لسبیلہ سے قاسم رونجھو کی کامیابی: سیاسی تبدیلی یا موقع شناسی؟


موجودہ مخصوص طبقے کی ریاست میں سینٹ الیکشن کے بعد سیاسی ہلچل عروج پر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں جو ہمیشہ ہر الیکشن کے ہونے سے لے کر مکمل ہونے تک رہتی ہے۔ مگر حالیہ الیکشن میں پی ڈی ایم کا مقابلہ یعنی اپوزیشن اتحادی جماعتوں کا مقابلہ حکومتی پارٹیوں سے تھا اسی لئے یہ سینٹ الیکشن پاکستان بھر سے حکومت سے تنگ عوام کے لیے دلچسپ رہا جبکہ اس سے پہلے عوام میں سینٹ الیکشن میں اتنی دلچسپی نہیں دیکھی گئی۔ اس بار حکومت جماعت میں شامل اتحادی یا حکومت کے اپنے نمائندوں کی جانب سے بغاوتیں بھی دیکھی گئی اور سینیٹ الیکشن کی مہم میں زرداری سب پر بھاری کا سلوگن اور نو بائیکاٹ والے ڈائیلاگ نے بھی کام دکھایا۔ سینٹ الیکشن کا اپ سیٹ حکومت کو کس حد تک مہنگا پڑے گا یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ اور زرداری والی سیاسی پیش گوئیاں مجھ سے بیان نہیں ہو سکتی۔

دوسری جانب دیکھا جائے تو الیکشن کے بعد وزیراعظم کی فوراً اسٹیبلشمنٹ کے ہاں حاضری اور اعتماد کا ووٹ لینے والا رولا کسی ایسے خوف کی جانب عکاسی ہے جو کسی لیڈر کو اپنے اہم کمانڈرز سے محسوس ہونے لگتا ہے یا ان سے جن کی وجہ سے آپ کو منصب ملا ہوتا ہے۔ خان صاحب کی ریاست میں اس کو ہمارے لئے یوٹرن کہنا زیادہ موضوع رہے گا کیونکہ آج کا ٹرینڈ بھی یہی چل رہا ہے۔ البتہ یہ ملکی لیول کے سینٹ الیکشن پر آدھا پونا تبصرہ تھا۔ لیکن آج اسی سینٹ الیکشن سے منسلک میرا موضوع کچھ اور ہے اور دلچسپ بھی۔

سینٹ الیکشن میں صوبہ بلوچستان کے سونے کی چڑیا کہلانے والے ضلع لسبیلہ میں جمہوری سیاست کے ڈھانچے میں بلوچستان نیشنل پارٹی نے اپنے پرانے مرکزی ممبر قاسم رونجھو کو سینٹ ٹکٹ دے کر جنرل نشست پر کامیاب کر کے روح ڈالی ہے۔ اس سے پہلے یہ اعزاز متعلقہ ضلع میں اکبر لاسی محروم کی شکل میں پیپلز پارٹی کو حاصل تھا اور وہ اعزاز اکبر لاسی صاحب کی رحلت کے بعد پیپلز پارٹی نے اپنے پاس رکھ دیا جبکہ بینظیر بھٹو شہید کے جانے کے بعد متعلقہ پارٹی کا لسبیلہ میں کوئی ورکر نظر نہیں آیا ورنہ اس پارٹی کو نصراللہ رونجھو نے ہمیشہ زندہ رکھا اور الیکشن میں ثابت قدم رہنے کے ساتھ ساتھ مقابلہ کرتے رہے اور نصراللہ رونجھو کو بلوچستان بھر میں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ 2018 کے الیکشن میں یا اس سے پہلے بھی پیپلز پارٹی کے واحد امیدوار تھے جنہوں نے سب سے زیادہ ووٹ لئے اور ان کا مقابلہ موجودہ وزیراعلی بلوچستان کے ساتھ تھا۔

اب جب ایسے ماحول میں جہاں لوگوں نے لسبیلہ میں گروپ سیاست یا شخصی سیاست کو ہی لسبیلہ کا مستقبل سمجھ لیا تھا وہاں موجودہ سینٹ الیکشن میں بلوچستان نیشنل پارٹی نے یہ اعزاز اپنے حصے میں کر لیا۔ جبکہ لسبیلہ میں عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس جیت سے بی این پی مینگل کے سربراہ نے پولٹیکل سویپ شارٹ کھیل کر لسبیلہ میں شخصی سیاست دھکیلنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ جو آگے چل کر شخصی سیاست کے لیے ہرگز سودمند ثابت نہیں ہوگی ممکن ہے آگے چل کر ایسے شارٹس دیگر پارٹی سربراہان کھیلتے رہیں۔ مگر اس اقدام سے نظریاتی سیاست کو فروغ ملے گا اور وراثتی سیاست کی اہمیت ختم ہو جائے گی۔ خیر اس کے لیے ابھی وقت درکار ہے مگر وقت دور نہیں ہے۔

بلوچستان میں حکومت جماعت کو سینٹ نشستوں پر واضح برتری حاصل ہے مگر بالخصوص وزیراعلی بلوچستان کے ہوم ڈسٹرکٹ سے بی این پی کے ٹکٹ ہولڈر کا قاسم رونجھو کا سینٹ الیکشن میں کامیاب ہونا زیادہ مقبول عمل رہا ہے۔ کیوں کہ لسبیلہ میں دو گروپ مقبول ہیں جام گروپ اور بھوتانی گروپ اور دونوں میں سے کسی مقامی فرد ( عام عوامی فرد) کو سیاست میں آگے آنے کا موقع نہیں ملا۔ جبکہ متعلقہ گروپس کے افراد خود ہی ایسا سوچنا یا گروپ لیڈر سے اس کا شکوہ کرنا گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں اب اس کا اندازہ نہیں یہ سیاسی پالیسی ہے یا کچھ اور۔ ایسے میں پی ڈی ایم کے حامی اور بی این پی کے رکن قاسم رونجھو کا دونوں گروپس کو بائی پاس کرتے ہوئے لسبیلہ سے سینٹ تک پہنچنا کسی تعجب سے کم نہیں سمجھا رہا۔ مگر سیاسی شعور رکھنے والے لوگوں کے لیے یہ نیک شگون ہے۔

جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کی جانب سے سربراہ بلوچستان عوامی پارٹی وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان کی شفقت سے لسبیلہ سے دو سینٹر جن میں خواتین نشست پر ثمینہ ممتاز لسبیلہ سے سینیٹر منتخب ہوئی جبکہ اقلیتی نشست پر دھنیش کمار پلیانی سینیٹر منتخب ہوئے۔ مگر ذرائع کے مطابق متعلقہ دونوں امیدواروں کا لسبیلہ سے بنیادی تعلق نہیں ہے۔ خیر یہ ایک الگ موضوع اس پر پھر کبھی لکھنے کی جسارت کریں گے۔ مگر ایسا ممکن تھا اگر وزیراعلی بلوچستان یا ان کی پارٹی سینٹ شپ کے لیے اپنے ہوم ڈسٹرکٹ سے کسی مقامی رہنما کو موقع فراہم کرتی۔ حقداری یا وفاداری نہیں بلکہ ٹرینڈ سمجھ کر اگر ایسا فیصلہ کیا جاتا تو زیادہ بہتر تھا۔

بذات خود میرا کسی سیاسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں۔ مگر سیاست کے بارے اتنا شعور رکھتا ہوں کہ سیاست کا آغاز ایسی پارٹی سے کرنا چاہیے جس کی کوئی تاریخ ہو، جس کا کوئی وجود ہو، جس کا کوئی نظریہ ہو، جس میں جمہوریت ہو، جس میں کارکن کو لیڈر سے اپنے جذبات شیئر کرنے کا مکمل ادیکار حاصل ہو، جس میں عام کارکن کو آگے جانے کے مواقع میسر آئیں، جس میں غلط فیصلے پر اظہار رائے کا حق شامل ہو، وفادار اور تجربہ کار کو اس کا حق ملے، اس سے نوجوان نسل کو سیاست میں آگے آنے کا موقع ملے گا۔

میں متعلقہ ضلع کا باشندہ ہو کر سردار اختر جان مینگل کی اس سیاسی سویپ شارٹ پر ان کا گرویدہ ہو گیا جنہوں نے موقع شناسی کا استعمال کرتے ہوتے وزیراعلی بلوچستان کے ہوم ڈسٹرکٹ اور آبائی شہر بلکہ گاؤں سے منسلک بی این پی کے کے امیدوار قاسم رونجھو کو پارٹی ٹکٹ دے کر سینیٹر منتخب کر کے لسبیلہ کی سیاست میں سیاسی تبدیلی کا سگنل دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments