افغانستان: تین خواتین صحافیوں کے قتل کے بعد خواتین میڈیا ورکرز میں خوف کی لہر


افغانستان میں منگل کو تین خواتین صحافیوں کے قتل کے بعد صحافی برادری خصوصا صحافتی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کارکنان عدم تحفظ کا شکار ہے۔ صحافتی تنظیموں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایسے واقعات کے ذمے داروں کا تعین کر کے اُنہیں قرار واقعی سزا دے۔

افغانستان میں حالیہ چند ماہ کے دوران صحافیوں کو نشانہ بنا کر قتل کرنے کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ طالبان ان واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں ۔۔ماضی میں اس نوعیت کے واقعات کی زمہ داری دولتِ اسلامیہ (داعش) بھی قبول کرتی رہی ہے۔

افغان صحافیوں کا کہنا ہے کہ ابھی اسی مقامی ٹی وی چینل کی خاتون کارکن ملالہ میوند اور دوسرے افغان صحافیوں کے قتل کے واقعات اُن کے ذہن میں تازہ تھے کہ یہ افسوس ناک واقعہ پیش آ گیا ہے جس سے صحافی برادری خوف میں مبتلا ہیں۔

افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار میں نامعلوم مسلح ملزمان نے تین خواتین صحافیوں کو منگل کے روز فائرنگ کر کے ہلاک کیا تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق یہ واقعہ منگل کی شام اس وقت پیش آیا جب تینوں خواتین دفتر سے واپس گھر جا رہی تھیں۔

پولیس کے مطابق تینوں خواتین کا تعلق انعکاس ٹیلی وژن سے تھا۔ دو خواتین موقع پر جب کہ تیسری صحافی نے اسپتال میں دم توڑا۔

اس واقعے کی فوری طور پر ذمہ داری کسی گروہ نے قبول نہیں کی۔ البتہ طالبان نے واقعے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس دسمبر میں اسی ادارے سے وابستہ ایک سینئر صحافی ملالئی میوند کو ان کے ڈرائیور سمیت فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ملالئی کے قتل کی ذمہ داری دہشت گرد تنطیم داعش نے قبول کی تھی۔

کابل میں مقیم ایک خاتون افغان صحافی گزشتہ چھ برس سے داخلی امور سمیت افغانستان میں خواتین کے مسائل پر رپورٹنگ کررہی ہیں۔

سیکیورٹی خدشات کے باعث وہ اپنا اصل نام ظاہر نہیں کرنا چاہتیں۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان کے حالات ایک بار پھر نوے کی دہائی کی جانب جاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے بعد افغانستان میں ایک نئی حکومت کا قیام عمل میں آیا جس کے بعد خواتین کی تعلیم، آزادی اور کام کرنے کے حوالے سے کافی پیش رفت ہوئی۔ اب دوبارہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ خواتین اپنا وطن چھوڑ کر کہیں اور چلی جائیں یا گھروں تک محدود ہو جائیں۔

وہ کہتی ہیں کہ افغانستان کی خواتین میں اب شعور بیدار ہو گیا ہے اور وہ چاہتی ہیں کہ گھروں سے باہر نکلیں اور اپنے حق کا تقاضا کریں۔

صحافی خاتون کے بقول، “انتہا پسند قوتوں کو بخوبی علم ہے کہ جب افغانستان کی خواتین گھروں سے تعلیم یا روزگار کے سلسلے میں باہر نکلیں گی تو افغانستان میں ترقی کی راہیں کھلیں گی۔ جس سے افغان عوام کو شدت پسندی کی جانب مائل کرنے میں مشکلات ہوں گی اور دشمن اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائے گا۔”

‘انعکاس’ ٹیلی وژن کے براڈ کاسٹ منیجر شکراللہ پاسون نے بتایا کہ قاتلانہ حملے میں ہلاک ہونے والی تینوں صحافیوں نے بہت کم عرصے میں اپنی محنت اور لگن سے مقام بنایا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں مختلف ممالک کے ڈرامے اور فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔ افغان عوام کی سہولت کے لیے یہ تینوں خواتین ان فلموں اور ڈراموں پر اپنی آواز میں پشتو زبان میں ڈبنگ کے فرائض سر انجام دیتی تھیں۔

شکراللہ پاسون کا کہنا تھا کہ اکیلے ان کا ادارہ دھمکیوں کی زد میں نہیں ہے بلکہ افغانستان میں تمام صحافی برادری انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے نشانے پر ہے اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند ماہ میں بے شمار صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا۔

وحیدہ فیضی افغان جرنلسٹس سیفٹی کمیٹی (اے جے ایس سی) کے ساتھ بطور سینئر معاون فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔ یہ تنظیم افغانستان میں میڈیا کارکنوں کے لیے ایک محفوظ ماحول میں کام کرنے کے حوالے سے کام کرتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے وحیدہ فیضی نے بتایا کہ افغانستان کے سیکیورٹی کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ خواتین اس ملک کی سب سے طاقت ور آواز ہیں۔ لہذٰا حکومت کو چاہیے کہ خواتین کو سیکیورٹی فراہم کرے۔

وحیدہ فیضی کے مطابق حالات اس نہج تک پہنچ گئے ہیں کہ کسی کو یہ تک نہیں پتا چلتا کہ آخر کار صحافیوں کا دشمن کون ہے؟ اُن کے بقول اس سوال کا جواب حکومت کے پاس بھی نہیں ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ دہشت گرد ان کارروائیوں کے ذریعے صحافی برادری میں خوف و ہراس پھیلانا چاہتے ہیں۔ اُن کے بقول گزشتہ چند ماہ میں بہت سے صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو افغانستان میں نشانہ بنایا گیا ہے لیکن اس سے صحافیوں کے مورال میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان گزشتہ سال طے پانے والے امن معاہدے کے باوجود افغانستان میں حالیہ عرصے میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ان واقعات میں صحافیوں، ڈاکٹرز، ججز، وکلا اور دیگر طبقات کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔

اس سے قبل نام ور صحافی رحمت اللہ نیک زادہ کو صوبہ غزنی جب کہ ریڈیو فری یورپ، ریڈیو لبرٹی کے نمائندہ الیاس داعی کو جنوبی لشکر گاہ میں ہلاک کیا گیا۔

خاتون افغان صحافی نے، اردو وی او اے کے نمائندے کو بتایا کہ ایسے حالات میں جب وہ گھر سے باہر نکلتی ہیں تو ان پر ان کے گھر والوں کا بہت زیادہ دباؤ ہوتا ہے۔ وہ خود بھی خوف زدہ ہیں۔

اُن کے بقول یہ خوف صرف خواتین تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ ہر وہ شخص جو گھر سے باہر نکلتا ہے وہ نامعلوم حملہ آور، خود کش حملے، گولیوں اور کار بم دھماکوں کی زد میں آ سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب افغانستان میں ایک نئی نسل ہے۔ جس نے ان حالات میں آنکھ کھولی ہے۔ اور حالات کے ساتھ جینا بھی سیکھ لیا ہے اور وہ اپنی جدوجہد سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments