میدان سیاست کی اخلاقیات اور تلخ حقائق



سیاست، تاثرات اور امکانات کا بے رحم کھیل ہے جس کا پہلا مرحلہ شاید مریم نواز بلا مقابلہ جیت جاتیں لیکن سینٹ شکست کے بعد بے خوف عمران خان نے اعتماد کا ووٹ لے کر ایک بار پھر بازی الٹ دی ہے

لیکن یہ بھی حقیقت ہے
‎وزیراعظم کا اعتماد کا ووٹ پی ٹی آئی کے

غدار ارکان اسمبلی کے لئے این آر او بن جائے گا جنہوں نے کچھ ہی دن قبل اپنے ووٹ مبینہ طور پر فروخت کر دیے اور حکومتی امیدوار حفیظ شیخ کو شکست ہوئی

ویسے یہ ‎سیاست کیا ظالم شے ہے ‎جن ارکان نے غداری کی انہی سے اعتماد کا ووٹ لینا پڑ رہا ہے نعرہ پھر بھی وہی ہے این آر او نہیں دوں گا

‎عمران خان بد کردار بد عنوانوں کے خلاف جنگ کر کے دیوتا بن گئے تھے۔ ‎ بعض گستاخ بڑ بولے نئی تعبیریں ڈھونڈ رہے ہیں نئی اصطلاحات استعمال کر رہے ہیں کہ ”زندگی بھر دوستوں اور دوسروں کے مال پر ہر طرح کے، مزے، کرنے والے صادق اور امین نہیں لاہور میں نمبو نچوڑمفت خورے کہلاتے ہیں“

اب 18 مارچ کو ڈسکہ ضمنی انتخاب کا مرحلہ درپیش ہوگا جو بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی کے تناظر میں کئی اشکال بدل رہا ہے

وزیراعظم سینٹ الیکشن کے بعد سیاسی اخلاقیات پر بہت زور دے رہے ہیں ویسے ہماری سیاست میں اخلاقیات کا کیاکام ہے۔

اس حوالے سے تاریخ کے تناظرکودہرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ اوپن ووٹ کی مخالفت کر کے نوٹوں کو ووٹوں کے لئے استعمال کیا گیا ویسے یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ اسی سینٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کیسے چیئرمین منتخب ہوئے تھے 2018 میں چیئرمین کے انتخاب میں ووٹنگ نمبر کیا تھے حزب اختلاف کے 14 ارکان نے غداری کی تھی اورشام کو جماعتی عشایئے میں بڑی شان وشوکت کے سے شرکت بھی ہو سکتی تھی

ووٹ کو عزت دینے والی نون لیگی قیادت نے ان غداروں کو جانتے بوجھتے اور پہنچانے کے باوجود ہاتھوں ہاتھ لیا تھا کہ زمینی حقائق ہمیشہ اخلاقیات پر سبقت رکھتے ہیں

اس وقت تو انصافیوں نے جشن فتح منایاتھا اب جب وہی فارمولا گیلانی زرداری جوڑی نے آزمایا تو اخلاقیات یاد آ رہی ہیں اورچیخیں نکل رہی ہیں۔

اسد عمر نیا استدلال لے کر آئے ہیں کہ عمران خان کی سیاست وزیراعظم بننے کے لیے نہیں تھی تو پھر کس کام کے لیے جدوجہد کر رہے تھے یہ استدلال بنیادی طور پر غلط ہے۔ ہماری سیاست کی بنیاد یہ ہے ہم وزیراعظم بن کر قوم کی خدمت کریں گے اوریہاں اڑھائی سال میں جو خدمت ہوئی ہے سب کے سامنے ہوئی ہے۔

اسی طرح سیاست میں روپے، پیسے اوردولت کے بے محابہ استعمال کو نشانہ بنایاجا رہا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کے پی کے میں تینوں ارب پتی ’سگریٹ کنگ‘ کسی اور نہیں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر پارلیمان میں پہنچے ہیں یہ سلسلہ گزشتہ دودہائیوں سے جاری وساری ہے

تازہ مظاہرہ میں وفاقی دارالحکومت کے ممتاز بلڈراورارب پتی کاروباری نومنتخب سینیٹرعبدالقادر کو بلوچستان سے منتخب کرایا گیا ہے یہ پارلیمان میں غریب کارکنوں کو لانے کی سب سے ”روشن“ مثال ہے عبدالقادر کو تحریک انصاف اوراتحادی ”باپ“ پارٹی نے یکساں جوش وخروش سے ووٹ دے کر جمہوریت کابول بالا کیا گیا ہے

اسی طرح نومنتخب سینیٹرفیصل واڈا کا معاملہ بھی بلند اخلاقیات کی تابناک مثال ہے غلط بیانی پر فیصل واڈہ قومی اسمبلی سے نا اہل ہو رہے تھے انہیں ہائی کورٹ کے متوقع فیصلے کو غیرموثر بنانے کے لیے قومی اسمبلی سے مستعفی کروایا گیا اورصرف واڈا کے لیے قانون میں ترمیم کر کے دوہری شہریت کے ساتھ سینٹرمنتخب کرایا گیا اور اخلاقی اصولوں کی برتری کی مثال قائم کی گئی

اگر پنجاب میں سینیٹ کے انتخاب میں ”چوروں اورڈاکووں“ سے مفاہمت کر کے بلامقابلہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں کے پی کے میں تاج آفریدی کے ذریعے حضرت مولانا سے سلسلہ تناظراستوار جا سکتا ہے۔ اورایوان میں اس عمل کی باضابطہ تعریف کرتے نہیں تھکتے تو پھر بھی درس اخلاقیات کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے

ویسے وفاقی حکومت کی دو نشستوں پر سینیٹ الیکشن ہو رہا تھا۔ تحریک انصاف کی فوزیہ ارشد کامیاب رہیں جبکہ انہیں لمحوں میں ووٹ دینے والے ارکان کے ہاتھ حفیظ شیخ کو ووٹ ڈالنے پر ہاتھ کپکپانے لگے اور سپریم کورٹ سے نا اہل قرار پانے والے یوسف رضا گیلانی جیت گئے

‎سینیٹ الیکشن کا تنازعہ صرف اسلام آباد کی ایک نشست تک محدود تھا، یوسف رضا گیلانی کی نشست پرایسا ہنگامہ شروع ہوا جس کی حدت ختم ہونے میں نہیں آ رہی۔ بقول وزیر اعظم عمران خان، ‎حکمران جماعت کے 16 ارکان قومی اسمبلی نے غداری کر کے ضمیر بیچ دیا یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیا۔

‎ وزیراعظم عمران الزام لگاتے ہیں الیکشن کمشن جس کی آئینی ذمہ داری یہ تھی کہ غیرجانبدارانہ اورشفاف الیکشن کرائے اس خریدوفروخت کے مکروہ اورگھناونے کھیل میں معاون کا کردار ادا کر رہا تھا جس پرالیکشن کمیشن نے غیرمتوقع طور پر شدیدردعمل کامظاہرہ کرتے ہوئے سینیٹ الیکشن کو شفاف اور غیرجانبدارانہ آئینی اور قانونی قرار دیا ہے۔

‎ جناب عمران خان نے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد اظہارتشکر میں الیکشن کمشن کے پریس ریلز کا ذکرکرتے ہوئے استفسار کیاکہ اگر یہ ”اچھا الیکشن تھا تو برا الیکشن کیا ہوتاہے۔ انہوں نے ارکان اسمبلی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے یہ بھی فرمایاکہ بعض ارکان کی طبیعت خراب تھی لیکن اس کے باوجود اس نازک مرحلے پراعتماد کا ووٹ دینے کے لیے اجلاس میں شرکت کے لیے تشریف لائے اگرچہ حقیقت یہ ہے کہ تمام ارکان یہیں موجود تھے بلکہ ان کے کمروں پر ساری رات پہرے دیے گئے لیکن وزیراعظم کے ان“ 16 غدار اور ضمیر فروش ”کا دوبارہ تذکرہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جن کی وجہ سے پارلیمان، الیکشن کمشن اورایوان بالا الیکشن کے نتائج کی ساکھ داؤ پر لگ گئی کہ وہ غدار بھی اعتماد کاووٹ دینے والوں میں پیش پیش تھے عملی سیاست کے تقاضوں کی وجہ سے اب شاید اس ناگوار معاملے پر“ مٹی پاؤ ”فارمولا کا سہارا لیاجائے گا۔

‎یوسف رضا گیلانی کی فتح کے ‎پس پردہ گندی دولت کا مظاہرہ اب ظاہر ہو چکا ہے لیکن بعض ستم ظریف اس میں یہ ظریفانہ نکتہ تلاش کرلاتے ہیں کہ روپے نے ڈالر کو شکست دے دی آئی ایم ایف کے نمائندے ‎حفیظ شیخ کو زرداری گیلانی اتحاد نے روپے کی طاقت سے ناک چنے چبوا دیے یہ وہی گیلانی ہیں جنہوں نے سپریم کورٹ کاحکم ماننے سے انکار کرتے ہوئے پاکستان کے 60 ملین ڈالر سوئزلینڈ سے واپس منگوانے کے لیے خط لکھنے سے انکارکر دی اتھا حکومت گنوا لی تھی، نااہل ہو گئے تھے۔

اب اہم ترین سوال یہ ہے ‎سینٹ الیکشن میں لگانے کے ‎لئے ‎اتنا پیسہ کہاں سے آیا۔ ‎سینٹ کی 48 نشستوں پر الیکشن ہوا جس میں سے 29 سیٹیں پی ٹی آئی اتحاد نے جیت لیں۔ ‎اپوزیشن اتحاد 19 سیٹیں جیت سکا۔ ‎اس الیکشن میں تحریک انصاف 18 سیٹیں جیت کر پہلے نمبر پر رہی۔ ‎پیپلز پارٹی نے 8، ‎حکومتی اتحادی بی اے پی نے 6 ‎جبکہ نون لیگ 5 کے ساتھ چوتھے نمبر پر چلی گئی

‎ حقیقی صورتحال یہ ہے کہ تحریک انصاف 26 نشستوں کے ساتھ تاریخ میں پہلی بار سینٹ کی سب بڑی جماعت بن گی ہے۔ ‎جبکہ ایک مہینہ پہلے تک سینٹ کی سب بڑی جماعت نون لیگ تھی جو اب تیسرے نمبر پر چلی گئی۔ ‎مجموعی طور پر 48 نشستوں پر الیکشن ہوا جس نون لیگ صرف 5 سیٹوں کے چوتھے نمبر پر رہی۔ ‎پنجاب کے سوا تمام صوبوں سے تاریخ میں پہلی بار نون لیگ کا صفایا ہو گیا۔ ‎اس ساری تفصیل کا اصل مطلب یہ ہے کہ سب سے زیادہ جشن نون لیگی منا رہے ہیں

‎اس بارے میں انکشافات اورالزامات کی پٹاری بزرگ تجزیہ نگار سنجیدہ مزاج، کالم نگار نصرت مرزا نے اپنے یوٹیوب چینل پر کھولی ہے۔ یوٹیوب پربھانت بھانت کے چینل افواہ سازی کی بہاردکھارہے ہیں لیکن نصرت مرزا سے اس طرح کی غیر سنجیدگی کی توقع نہیں کی جا سکتی وہ فرماتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت گرانے کے لیے ہمارے دوستوں اوردشمنوں پر مشمتل سہ رکن اتحاد نے تین ارب ڈالر لگائے ہیں جس کا بنیادی مقصد عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہے یوسف رضا گیلانی کی فتح تو پہلا مرحلہ تھی دوسرامرحلہ چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ہوگا

ڈسکہ کا 18 مارچ کو ہونے والا ضمنی انتخاب بھی اسی معاملے کی کڑی ہوگا جب تاثرات کے کھیل میں تحریک انصاف کو ایک بار پھر شکست کا سامنا ہو گا۔ نصرت مرزا انکشاف کرتے ہوئے دعوی کرتے ہیں کہ اس گھناؤنے کھیل میں تل ابیب، نئی دہلی اورہمارے ایک برادرعرب ملک کا شاہی خاندان شامل ہے ہمارے روایتی دوست عرب ریاستوں کے والیان کو جناب عمران خان کی کچھ پالیسیوں پرشدید اعتراضات ہیں جس کا مظاہرہ کہ مختلف انداز میں کرتے رہتے ہیں اگرچہ مرکزی اہمیت کے حامل ذرائع ابلاغ نے نصرت مرزا کے انکشافات پر توجہ نہیں دی لیکن حکومت اور حساس اداروں کا فرض ہے کہ وہ ان انکشافات والزامات کی مکمل تحقیقات کرائیں اور اگر سینٹ کے انتخاب میں بیرونی پیسہ استعمال ہوا ہے تو اس کے خلاف تمام دستیاب وسائل استعمال کر کے کارروائی کریں۔

ڈسکہ ضمنی انتخاب اور سینٹ گوٹالے سے ثابت ہو گیا ہے کہ غیر جانبدارانہ اور پرامن انتخاب کرانا ہماری پولیس کے بس کا روگ نہیں۔ پس تحریر عرض ہے کہ عثمان بزدار کی جگہ راجہ بشارت کا نام منظر عام پر لایا جا رہا ہے جو کہ تباہی کا فارمولا ہو گا۔

قابل قبول نیک نام فرزندان ملت ہی جاری بحران حل کر سکتے ہیں آج نہیں تو کل اسی حل کو اپنانا ہو گا

اسلم خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اسلم خان

محمد اسلم خاں گذشتہ تین دہائیوں سے عملی صحافت کے مختلف شعبوں سے منسلک رہے ہیں اب مدتوں سے کالم نگار ی کر رہے ہیں تحقیقاتی ربورٹنگ اور نیوز روم میں جناب عباس اطہر (شاہ جی) سے تلمیذ کیا

aslam-khan has 57 posts and counting.See all posts by aslam-khan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments