بھولے عوام کب سمارٹ ہوں گے؟



تیسری دنیا کے بیشتر ممالک جہاں غربت بیماری بے روزگاری اور معیشت سے جڑے ہوئے دیگر مسائل کی بھرمار ہے۔ وہاں اکثر دیکھا گیا ہے کہ الیکشن کے دنوں میں اور خاص طور پر پولنگ کے روز درجنوں لوگ لڑائی جھگڑوں میں اپنی جان گنوا دیتے ہیں۔ اردگرد پر نظر دوڑائیں تو ہندوستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور برما جیسے ممالک ماضی میں ایسی صورتحال سے دوچار ہوتے رہے ہیں۔ جہاں تک پاکستان کی بات ہے ، یہاں پر بھی حالات کچھ زیادہ سازگار دکھائی نہیں دیتے۔

یہاں پر آج بھی مختلف پارٹیوں سے ہمدردی اور تعلق رکھنے والے بیسیوں کارکن ایسے ہنگاموں میں قتل و غارت گری کا شکار ہوتے ہوئے اپنے لواحقین کو لاوارث چھوڑ کر ایسے جہاں میں جا بستے ہیں۔ جہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں آیا۔ اگلے جہاں کو جانے والے یہ معصوم اور بھولے بھالے لوگ جہاں اپنے خاندانوں کے لیے آہوں اور سسکیوں کے سوا کچھ نہیں چھوڑ کے جاتے وہیں اپنے سیاسی گروہوں کے لیے وہ میدان اور ماحول ضرور چھوڑ جاتے ہیں جو ان کے سیاسی و معاشی مفادات و مقاصد کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ دراصل یہ سیاسی کارکن سیاسی رہنماؤں کے ایندھن کے طور پر کام کرتے ہیں۔ جن کے بل بوتے پر وہ اپنی سیاسی دکان داری چمکاتے ہیں۔

پچھلے دنوں کچھ ایسا ہی خونی معرکہ پنجاب کے شہر ڈسکہ میں ہونے والی ضمنی انتخاب کے موقع پر پیش آیا۔ جہاں ایک دوسرے کی مخالف سیاسی جماعتوں کے دو کارکنان کی ہلاکت نے پورے ملک میں پاکستان میں چلنے والے جمہوری نظام کو بے نقاب کر کے رکھ دیا۔

پاکستان میں آئے روز ہونے والے ان بلوؤں اور ہنگاموں میں جان دینے والے یہ بے لوث بھولے کب سمارٹ ہوں گے اور کب وہ دن آئے گا کہ جب ملک کی تقدیر بدلے گی۔ یہ سوچ کر دل رنجیدہ اور بوجھل پن کا شکار ہو جاتا ہے۔ فہم و فراست اور سیاسی عقل و فکر رکھنے والوں کے لیے یہ صورتحال انتہائی پریشان کن اور باعث تکلیف ہے کہ آخر کب تک ان بے گناہوں کی زندگیوں سے موت کا یہ کھیل کھیلا جاتا رہے گا۔

ڈسکہ میں مرنے والے مسلم لیگ نون کے ایک کارکن کی موت پر اس کے باپ اشرف بٹ نے مریم نواز کی ڈسکہ آمد کے موقع پر ایک پیغام میں کہا کہ میرے کل چھ بیٹے ہیں۔ جن میں سے ایک نواز شریف پر قربان ہو گیا۔ پانج ابھی اور باقی ہیں۔ نون لیگ کو کبھی بھی ضرورت پڑے تو وہ بھی حاضر ہیں۔ واہ! بھولے بٹ کیا جذبہ ہے۔ چھ بچے پیدا کرنے کے مقاصد کا اندازہ کیجیے۔ کیا یہی اعلیٰ اور ارفع مقاصد تھے کہ چھ بچوں کی ولدیت کا بوجھ اٹھایا۔

کتنا بڑا المیہ ہے کہ پاکستان بننے کے 75 سال بعد بھی ہماری قوم کے افراد کی اکثریت ایسے بھولوں پر مشتمل ہے جو وطن کی تو کیا؟ اپنے مقاصد کی راہیں متعین نہ کر سکے۔ 1977 میں بھٹو حکومت کے خلاف نظام مصطفیٰ کے نام پر چلنے والی پی این اے کی ملک گیر تحریک ایک ایسے دھوکے اور مذاق کے سوا کچھ نہ تھی جس کے مضمرات آج تک پاکستانی قوم بھگت رہی ہے۔ نفاذ اسلام کے نام پر ملک میں وہ واویلا مچایا گیا اور قوم کو کچھ اس طرح سے بیوقوف بنایا گیا کہ وطن عزیز ایک لمبے عرصے کے لیے اپنے اصل مقاصد اور اہداف سے دور ہوتا چلا گیا۔

اس تحریک کے کئی شہروں میں ہنگاموں کے دوران سیاسی شعبدہ بازوں کی شہ پر کئی بھولے لقمۂ اجل بن گئے اور جمہوری حکومت کا دھڑن تختہ کر کے ضیاءالحقی فوجی آمریت نے وہ گل کھلائے کہ بس خدا کی پناہ! اس فوجی حکومت کے غیر جمہوری اقدامات کے خلاف شہری حقوق کی جنگ لڑتے ہوئے بے شمار بھولے ایک دفعہ پھر ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد سے گزرے۔ نئی صبح کے طلوع کے یہ متلاشی تحریک بحالی جمہوریت اور پیپلز پارٹی کے وہ کارکن تھے، جن کے مقدروں میں پھانسیاں کوڑے اور قید خانے لکھے گئےْ

وہ خاموش بھولے اس وقت منہ تکتے رہ گئے جب ان کی سوچوں اور آدرشوں کا خون بلاول ہاؤس کی اونچی دیواروں، زرداروں کی زیر ملکیت درجنوں شوگر ملوں کی چمنیوں سے اٹھتے دھوئیں اور بختاوروں کی شادی کے جوڑوں پر سونے کی تاروں کی مینا کاری پر دیکھا گیا۔ یہ بھولے اس وقت پھر اپنی معصومیت لٹا بیٹھے جب تبدیلی کی امنگ دل میں سجا کے ملتان کے قاسم باغ گراؤنڈ میں بھگدڑ میں کچلے گئے اور بیس کے قریب لوگ اپنی جان جان آفرین کے حوالے کر کے لمبی تان کے سو گئے اور پچھلے پانچ برسوں میں شاید ہی حکمران پارٹی کے کسی شخص نے انہیں یاد کیا ہو یا ان کی یاد میں شمع روشن کرنے کا سوچا ہو۔ ان میں فیصل آباد شہر کا حق نواز بھی شامل ہے جو تبدیلی کا علم لے کر نکلا تھا اور اس وقت قانون کا قلمدان رکھنے والے کی لاقانونیت کا شکار ہو کر راہی ملکِ عدم روانہ ہوا۔

ڈسکہ میں مسلم لیگ نون کے ورکر کی موت پر غمزدہ مریم نواز اور اس پارٹی کے دیگر لوگ کیا سچائی اور ایمانداری سے عوام کو بتا سکتے ہیں کہ کیا وہ واقعی اس بھولے بٹ کا مقدمہ لڑنے ڈسکہ گئیں تھی یا اس دھند میں مزید اضافہ کرنا ان کے اغراض و مقاصد میں شامل تھا ؟ کیا یہ پارٹی اپنے اکابرین سمیت ان اخلاقی اقدار پر کھڑی ہے جو جمہوری عمل کے جاری و ساری رکھنے کا جواز فراہم کرتے ہیں؟ اپنے باپ کی وزارت عظمیٰ چچا کی خادمیت اعلیٰ اور لمبی مونچھوں والے وحشیوں کی وہ وزارت قانون یاد ہے جس میں ماڈل ٹاؤن میں رات کے اندھیرے میں مظالم کے پہاڑ توڑے گئے جو اگلے دن تک جاری رہے۔ مرد و خواتین کی وہ 14 لاشیں کبھی آپ کے لیے لئے پریشانی اور ندامت کا باعث بنی ہیں اور رانا ثناء اللہ جیسوں کے ساتھ گھومتے ہوئے آپ کے ضمیر نے کبھی ملامت کی ہے کہ آپ جیسا جسم و جاں رکھنے والی خواتین کو کس بے شرمی سے جان سے مارا گیا؟ ان شہداء کے بچوں کی چیخیں کیوں آپ کے کان نہیں کھولتیں؟

مجھے یاد ہے ایک کالم نگار نے ان دنوں لکھا کہ ان کی ملنے والی ایک جرمن عورت جو پچھلے پچاس سالوں سے پاکستان میں مستقل سکونت رکھتی تھی۔ وہ اتنی پریشان ہوئیں اور کالم نگار کو فون کر کے درخواست کی کہ  ’’میرے گھر اور سامان کو فوری طور پر فروخت کرنے کا کوئی اہتمام کریں کہ میں نے آج پچاس سال بعد یہ ظلم دیکھ کر فیصلہ کیا کہ میں یہ ملک چھوڑ دوں کیونکہ مجھ میں عدم تحفظ کا احساس اس قدر بڑھ گیا ہے کہ وہ پولیس جس کا کام امن و امان کا قیام اور عوام کو تحفظ اور مدد فراہم کرنا تھا، وہ انسانوں کو کس طرح قتل کر رہی ہے اور آپریشن میں حصہ لینے والوں کو شاباش دے رہی ہے ۔ میرے لیے کم از کم یہ مناظر ناقابل برداشت ہیں اور میں اس ملک میں مزید نہیں ٹھہر سکتی۔“

میں سوچتا ہوں وہ تو جرمن خاتون تھیں اور عوام پر ریاستی جبر و بربریت برداشت نہ کر سکی اور ایک طرف ہم جیسے ذلتوں کے مارے لوگ جو مسلسل غلامی میں رہنے کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ اپنے نوجوانوں کو بھیانک جرائم کی مرتکب اشرافیہ کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ اس پر سوائے افسوس کے اظہار کے اور کیا کیا جائے۔

پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ہندوستان میں کانگریس پارٹی کی رہنما راجیو گاندھی کی بیٹی پریانکا گاندھی کی تقریر کا ویڈیو کلپ دیکھ رہا تھا، جس میں وہ انتہائی سادگی کے ساتھ گھروں میں استعمال ہونے والی پلاسٹک کی کرسی سے اٹھ کر تقریر کے لیے ڈائس پر آتی ہیں تو حاضرین جلسہ ان کے اور خاندان کے دیگر افراد کے حق میں نعرے بلند کرتے ہیں تو وہ فوراً کہتی ہیں کہ یہ تعریفی نعرے بند کرو اور چپ کرنے کا کہہ کر مخاطب ہوئیں کہ مجھ سمیت جتنے بھی نیتا لوگ اس سٹیج پر موجود ہیں ، یہ سب آپ کے مان اور محبت کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ ہمارا سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے ، ہمارے بچے بھی اچھی تعلیم وتربیت حاصل کر رہے ہیں۔ آپ لوگ نعرے بلند کرنے سے پہلے اپنے اور اپنے خاندان کے متعلق سوچیں۔ آپ کی حالت ایسی کیوں ہے اور آپ کب سمارٹ ہوں گے؟ اس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

آج پاکستانی عوام سے یہ سوال پوچھنا کتنا جائز بنتا ہے کہ کیا مصیبتوں اور دکھوں میں زندہ رہنے والے لاکھوں کروڑوں بھولے اس بات کا کچھ اثر لیں گے کہ وہ کب سمارٹ بنیں گے؟ اور کب اس بات پر دھیان دینے کی زحمت گوارا کریں گے کہ وہ آئندہ اس بد دیانت اور کرپٹ نظام کا حصہ نہیں بنیں گے، جس کا مقصد محض لوٹ کھسوٹ اور ایک خاص طبقے کو نوازنے تک ہی محدود ہے اور وہ عوام کی بھلائی کا پروگرام دینے سے قاصر ہوں۔

آخر میں پاکستان میں بسنے والے بھولے یاد رکھیں کہ جن کی خاطر وہ اپنے دیگر بچوں کی قربانی دینے کے لیے بھی تیار ہیں وہ ڈسکہ کی تنگ و تاریک گلیوں میں اپنی جان نہیں گنواتے اور نہ ہی ان کی خون سے لت پت لاشیں گھنٹوں تک شاہراہوں پر بے یارو مددگار پڑی رہتی ہیں بلکہ ان کے الگ قبرستان ہیں جو رائے ونڈوں کے صحنوں کے پچھواڑوں سے لے کر گڑھی خدابخشوں تک پھیلے ہوئے ہیں اور جاتی عمرہ میں بننے والی تینوں قبروں کے تابوت ممالک غیر سے برآمد ہوئے تھے۔ ڈسکہ کے مکانوں اور ایون فیلڈ کے مکینوں میں بہت فرق ہے ایک کے پاس محض دلاسے جبکہ دوسرے کے پاس قطر کے شہزادوں کے خطوط ۔ بھولے جلدی سے سمارٹ ہو جا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments