بھارت علاقے کا چوہدری ہے کیا؟


کسی سردار، وڈیرے، جاگیردار، چودھری کا کوئی ڈیرا میں نے کبھی اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا یا یوں کہیے کہ میرا ان سے کبھی براہ راست کوئی واسطہ نہیں پڑا لیکن پاکستان ٹیلی وژن اور دیگر چینلز کے نئے پرانے ڈراموں سے یہ جان پایا ہوں کہ ہمارے گاؤں دیہات میں سردار، وڈیرہ، جاگیردار اور چوہدری کو ایک خاص مقام حاصل ہوتا ہے۔ اس بنیاد پر میں یہ جان پایا کہ یہ چوہدری، سردار، وڈیرے کوئی بہت بڑی طاقت ہوتے ہیں جن کا علاقے میں کافی اثر ہوتا ہے۔ دہشت ہوتی ہے۔ وہ چاہے انصاف کریں یا نا انصافی لیکن لوگ اپنے مسائل لئے انہیں کے پاس دوڑتے ہیں۔ علاقے کے پولیس والے بھی اس کی خدمت میں موجود رہتے ہیں، غرض گاؤں کا چوہدری ایک بادشاہ ہی ہوتا ہے۔

پتہ نہیں چوہدری ہونا اچھی بات ہے یا نہیں! لیکن عام طور پر ہمارے لوگ، پاکستان کے دوسرے ملکوں سے تعلقات کے حوالے سے جب بات کر تے ہیں، تو اکثر لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کو دنیا کا چوہدری بننے کا بہت شوق ہے۔ میں ایک طالب علم ہوں اور لوگوں کے اپنے ہی ملک کے بارے میں ایسے خیالات جان کر خاصا عجیب محسوس کرتا ہوں، جب میں بھارت کا علاقے میں رویہ دیکھتا ہوں تو میرے ذہن میں لفظ چوہدری لے تصور کا صحیح اور معقول مصداق وہی لگتا ہے۔

بھارت نے 1971 میں ہمیں بتایا کہ دنیا کے بڑے ملکوں سے اس کے تعلقات ہیں اور وہ ان کا اس علا قے میں آشیرباد یافتہ اور سند کا حامل چوہدری ہے۔ گویا بڑے ملکوں میں بھی اس کی پوزیشن تسلیم کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے سال 71ء کے اختتام تک مشرقی پاکستان تو پاکستان ہی کا حصہ تھا۔ ہم اقوام متحدہ میں چیختے رہے، قراردادیں پھاڑتے رہے لیکن جو ہمارا تھا وہ ہمارا نہیں رہا۔ کل بھی ہمارا یہی حال تھا اور ہم ہی ہیں جو آج بھی اقوام متحدہ کے سامنے دہائی دیے جا رہے ہیں کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلوا دو۔ عرب برادران بھی ہمیں ویسے ہی جھوٹی تسلی دیتے ہیں جیسے گاؤں کا چوہدری نمبردار سے بات کرتا ہے کسی غریب بیوہ کی زمین وا گزار کرانے کے لیے۔ پھر ان ساری باتوں کے باوجود ہمارے لوگ کہتے ہیں پاکستان کو چوہدری بننے کا شوق ہے۔

اچھا! اس علاقے میں ایک ہم ہی تو نہیں، بہت سے اور چھوٹے ملک بھی ہیں جیسے بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال وغیرہ۔ سب نے کبھی نہ کبھی بھارت کی مداخلت کو جھیلا ہے لیکن ہمارے لوگ پھر بھی پاکستان کو ایک افغان جنگ میں مداخلت کرنے پر چوہدری قرار دیتے ہیں۔ خطے میں سری لنکا کا فاصلے کے اعتبار سے سب سے قریبی ملک بھارت ہے۔ میں آج آپ کے سامنے جو کہانی پیش کر رہا ہوں وہ سری لنکا میں بھارت کی مداخلت کے حوالے سے ہے یا یوں سمجھیں کہ یہ بتا رہا ہوں کہ ہم ہی ایک مظلوم نہیں بھارت نے سری لنکا میں بھی مداخلت کی اور مدت تک کی، بزور طاقت کی۔ سری لنکا کیونکہ ایک چھوٹا سا ملک ہے ، وہ شور بھی نہیں مچا پایا۔

سری لنکا میں تامل علحیدگی پسندوں کا معاملہ 1983 میں آئینی ترمیم کے بعد سامنے آیا، کئی گوریلا لیڈروں نے بھارتی صوبے تامل ناڈو میں پناہ لی۔ خفیہ طور پر تامل علحیدگی پسندوں کی تربیت اسی طرح شروع کر دی جس طرح 71 سے قبل مکتی باہنی کی تربیت پاکستان توڑنے کے لیے کی گئی ۔ اندرا گاندھی اس وقت بھی بھارت کی وزیراعظم تھیں۔ شاید پاکستان کے خلاف فوجی استعمال، گوریلوں کے استعمال کے بعد یہ ان کا اسٹینڈرڈ پروسیجر ہی بن گیا تھا، یہی طریقہ کار اب وہ ایک چھوٹے پڑوسی کے خلاف استعمال کر رہی تھیں۔

سری لنکا نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ تامل علحیدگی پسندوں اور ان کے سرداروں کو سری لنکن حکومت کے حوالے کیا جائے۔ بھارت کے انکار کے بعد سری لنکا اور بھارت کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ اندرا گاندھی کے دماغ میں کیا چل رہا تھا ، اس حوالے سے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم اکتوبر 84 میں اندرا گاندھی اپنے ہی باڈی گارڈکے ہاتھوں قتل ہو گئیں۔ منظر نامہ تبدیل ہوا۔ پھر الیکشن میں کامیابی کے بعد 84ء ہی میں اندرا گاندھی کے بیٹے راجیو گاندھی نے بھارت کے چھٹے وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا۔ 1985 میں سری لنکن صدر جے وردھنے کی نئی دہلی میں بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی سے ملاقات ہوئی جس میں سری لنکا میں پیش آنے والے واقعات پر نئے عہد و پیمان ہوئے۔

میرا تجربہ اور میرا علم محدود ہے۔ میں جہاں کتابیں پڑھ کر اپنی کم علمی دور کرنے کی کوشش کرتا ہوں وہیں میرے پاس اپنے علم میں اضافے کے لیے پرانے اخبارات کی اچھی خاصی آرکائیو (Archive) بھی موجود ہے۔ پرانے اخباروں میں مجھے جنگ اخبار کا ستمبر 1990 کا ایک مڈویک میگزین ملا جس میں سری لنکا کے حوالے سے محمود اللہ والا کے قلم سے نکلی ہوئی ایک فیچر اسٹوری شامل ہے۔ صاحب مضمون کے بارے میں مجھے کچھ معلوم نہیں، لیکن ’جنگ‘ ایک بڑا نام ہے تو اس لیے اس کو بطور ریفرنس استعمال کر رہا ہوں۔ الفاظ نہیں کہانی ریفرنس تو بہتر رہے گا۔ اسی طرح بھارتی فوج کے سرکاری اعداد و شمار کے حوالے سے کتاب Military Year Book 1986۔ 87 کا ریفرنس اس تجزیے میں شامل ہے۔ اس کتاب کے ایڈیٹر S P Barawal ہیں (کتاب کا فرنٹ کور ریفرنس میں پیش ہے)۔

میں جس مداخلت کی جانب اشارہ کر رہا ہوں اس کا ذکر ملٹری بک کے صفحہ 70 پر موجود ہے، قصہ 4 جون 1987 کا ہے، انسانی بنیاد پر ایک ایسے علاقے میں سری لنکا کو اعتماد میں لیے بغیر امدادی سامان گرایا ، امداد اگر گرانی تھی تو عالمی اداروں اور سری لنکن حکومت کو اعتماد میں تو لیا جاتا۔ ایسا کوئی ذکر اس کتاب میں نہیں ملا۔ آپریشن کا نام Eagle تھا۔ بھارت کے مال بردار ٹرانسپورٹ ایئر کرافٹ پانچ عدد An 32 میراج 2000 تیاروں کی زیر نگرانی بنگلور ( موجودہ بینگلورو ) شام پانچ بجے سے کچھ پہلے پرواز کر گئے ، کتاب کے مطابق ان میں 25 ٹن چاول اور دوائیں شامل تھیں۔

کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ سری لنکا کی جانب سے کوئی مزاحمت سامنے نہیں آئی۔ یہی میرا نقطۂ اول ہے۔ اگر بھارت یہی کام سری لنکا کو اعتماد میں لے کر کرتا تو انسانی بنیادوں پر کوئی حکومت کیوں اعتراض کرتی؟ کیا کوئی بھی ملک بھارت میں انسانی بنیادوں پر بنا بتائے کسی علاقے میں امداد گرا سکتا ہے؟ کم از کم بتا دینے کے بعد تو کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا لیکن میں 100 فیصد یقین سے کہہ سکتا ہوں اگر بنگلہ دیش، چین یہی حرکت بھارت کو بتائے بغیر اس کے کسی علاقے میں، خواہ انسانی بنیادوں پر ہی کریںتو کیا بھارت قبول کر لے گا؟

میرا خیال ہے یقینانہیں کرے گا بلکہ بھارت اسے مداخلت قرار دے گا۔ تو ثابت ہوا کہ یہ ہوائی جہازوں کے ذریعے کی گئی ایک مداخلت ہی تھی۔ اگر سری لنکا کو بتا کر کارروائی کی جاتی تو بھارت کو لڑاکا طیاروں کے اسکواڈ کی ضرورت بھی پیش نہ آتی جس کا اعتراف بھارتی سرکاری شائع شدہ کتاب میں موجود ہے۔ بھارت نے سری لنکا کی خود مختاری کو پامال کیا۔

کتاب Military Year Book 1986۔ 87 صفحہ نمبر 72  کے سب سے پہلے پیراگراف میں واضح طور پر لکھا ہے، ریڈیو ٹیلیفون پر سری لنکا کے کولمبو میں واقع ایئر ٹریفک کنٹرول کی جانب سے بھارتی تیاروں کو کہا گیا کہ آپ خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ اسی طرح اخبار میں بھی اس کا حوالہ دیا گیا ہے کہ عالمی سطح پر ان فضائی راستوں سے سپلائی گرانے کو مداخلت قرار دیا گیا۔ سری لنکا ایک چھوٹا کمزور ملک تھا کچھ نہ کر سکا لیکن تھی تو یہ ایک مداخلت ہی۔

کتاب ملٹری ایئر بک (Military Year Book ) اور جنگ مڈ ویک میگزین کے مطابق بھارت اور سری لنکا کے مابین 29 جولائی 1987 کے دن ایک معاہدے پر دستخط ہوئے۔ سری لنکا کی جانب سے مراعات دینے کا اعلان کیا گیا لیکن تامل ٹائیگرز کے رہنما بھاکرن نے سرنڈر کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ بھارتی امن فوج کے نام سے بھارتی افواج سری لنکا بھیجی گئیں۔ اس امن فوج کے مشن کیا تھے اور یہ مشن ناکام کیوں ہوئے، مڈویک میگزین میں اس کا احوال موجود ہے۔

مضمون کے مطابق بھارتی افواج زمینی صورتحال سے واقف نہ تھیں اور وہ مقامی آبادی اور گوریلوں میں کسی قسم کی تمیز روا نہیں رکھ سکیں۔ عام شہری بھارتی فوج کی بربریت کا شکار ہوئے۔ دوسری طرف تامل ٹائیگرز عام شہریوں کو بطور ڈھال استعمال کرنے لگے۔ اخبار لکھتا ہے کہ بھارتی امن فوج نے تامل ٹائیگرز کے خلاف جنگ شروع کی جس میں 6 ہزار سری لنکن شہری، 1200 بھارتی فوجی، 800 ٹامل ٹائیگرز مارے گئے۔ اس پر مستزاد یہ کہ سری لنکا کی مقامی آبادی بھارتی افواج سے خوف زدہ الگ ہو گئی۔

1989ء میں سری لنکا کے صدر جے وردھنے کا اقتدار پورا ہوا۔ پریما داسا نئے صدر بن گئے جنھوں نے بھارتی وزیراعظم پر بھارتی فوج کے انخلاء کے حوالے سے دباؤ ڈالا۔ اس پر عمل درآمد کے لئے پریما داسا نے 29 جولائی 1989 کی ڈیڈ لائن بھی جاری کر دی۔ بھارتی فوج کا آخری 2000 ہزار فوجیوں کا دستہ ٹرنکو مالی کے سری لنکن پورٹ سے بھارت واپسی کے لیے روانہ ہوا۔ سری لنکا بھارتی فوج کے انخلاء کے بعد بھی کافی عرصے تک تامل باغیو ں سے لڑتا رہا۔ان کے عوام اور فوج قربانیاں دیتے رہے۔

کچھ سولات ہیں جن کا جواب آج بھی درکار ہے۔ کوئی تو سپلائی لائن تھی جس پر سری لنکا میں اتنے عرصے تک آگ لگی رہی۔ تامل ٹائیگرز کی مدد کون کر رہا تھا؟ بحرہند کا یہ جزیرہ جس کے شمال میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور دنیا کی بڑی افواج میں سے ایک فوج موجود تھی۔ بھارتی بحریہ اور بھارتی فضائیہ کے اہلکار یقیناً بہت کچھ جانتے ہوں گے کہ کیسے تامل ٹائیگرز اتنے عر صے تک جنگ لڑ گئے؟

بھارت کو افغانستان کا بہت غم ہے۔ اس غم کی وجہ افغانستان نہیں پاکستان کا پڑوسی ہونا ہے ورنہ اپنے پڑوسیوں کے گھریلو معاملات میں مداخلت تو بھارت کے نزدیک عام سا حربہ ہے۔

سری لنکا کے وسائل محدود تھے لیکن ان محدود وسائل میں پاکستان سری لنکا کی مدد کو پہنچا اور ان کی افواج کو وہ تربیت اور قوت فراہم کی جس نے تامل ٹائیگرز کی کمر توڑ دی اور سری لنکا سے بھارت میں مداخلت نہیں ہوئی۔ لیکن افغانستان کے راستے بھارت پاکستان میں مداخلت کرتا رہا ہے۔

یہی فرق ہے عام آدمی اور علاقے کے چوہدری میں۔ بھارت بلاشبہ اپنے آپ کو چوہدری منوانا چاہتا ہے۔ پاکستان کے سری لنکا کے حوالے سے تعلقات پر پھر کبھی ضرور بات کروں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments