۔

میرے دوبارہ پوچھنے پر ”کس شہر سے ہیں؟“ مختصر سا جواب دیا، ”قصور سے“ لیکن اِس بار آواز میں جھجک کچھ کم تھی۔ ”کتنے بہن بھائی ہیں؟“ میں نے حوصلہ پا کر ایک اور سوال داغ ڈالا۔ ”ہم سات بہنیں اور ایک بھائی ہیں۔۔ اور میرا نام میری امی نے رکھا تھا۔‘‘ ایک ہی سانس میں سب کچھ بتا کر اس نے آنٹی کو تھوڑا کروٹ لینے کو کہا اور انجکشن لگا کر دوبارہ ان کے لباس کو دُرست کیا۔ ”والدین کیا کرتے ہیں؟“ میں نے گفت گو کا سلسلہ جاری رکھنے کی کوشش کی۔ ”امی تو چھوٹے بھائی کی پیدائش پر فوت ہو گئی تھیں، اور ابو ٹی بی کے مرض سے تو نکل آئے ہیں، لیکن اب زیادہ وقت بستر پر گذرتا ہے۔“ مجھے وہ سائبریا سے گرم خطوں کو ہجرت کر کے آئی، کوئی پر اُمید کونج دکھائی دیتی تھی۔ کسی گرم آبی خطے کے رقص کرتے پرندے کی طرح، کسی دُھن میں کھوئی؛ کسی اُمید میں گم۔ وہ ساحل پر کھڑی تھی اور میں کشتی میں سوار، اُس سے باتیں کر رہا تھا۔ وہ بیل پر لگی پہلی کلی تھی، جو کھِلنے سے پہلے مجھ سے مل رہی تھی۔ اس کی باتوں کا انداز خشک مٹی پر پڑنے والی بوندوں کے بعد اُٹھنے والی مہک کا سا تھا۔ یا شائد وہ کسی شاداب وادی سے ٹکرا کر میدانی رستوں کو آتی ہوا تھی۔

اِس سے پہلے میں کوئی اور بات کرتا، وہ آنٹی سے طبیعت کا پوچھ کر دوبارہ آنے کا کہ کر چلی گئی۔ میں کچھ دیر پاس رکھے اخبار لے کر ورق گردانی کرتا رہا۔ پھر اُٹھ کر باہر کورے ڈور میں آ گیا۔ کینٹین نظر آئی تو چائے پینے ٹھیر گیا۔ چائے پی کر دوبارہ کمرے میں پہنچا، تو وہ بلڈ پریشر چیک کر رہی تھی۔ کوئی گولی کھانے کو دی اور اسٹول کھینچ کر اُس پر بیٹھ گئی۔
”کتنے عرصے سے نرسنگ فیلڈ میں ہیں؟“ میرے پوچھنے پر گویا ہوئی، ’’سات سال ہو گئے ہیں۔“
”شادی ہو گئی ہے؟“ میرے غیر متوقع سوال پر وہ یک دم چونکی، کچھ دیر چہرے کے غیر یقینی تاثر کے ساتھ بیٹھی رہی۔ گرداب میں پھنسنے کے بعد اس کی کشتی نے ہچکولا کھایا ہوگا۔ جب تھوڑا سا سنبھلی تو منمنائی، ”امی کی وفات کے بعد سارے گھر کی ذمہ داری اب میرے اوپر ہے۔ میری چھوٹی دونوں بہنوں کی نسبت ٹھہر گئی ہے۔ ان کی ذمہ داری ادا ہوگی، تو پھر اُن سے چھوٹی بہنوں کے بارے میں سوچوں گی۔“ یہ کہتے وہ اٹھ کر بلڈ پریشر چیک کرنے میں مصروف ہوگئی۔ ”ڈِرپ مکمل ہونے میں کتنی دیر لگ جائے گی؟“ میں جانتے ہوئے بھی کہ ابھی تو ڈِرپ شروع ہوئی ہے، اگر کوئی مسئلہ درپیش نہ آیا، تو بھی چھہ سات گھنٹے لگ جائیں گے؛ لیکن مجھے اُسی کے منہ سے سننا تھا۔ وہ جب بولتی تھی تو اس کی آواز میں ایک ٹھیراو، ایک متانت، وقار تھا؛ اعتماد تھا؛ ایک سوچ تھی۔ ”یہی کوئی چھہ گھنٹے۔“ یہ کہ کر وہ کمرے سے چلی گئی، لیکن فورا پلٹی اور پوچھا، ”آپ اِس دوران یہیں رہیں گے؟“
”ہاں! پروفیسر صاحب کو سیکرٹریٹ کام ہے، اِس لیے انھوں نے شام تک یہیں ٹھیرنے کی میری ذمہ داری لگائی ہے۔“ وہ ”ہوں!“ بھر کر چلی گئی۔

وہ صحرا میں تپتی دھوپ کا بادل تھی، یا کسی مہیب غار کا رستہ۔ وہ جست جو کے سفر کا ایک گام تھی، یا بند دریچوں کا اکلوتا روزن۔ میں دیر تک اس کے بارے میں سوچتا رہا۔ آنٹی گہری نیند میں جا چکی تھیں، کیوں کہ اُن کے خراٹوں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ میں اخبار میں محو ہو گیا۔ جب آنٹی نے قے کے لیے زور لگایا، تو میں ایک دم گھبرا گیا اور بھاگ کر نرسنگ کاونٹر (اسٹیشن) پر اطلاع دی۔ اگلے لمحے گل ناز وہاں موجود تھی۔ نبض دیکھی، بلڈ پریشر چیک کیا اور کچھ انجکشن لگا ئے؛ وہ وہیں بیٹھ کر طبیعت سنبھلنے کا انتظار کرنے لگی۔ ”گھر کتنے عرصے بعد جانا ہوتا ہے؟“ میں نے گفت گو کا ڈول ڈالا۔ ”یہی کوئی ایک ماہ بعد، اکثر تن خواہ ملنے کے بعد۔۔ لیکن کئی بار دو دو مہینے بھی نہیں جانا ہوتا۔“ اب کی بار اس کی آواز میں پہلے سے زیادہ اعتماد اور بات کرنے میں دل چسپی کا میلان نظر آیا۔ ”بڑی ہونے کے نا تے سے گھر میں تو ہیڈ مسٹریس والی سختی چلتی ہوگی؟“ اُس نے چہرے پر بے اختیا ر اُمڈ آنے والی ہنسی کو دبایا تو میرے چہرے پر دبیز مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ کھلتی تو بہار آجاتی؛ وہ چاندنی کی ٹھنڈک تھی۔ کسی دیے کا ڈبڈباتا شعلہ۔ اُس کی آنکھوں میں بلا کی گویائی تھی۔ چہرے پر مسکراتی دھنک کے رنگ؛ ہونٹوں پر کسی معصوم بچے کی مسکان کا ترنگ۔

”کیا روزانہ یہاں تک ٹیکسی پر آتی ہو؟“ میں نے پوچھا۔ ”نہیں؛ ہوسٹل سے بس پر بیٹھ کر مسلم ٹاون موڑ والے اسٹاپ پر اُتر جاتی ہوں، اور وہاں سے پیدل اسپتال تک مارچ کرتی ہوں، اور ایسے ہی شام کو روانگی ہوتی ہے۔“ اُس نے ایک ہی سانس میں ساری داستان یوں سنا دی، کہ کہیں میں اس موضوع پر کوئی اور سوال نہ کر ڈالوں۔ ”مشکل تو ہوتا ہوگا، روز کا آنا جانا؟‘‘ میں نے ہم دردی کی، تو کہا، ’’ایک مہینے کی تو بات ہے، ابھی تو بہت مزہ آرہا ہے؛ کام بھی کم ہے۔“ اس کی بات سن کر میں مسکرایا، اور کہا، ”اگر سہل پسندی کی عادت پڑ گئی، تو؟“ اُس نے کوئی جواب نہ دیا، اور بلڈ پریشر چیک کر کے باہر چلی گئی۔

آنٹی پھر نیند میں اُتر گئیں؛ میں کچھ دیر دوائیوں سے پمفلٹ نکال کر اپنی پتھالوجی کو آزماتا رہا اور چائے کی غرض سے کینٹین پر چلا گیا۔ کچھ دیر اِدھر اُدھر گھوم کر دوبارہ کمرے میں آ گیا۔ؔ خاموشی دیواروں سے لگی تھی۔ ایک سناٹا سا، ایک سکون تھا۔ میں ”ڈِرپ سیٹ“ میں گرتے قطروں کو گنتا گنتا سو گیا۔ دروازہ کھلنے کی آواز نے مجھے بیدار کیا تو گل ناز بلڈ پریشر چیک کر رہی تھی۔ ڈِرپ آدھی سے زیادہ ختم ہو چکی تھی۔ آنٹی جاگ رہی تھیں؛ میرے پو چھنے پر کہ کوئی مسئلہ تو نہیں، نحیف آواز میں جواب دیا، ”نہیں! اب متلی والی کیفیت بھی قدرے سنبھل گئی ہے۔ جسم میں بہت درد ہو رہا ہے۔“ میرے جواب دینے سے پہلے گل ناز نے کہا، ”ابھی میں نے درد کے لیے انجکشن نہیں لگایا۔ ابھی لگائے دیتی ہوں۔“

”آپ کے ایگزامز کب شروع ہو رہے ہیں؟“ پہلی بار اس نے میرے بارے میں پوچھا۔
”اگلے ماہ کی انیس تاریخ سے۔“
”کون سے شعبے میں دل چسپی ہے؟“ اس نے مزید کریدا؛ مجھے اُس کے پوچھنے کا انداز بہت اچھا لگا؛ جیسے آفتاب سمٹ کر کرہ ارض کی آغوش میں آ کر اس چھوٹے سے کمرے میں چھپ رہا ہو۔ جیسے کوئی باکمال ہستی اپنا لافانی گیت گنگنا رہی ہو۔ پانی کی لہریں پتھروں سے ٹکراتے، شور مچاتی ساز بجا رہی ہوں۔ ”ابھی تو اس بارے میں کچھ نہیں سوچا۔ فی ا لحال تو صرف پیپروں کی فکر ہے۔“ اُس کے بیٹھنے کے انداز سے مجھے یوں لگا، جیسے وہ بھی میری طرح اس گفت گو کو جاری رکھنا چاہتی ہے۔ ”گھر والوں کا رویہ تمھارے ساتھ کیسا ہے؟“ میرے اس سوال نے یکا یک اُس کے چہرے پر ایک کرب سمو دیا۔ دریا کے آگے لگے سارے بند ٹوٹ گئے۔ تند موجوں کے مقابل پل ایک دم بہہ گیا۔ تن آور درخت جو کتنی دیر سے آندھیوں کے آگے کھڑے تھے، اپنی جڑوں سمیت اکھڑ گئے۔ بے بسی، بے کسی، نا اُمیدی کی ایک یلغار تھی، جس نے میرے سارے جسم کو، میری ساری روح کو ہلا کر رکھ دیا۔ ”وہی جو دبئی گئے شخص سے اس کے گھر والوں کا ہوتا ہے۔ ہر ماہ کی پہلی تاریخ کا انتظار اور بس۔ انھیں اس سے کیا غرض، کہ میں تن دُرست ہوں یا بیمار؛ خوش ہوں یا اداس؛ میری حسرتیں کیا ہیں؛ میری چاہتیں کیا ہیں؛ میرے بھی کچھ خواب، کچھ سپنے ہیں؛ میں بھی دل رکھتی ہوں، میری بھی کئی آرزوئیں ہیں؛ میں بھی جذبات کی خریدار ہوں۔ شعور و خرد کی طمع مجھے بھی ہے۔یہ نفسانی خواہشیں نہیں ہیں۔ انسان محض انسان ہے۔ اس کی ایک فطرت ہے۔ وہ فطرت جو کہیں نہ کہیں بیدار ہوتی ہے، شعور کو مغلوب کرتی ہے۔ یہ۔۔“ وہ بولے جا رہی تھی ایسے میں اپنے بازو پر چڑھے کنگن کو اپنی انگلیوں سے گھمائے جا تی تھی۔ بات کرتے کرتے وہ اچانک گھبرا گئی، جیسے سر بازار اس نے خود کو برہنہ کر دیا ہو۔ اپنی بات نامکمل چھوڑتے ہوئے، تیزی سے اٹھی اور کمرے سے نکل گئی۔ میں نے اس صورت احوال کو نہ سمجھتے ہوئے آنٹی کی طرف دیکھا تو وہ بے خبر سو رہی تھیں۔ میں ہراساں ہورہا تھا۔ تھوڑی دیر میں پروفیسر صاحب بھی آگئے اور ڈِرپ بھی ختم ہو گئی۔ وہ خاموشی سے کمرے میں آئی۔ ڈِرپ ہٹائی، بلڈ پریشر چیک کیا، ایک انجکشن لگا کر، برینولا نکال دیا اور جیسے خاموشی سے آئی، ویسے خاموشی سے چلی گئی۔ میں نے اِن نیم جان آنکھوں میں ایک بار جھانک کر روشنی کو ڈھونڈنے کی کوشش کی، لیکن اُس وقت صرف اندھیروں کے سوا کچھ دکھائی نہ دیا۔ پروفیسر صاحب کو ٹیکسی میں سوار کرا کے میں پیدل ہی مسلم ٹاون موڑ کی جانب روانہ ہوا۔

اتنے سالوں بعد کل شام جب پیڈیاٹرک وارڈ سے نکل کر جناح اسپتال کے آوٹ ڈور والے حصے سے گزرا تو اسے دیکھ کر بڑھتے قدموں کو روک لیا۔ اتنے برسوں میں اس پر کیا بیتی، میں نہیں جانتا، لیکن اس خزاں لیے زرد چہرے کو دیکھ کر صدیوں سے سہے جانے والے دکھوں کے بوجھ کا اندازہ ضرور ہوتا تھا۔ میں گومگو کی کیفیت میں اس کے پیچھے تو گیا، لیکن وہاں سے ایمرجنسی وارڈ جانے والی سڑک پہ مڑ گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments