اشفاق احمد ، بابا نور سائیں اور ’میں‘ مارنے کی مشق


یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوئے کم و بیش تین سال کا عرصہ گزر گیا تھا اور کام کے حوالے سے اڑھائی سال ہو چکے تھے۔ اسی اثنا میں ایک اچھی نجی کمپنی میں کام کا موقع ملا تو نوکری کے معاہدے پہ ہماری پوزیشن ’ٹرینی انجینئر‘ جلی حروف میں لکھی ہوئی تھی۔ طبیعت میں عجب سے کسل مندی پیدا ہوئی کہ اس کی بابت تو بتایا ہی نہیں گیا تھا۔ استفسار پہ معلوم ہوا کہ کپمنی کا اصول ہے کہ تین سال سے کم تجربہ رکھنے والے کو ’ٹرینی‘ ہی تصور کیا جاتا ہے۔

چونکہ یہ دنیا نقل بہ مطابق اصل ہے تو کچھ ایسے ہی اصول اور ضوابط سالک (مسافر) کے لئے بھی طے ہیں۔ اگر زمین میں بیج بو کر ہر روز اسے کھود کے دیکھا جائے کہ کس مرحلے تک پہنچ گیا ہے تو کیا بیج کبھی پنپ پائے گا؟ اسی طرح راہ سلوک پہ چلنے والا بھی اپنی نمو اور کارکردگی سے لاعلم ہوتا ہے۔ اسے صرف راہ پر چلنے اور اس پہ قائم رہنے کی جستجو ہوتی ہے۔ اس کو صرف چلتے رہنے کا ہی امر ملا ہوتا ہے اور وہ خود اس بات سے بے خبر ہوتا ہے کہ اس کا سایہ کہاں کہاں پہنچتا ہے۔

ہر شخص اپنی ذات میں منفرد ہے اور یہی انفرادیت اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ ایسے ہی ہر مسافر کے لئے ’ٹرینی‘ رہنے کی مدت بھی مختلف ہوا کرتی ہے اور ہر ایک کو ایک ہی جیسی آزمائش سے گزارا جائے ، یہ بھی ضروری نہیں۔ کیونکہ اس سبق کا کوئی نصاب مختص نہیں ہے۔ نصاب ایک سا نہ ہو تو امتحان ایک سا کیسے ہو سکتا ہے۔

راز جاننے والے بتاتے ہیں کہ ایک کا کھانا کسی دوسرے شخص کے لئے زہر ہو سکتا ہے۔ اس لئے اپنے حصے کے رزق کی جستجو ہی میں رہیے اور جیسا امر وارد ہو ویسا ہی عمل کیجیے کیونکہ عمل کرنے والا اگر عمل کی حکمت اور راز سے واقف نہیں تو وہ نہیں جان سکتا کہ اس عمل کے نتیجے اور اس نتیجے کے فیوض و برکات سے کیسے مستفید ہوا جا سکتا ہے۔

اس بات کو بابا جی اشفاق صاحب نے بابا نور سائیں کے ڈیرے پہ گزری ایک واردات سے بھی بیان کیا ہے۔ بابا جی اشفاق صاحب اکثر بابا نور سائیں کے ڈیرے سے متعلق گفتگو فرمایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ’میں‘ کے ذکر میں بات کرتے ہوئے کہنے لگے کہ جب ڈیرے پہ مسجد میں نماز کی ادائیگی کے بعد باہر آتے تو کوئی شخص باہر پڑی جوتیوں کو ترتیب سے رکھ دیتا تھا اور رکھتا بھی اس سمت میں تھا کی مسجد سے نکلنے والا شخص آرام سے پاؤں میں اپنا جوتا پہن لے ، اسے جوتوں کا رخ موڑنا نہ پڑے۔ تو یہ ایک نئی اور اچھی بات لگی تو دل میں آیا کہ انہیں بھی ایسے جوتیاں سیدھی کرنی چاہئیں ، اس سے اندر کی‘ میں ’مارنے میں بھی آسانی ہو گی۔

اس بات کا اظہار بابا جی اشفاق صاحب نے بابا نور سائیں سے بھی کیا تو بابا نور سائیں نے منع کر دیا۔ اشفاق صاحب نے وضاحت کی کہ اس عمل سے ’میں‘ مارنے میں آسانی ہو گی اور نفس پہ کنٹرول حاصل ہو گا تو بابا نور سائیں نے کہا کہ اسی ’میں‘ اور نفس کے لئے ہی تو منع کیا ہے اور مزید اس کی توجیہہ یہ بیان کی کہ آپ پڑھے لکھے انسان ہیں ’علم و ہنر سے واقف ہیں‘ جب آپ مسجد کے باہر پڑی جوتیاں سیدھی کریں گے تو آپ کی ’میں‘ اور نفس بجائے کنٹرول میں آنے کے مزید پھول کے کپا ہو جائیں گے کہ میں ایسا پڑھا لکھا اور افسر آدمی ہو کے کیسا ادنیٰ کام کر رہا ہوں۔ یہ عمل بالکل بھی فائدہ مند ثابت نہ ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments