مشرقی معاشرے میں مردہ پرستی کا رواج


اگر مشرقی اور مغربی اقوام کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مغربی اقوام کے بجائے مشرقی اقوام زیادہ مردہ پرست واقع ہوئی ہیں۔ مشرقی دنیا میں آپ کو قبرستان باقی جگہوں سے زیادہ آباد ملیں گے۔ یہاں لوگوں کی بڑی تعداد روزانہ مزارات کے چکر لگاتے ملیں گے۔ یہاں ہر دوسری تیسری گلی میں آپ کو کوئی نہ کوئی مزار اور درگاہ ملے گا یہ مزار یا کسی مذہبی بزرگ کا ہوگا یا کسی دوسری بڑی شخصیت کا ہوگا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہی شخصیات جن کے بڑے بڑے مزارات بنے ہوئے ہیں انہی شخصیات کو زندگی میں کئی مشکلات سے گزرنا پڑا ہے۔

یہی لوگ جب زندہ تھے تو ان کے فکر اور طرز عمل سے بہت کم لوگ متفق ہوا کرتے تھے۔ یعنی مشرقی معاشروں میں جب کوئی بندہ مذہب اور سماجی رویوں کی اصلاح کی بات کرتا ہے یا معاشرے کی فرسودہ روایات کو ہدف تنقید بناتا اور جدیدیت کو ترجیح دینے کی بات کرتا ہے تو معاشرے کی اکثریت ان کو یا تو مرتد قرار دیتے ہیں یا ان کو پاگل اور طرح طرح کے منفی القابات سے نوازتے ہیں۔ یہی مصلحین اور دانشور جب مرتے ہیں تو لوگوں میں مقبول ہو جاتے ہیں پھر ان کے قبروں پر مزارات بھی بنتے ہیں اور بعد از مرگ لوگوں کے ہیروز بھی بنتے ہیں۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں مردہ پرستی رائج ہے۔ زندہ، تخلیقی اور باشعور انسانوں کی اکثریت ہمارے معاشرے میں زندگی میں مقبولیت حاصل نہیں کرتے ہیں۔ مگر بعد از مرگ بڑے مقبول ہو جاتے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں مردہ پرستی عام ہے۔ ہم بہت کم جینئس اور عظیم لوگوں کو ان کی زندگی میں مانتے ہیں

اس کے مقابلے میں مغربی دنیا میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔ وہاں لوگ مردہ پرستی کے بجائے موجودات اور حال میں مگن ہوتے ہیں۔ وہاں ہر شعبہ زندگی کے عظیم لوگوں جیسے مذہبی اصلاح پسندوں، سیاسی مدبروں اور سائنسدانوں کو اپنی زندگی میں قدر اور جائز مقام ملتا ہیں۔ وہاں ان عظیم لوگوں کو اپنی حیثیت منوانے کے لیے موت کا انتظار نہیں کرنا پڑتا ہے۔ یورپین عظیم لوگوں کو پہچاننے میں بڑے تیز ہوتے ہیں وہ ان عظیم لوگوں کو جلدی پہچان جاتے ہیں اور پھر ان پر بھروسا کر کے ان کو اپنا لیڈر مانتے ہیں اور ان کو اپنی زندگی میں اپنا جائز مقام دیتے ہیں۔ ان کو طرح طرح کے اعزازات سے نوازتے ہیں۔

قدیم جہالت کے دور میں یورپ میں بھی بیشمار مذہبی مصلحین، دانشوروں اور فلسفیوں کو یا تو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا یا ان کو غدار اور مرتد قرار کر دھتکارا گیا تھا۔ جس کی پہلی مثال یونانی فلسفی سقراط کو اپنے جدید خیالات کی وجہ سے زہر کا پیالہ پینا پڑا، گلیلیو کو دربار میں سرعام معافی مانگنی پڑی، اسی طرح تھامس ایکوینس، ڈیکارٹ، ایمانوئیل کانٹ، نیٹشے، شوپنہار اور دوسرے سینکڑوں فلسفیوں کو مرتد قرار دیا گیا۔ مگر چودہویں اور پندرہویں صدی کے تحریک نشانہ ثانیہ کے بعد لوگوں میں شعور بیدار ہوا۔ لوگوں میں اچھے اور برے کو لاجک کی بنیاد پر پرکھنے کی تمیز پیدا ہو گئی، ان فلسفیوں نے لوگوں میں ہیومنزم، مساوات، روشن فکری، علم کی جستجو اور اس دنیا کی عظمت جیسے خیالات پیدا کیے۔

نتیجتاً مغرب نے بیسویں صدی کے آغاز میں اپنے سائنسدانوں اور دانشوروں کو نوازنے اور ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر نوبل انعام کا اجراء کیا۔ مادام کیوری، آئن اسٹائن، وٹسن، جیمز ویلئیم اور دوسرے سینکڑوں سائنسدانوں، مفکروں اور دانشوروں کو نوبل انعام سے نوازا گیا۔ آئن سٹائن کو زندگی میں ”مین آف دی سینچری“ کا خطاب ملا۔ اس طرح مغرب نے زندہ دانشوروں، فلسفیوں اور مصلحین کو نہ صرف بڑے بڑے انعامات سے نوازا بلکہ ان کو ان کی زندگی میں اپنا جائز مقام دیا۔

اس کے مقابلے میں مشرقی دنیا میں بالخصوص مسلمانوں نے اپنے فلسفیوں اور مذہبی مصلحین کو اپنے فتوؤں اور جہالت کے نشتروں سے بیقدر اور رسوا کیا۔ مسلمانوں نے اپنے کئی مذہبی مصلحین کو مرتد اور کافر قرار دے کر ان کا سماجی بائیکاٹ کیا جیسے الفارابی، ابن عربی، منصور بن حلاج اور معتزلہ کے مصلحین کو مرتد قرار دیا گیا۔ اسی طرح مسلمانوں نے اپنے کئی فلسفیوں کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کا مظاہرہ کیا ابن رشد جس نے ارسطو کے فلسفے کو مسلمانوں میں متعارف کیا تھا کو مسلمانوں نے اپنے کتابوں سے مار مار کے ان کی بینائی چھین لی۔ اسی طرح پاکستانی معاشرے نے اپنے دو نوبل انعام یافتہ افراد کے ساتھ انتہائی نامناسب رویہ اپنایا۔ عبدالسلام اور ملالہ یوسفزئی دونوں کو جلاوطن کیا گیا۔ دنیا نے ان کو کو عزت دی اور انعامات سے نوازا مگر افسوس ہم نے ان کی قدر نہیں کیں۔

اگر ہم افغانوں کی بات کریں تو وہاں بھی صورتحال اس ضمن میں کچھ شاندار نہیں ہے۔ افغانوں نے بھی اپنے مصلحین اور سیاسی مدبروں کو پہچاننے میں بہت بڑی غلطیاں کیں ہیں۔ غازی امان اللہ خان جو جدید افغانستان کے بانی ہے۔ امان اللہ خان نے بیسویں صدی کے اوائل میں افغانستان کو انگریزوں سے آزادی دلائی اور افغانستان کو ایک جدید ریاست بنانے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے میں بہت سارے عملی اقدامات اٹھائے۔ انہوں نے تعلیم کے شعبے پر خصوصی توجہ دی خاص کر لڑکیوں کی تعلیم پر۔

لڑکیوں کے لیے باہر کے ممالک میں کئی سکالرشپ منظور کروائے۔ بہت سارے نئے سکولز اور کالجز تعمیر کرائیں۔ صنعتی ترقی کے لیے بہت سارے نئے کارخانے بنوائے بیرونی دنیا سے تجارت کو فروغ دیا۔ ریل گاڑی اور ہوائی جہازوں کی صنعت کی بنیاد ڈالی۔ ہر حوالے سے افغانستان کو جدید بنانے کی بھرپور کوششیں کیں۔ مگر آخرکار ایک رہزن بچہ سقہ کے ہاتھوں جلاوطن ہوا اور زندگی کے آخری ایام تک اٹلی میں قیام پذیر رہے۔ اسی طرح باقی لیڈروں کے ساتھ نامناسب رویہ اپنایا اور کئی لیڈروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

یعنی پختونوں نے بھی اکثر اپنے دور اندیش لیڈروں کو ان کی زندگی میں بہت کم قدر و عزت دی مگر مرنے کے بعد ان کو اچھے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ اسی حوالے سے مرحوم عبد الرحیم روغانے کی شعر موقع بر محل ہے۔

پہ بیقدرہ پختنو می قدر نستھ
روغانے بہ را جوندی شم خو چی مړ شم
مطلب زندگی میں بیقدر پختونوں میں قدر نہیں ہے
مگر مرنے کے بعد عزت مل جائے گی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments