کب بدلے گی یہ رت؟


جوں جوں عمر گزر رہی ہے مشکلات و مسائل میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایک طرف مختلف النوع امراض کا سامنا ہے تو دوسری جانب معاشرتی الجھنیں ہیں ، زندگی ہر لمحہ بے قرار و مضطرب رہنے لگی ہے۔ ان سب چیزوں کا اثر آنے والی نسل پر پڑ رہا ہے جو پہلے ہی موجودہ صورت حال سے پریشان ہے مگر ہمارے حکمرانوں اور اہل اختیار کو اس کی کوئی فکر نہیں ، کوئی مرتا ہے تو مرے انہیں کیا؟

ہم جب شعوری حد کو نہیں چھو سکے تھے تو بڑے مزے میں تھے۔ ہمارے والدین بھی تفکرات سے آزاد تھے کیونکہ گزر بسر ٹھیک ہو رہی تھی ۔ وجہ اس کی ایک یہ تھی کہ اخراجات کم تھے۔ سادہ انداز زیست تھا۔ ذہنوں میں نفرتیں نہیں تھیں اور اگر تھیں بھی تو انتہائی معمولی۔ مل جل کر رہنا ، رشتے داریاں نبھانا عام چلن تھا۔ دل آزاری کا تو خیال تک نہ آتا مگر اب وہ سب ختم ہو چکا ہے۔ سوچیں ہی سوچیں ہیں ، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی جانے لگی ہے۔

اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ مکاری و عیاری کی دلدل میں دھنسے نظر آتے ہیں۔ جھوٹ اور بددیانتی نے انہیں جکڑ رکھا ہے۔ دوسروں کی جائیدادوں پر حریص نگاہیں جم کر رہ گئی ہیں۔ خون کے رشتے قریباً ختم ہی سمجھیے کیونکہ بڑھی ہوئی دولت کی ہوس دل و دماغ پر چھا گئی ہے ، پورا معاشرہ بے حال ہے۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ کیا کرے ۔ اگر کوئی ماضی کے طرز حیات کی طرف لوٹنا چاہتا ہے تو یہ مشکل ہو چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب ایسے ہی چلے گا؟

ہمیں نہیں لگتا کہ اسی طرح یہ نظام زندگی آگے بڑھے گا کیونکہ جب کسی سماج میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل عروج پر پہنچتا ہے تو وہ ایک نئی شکل اختیار کرتے ہوئے ابھر کر سامنے آ جاتا ہے۔ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اب جاری صورت حال تبدیل ہونے جا رہی ہے۔ لوگ ہوں یا حکمران ایک ہی رخ پر نہیں چل سکتے۔ انہیں در پیش حالات نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے، سوچ کا زاویہ بدل رہا ہے۔

عوام حکمرانوں کو اور حکمران عوام کو اچھی طرح سے سمجھ چکے ہیں یعنی اب وہ عوام ہیں نہ وہ حکمران کہ جو ایک دوسرے پر مکمل اعتماد کرتے تھے۔ اب وہ فضاء باقی نہیں رہی جبکہ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت بھی ہے۔ اگرچہ حکمران طبقہ عوام کا مرہون منت نہیں کہ وہ اقتدار طاقتوروں کی آشیر باد سے حاصل کرتا ہے مگر پھر بھی عوام ہوں گے تو معاملات چلیں گے۔ عوام کی بے چینی ان کے لیے کسی نہ کسی سطح پر درد سر بن جاتی ہے۔

بہرحال روایتی طرز سیاست کو خیر باد کہنے کے دن قریب آ گئے ہیں۔ اب حکمرانوں کو کوئی نیا انداز سیاست اختیار کرنا ہو گا اور اس میں لوگوں کے سماجی کلچر کو تبدیل کیے بغیر ان کے لیے حکمرانی کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ انہیں یہ یقین دلانا ہو گا کہ ریاست و حکومت ان کے مسائل کے حل کے لیے میدان عمل میں آ چکے ہیں۔ قانون سب کے لیے برابر ہو گا۔ بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ ظلم و زیادتی کرنے والے آزاد نہیں رہ سکیں گے وغیرہ وغیرہ۔

عالمی سطح پر بھی سماجی و معاشی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں پرانے نظام کو نئے سرے سے دیکھا جا رہا ہے۔ عوامی ردعمل پر باقاعدہ غور کیا جا رہا ہے۔ عوام کے مطالبات کو بھی زیر بحث لایا جانے لگا ہے لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ جلد یا بدیر ہمارے ہاں بھی دیکھا جا سکے گا کہ قانون کی حکمرانی کا پرچم لہرا رہا ہے۔

یہ ہم اس لیے عرض کر رہے ہیں کہ سنجیدہ حلقے جان چکے ہیں کہ اب عوام کو خالی خولی نعروں سے نہیں بہلایا جا سکتا۔ انہیں زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کرنا ہوں گی۔ ان کے دکھوں کو سمجھنا ہو گا مگر یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ منظر پر موجود بڑی سیاسی جماعتیں اپنا کھویا ہوا اعتماد کیسے بحال کر سکیں گی؟

ہمیں نہیں لگ رہا کہ لوگ اب ایک بار پھر ان کے پیچھے چل پڑیں گے۔ لہٰذا ضرورت ہے ایک نئی سیاسی جماعت کی جو سب سے پہلے عوام کے زخموں پر مرہم رکھے۔ مافیاز کی گرفت سے نجات دلائے۔ غنڈوں، قبضہ گیروں، سینہ زوروں اور دھوکے بازوں سے ہر طرح سے محفوظ بنائے کہ اس وقت ہمارا سماجی ڈھانچہ بری طرح سے تڑخ چکا ہے۔

محض حکمران تبدیل ہونے سے ذہنوں میں جنم لینے والے نفرتوں، کدورتوں اور عداوتوں کے طوفان نہیں تھم سکیں گے۔ اس کے لیے اب عملی طور سے اقدامات کرنا ہوں گے۔ تب جا کر عام آدمی کی زندگی میں ٹھہراؤ آئے گا،  بصورت دیگر جیسا کہ ہم آغاز میں بیان کر چکے ہیں کہ مسائل زندگی گزرنے کے ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں تو ایک روز ہر ادھیڑ عمر کراہ رہا ہو گا اور اسے پوچھنے والا کوئی نہ ہو گا مگر یہ نوجوان نسل کو بھی ضرور متأثر کرے گا جس سے ایک ایسا لاوہ پھٹے گا جسے حکمران طبقات کے بس میں نہیں ہو گا کہ وہ اسے روک سکیں ۔ اس لیے حکمرانی کے طور و اطوار بدلنے ہوں گے ، نئے چہرے جو عوامی خدمت کا جذبہ رکھتے ہوں اور وہ اقتدار میں آنے سے پہلے یہ بات ثابت کر چکے ہوں ۔، کو آگے لانا ہوں گے۔

اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ، آخر کب تک لوگ اذیت بھری زندگی گزاریں گے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ ان پر مسلط حکمران طبقہ دولت کے ڈھیر لگاتا چلا جا رہا ہے اور اپنا معمولی علاج کروانے بھی یورپ و مغرب کے ہسپتالوں میں جاتا ہے اور ادھر انہیں بغیر رشوت اور سفارش کے کسی ہسپتال میں کوئی پوچھتا نہیں ، وہ ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ عوام کی برداشت کا امتحان نہ لیا جائے۔

ہمارے پڑوسی ملک میں کسان تحریک نے یہ بتا دیا ہے کہ اب جب حکمرانوں نے انہیں ہر طرح سے جکڑنے کا ارادہ کر لیا ہے تو وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے ،  عوام اگرچہ خاموش ہیں اور ان کے جمہوری جال میں الجھے ہوئے ہیں مگر وہ مسلسل ستموں کی زد میں آتے ہوئے ضرور نعرۂ مستانہ بلند کریں گے کیونکہ پوری دنیا کے مظلوم عوام بیدار ہو رہے ہیں ہو چکے ہیں ۔

ان حالات میں ضروری ہے کہ اہل دانش آنے والے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ایسی تبدیلیاں لانے میں اپنا کردار ادا کریں جو تہتر برس سے کانٹوں بھرے راستے پر چلنے والے لوگوں کو سکون بہم پہنچا سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments