جماعت اسلامی، فیصل واوڈا اور پاکستانی جمہوریت کی مضبوطی


جمہوریت کی مضبوطی، واہ کمال پاکستان میں آپ جمہوریت کی مضبوطی کی مثال دیکھیں تو حیران رہ جائیں گے۔ جماعت اسلامی ایک مضبوط سیاسی جماعت ہے۔ لیکن جمہوری رویوں کے حوالے سے جائزہ لیجیے تو موجودہ سینیٹ انتخابات میں حیران کن اور افسوس ناک رویہ بھی دیکھنے کو ملا۔ پنجاب میں پارٹی کے سینئر رہنما امیر العظیم کی تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر اعجاز چوہدری سے ملاقات ہوئی (یہ وہی اعجاز چوہدری ہیں جو حالیہ سیٹلمنٹ کے نتیجے میں پنجاب سے بلامقابلہ پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر سینیٹر بنے ہیں) ۔

امیر العظیم صاحب نے اعجاز چوہدری سے پارٹی کی سطح پہ سیٹلمنٹ کچھ یوں کی ہے کہ جماعت اسلامی وفاق میں قومی اسمبلی سے غیر حاضر رہے گی سینٹ ووٹنگ کے عمل سے۔ اور یہی طرز عمل ان کا سندھ اسمبلی میں بھی ہو گا۔ یعنی سندھ اسمبلی اور قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کے ممران ووٹنگ کے عمل میں شریک نہ ہو  کے بنیادی طور پر تحریک انصاف کی حمایت کریں گے۔ کیوں کہ بطور اپوزیشن جماعت یہ ووٹ تحریک انصاف کے خلاف جانا تھا۔ اور یقینی طور پر ایک جمہوری عمل ہے کہ کم از کم ووٹ حق میں نہیں دیں گے بلکہ غیر حاضر رہیں گے۔

یہاں تک بات مکمل طور پر درست ہے اور تمام جمہوری روایات کے عین مطابق بھی ہے۔ اور بے شک ہر پارٹی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے بہتر فیصلہ کر سکتی ہے۔ اسی لیے جماعت اسلامی کے اس فیصلے پر نہ تو کوئی اعتراض ہے اور نہ ہی کوئی تنقید۔ لیکن یہاں ایک لمحہ آپ خیبر پختونخوا کا جائزہ لیجیے تو وہاں پہ جماعت اسلامی نے سیٹلمنٹ کی ہے لیکن وہاں کی سیٹلمنٹ پی ڈی ایم کے ساتھ ہے۔ یعنی جماعت اسلامی خیبر پختونخوا اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ووٹ دے گی ۔

یہ نہ جانے کون سی جمہوریت کی مضبوطی ہے اور کون سی اخلاقی روایات ہیں کہ ایک جگہ پر تو آپ اسی پارٹی کی حمایت کر رہے ہیں اور دوسرے صوبے میں اس کے خلاف جا رہے ہیں۔ یہ چوں چوں کا مربہ یا آدھا تیتر آدھا بٹیر کیوں ہے؟ اگر وفاق میں اسی جماعت کے ساتھ باہمی رابطہ کاری کے ساتھ جمہوری عمل کا حصہ بننے کے بجائے الگ رہنے کو ترجیح دے رہیں (جس کا یقینی فائدہ حکمران جماعت کو ہو گا) تو پھر قومی سطح کی جماعت ہوتے ہوئے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں وہی طرز عمل کیوں نہیں اپنایا جا سکا؟ یا پھر ہم یہ کہہ لیں کہ جماعت اسلامی قومی کے بجائے صرف علاقائی یا صوبائی پارٹی بن کر رہ گئی ہے؟

دوسری مثال جمہوریت کی ان سینیٹ انتخابات میں ملاحظہ کیجیے کہ پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی فیصل واؤڈا سے باز پرس شروع ہوئی۔ کیس چل نکلا دوہری شہریت کا۔ پوچھا گیا جناب کہ ایسا کیوں ہے۔ صاحب نے کم و بیش ایک سال لگا دیا جواب دینے میں اور مختلف حیلوں بہانوں سے معاملے کو نہ صرف طول دیتے رہے بلکہ اس حوالے سے حقائق سے نظریں بھی چراتے رہے۔ اور نااہلی کی تلوار ان کے سر پر لٹکنے لگی۔ یہاں اداروں کے کردار پہ بھی سوال اٹھنا شروع ہوتے ہیں کہ اگر ایک قومی سطح کے کیس کا فیصلہ کرنے میں اتنی دیر لگے گی تو عام پاکستانی کے مسائل حل ہونے کی پھر امید نہ ہی رکھیں۔

 سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ نا اہلی کے بڑھتے سائے میں ہی ان کو سینیٹ کے ٹکٹ سے نواز دیا گیا۔ اور جمہوری روایات کے ساتھ کھلواڑ دیکھیے کہ ایک شخص جس پہ نا اہلی کی تلوار لٹک رہی ہے اور کسی بھی وقت چل سکتی ہے یہ تلوار، وہ سینیٹ انتخابات کا امیدوار بن جاتا ہے، پارٹی اسے ٹکٹ بھی دے دیتی ہے اور پھر وہ سینیٹ انتخابات میں ووٹ کاسٹ کرنے کے فوراً بعد قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ بھی دے دیتا ہے۔ یعنی وہاں نہیں تو یہاں سہی۔ لیکن اس قوم اور ایوان کے ساتھ مذاق ضرور کرنا ہے۔ جو ایک جگہ نااہل ہو وہ دوسری جگہ اہل کیسے ہو سکتا ہے ، اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اب نا اہلی کی تلوار کند ہو جائے گی۔ وجہ یہ کہ نشست ہی جب نہ رہی تو نا اہلی کیسی۔

ہم نے نعرہ لگایا کہ سینیٹ انتخابات میں سے پیسے کی ریل پیل ختم ہو جانی چاہیے۔ بھلا ہو جمہوریت کے نام لیواؤں کا کہ انہوں نے انتخابات کو پیسے کی ریل پیل کم ہونے یا ختم ہونے کے باوجود جمہوری روایات کے مطابق ہونے نہیں دیا۔ ٹکٹس کی تقسیم سے لے کر انتخابات کے دن تک ایسے ایسے لطائف سامنے آتے رہے کہ جمہوریت کی قسمت پہ رونا آتا ہے۔ کہاں کا امیدوار کہاں کھپایا جاتا رہا۔ ایک ہوٹل سے دوسرے ہوٹل میں امیدوار پروٹوکول پاتے رہے۔ کہیں باغیوں سے مڈبھیڑ ہوتی رہی اور کارکنوں کو لولی پاپ دیے جاتے رہے۔ خدایا اس جمہوریت پہ رحم کر یہ بہت نازک حالت میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments