مستقبل کا مشترکہ عالمی نظام



کمیون ازم بنیادی طور پر سوشل ازم کے مختلف ماڈلز میں سے ایک ماڈل ہے، کمیون کا لفظی مطلب ایک امداد باہمی پر مبنی دیہاتی سوسائٹی ہے، یہ ماڈل افقی ہے، اور دوسرا ماڈل شہری معاشرے سے متعلق ہے اور یہ عمودی ہے، یعنی آبادی کی بہت بڑی تعداد کو بلند و بالا عمودی عمارات میں بسانا، وہیں کام کرنے، اور بنیادی تعلیم و تربیت کے مواقع فراہم کرنا ہوتا ہے۔ یہ ماڈل کم و بیش کسی فائیو سٹار ہوٹل جیسا ہوتا ہے۔ سوشل ازم بنیادی طور پر ایک نظریہ کا نام ہے جو احترام انسانیت، منصوبہ بندی اور ذمہ داری کے اوصاف کا حامل ہوتا ہے۔

سوشل ازم کے مذہبی و غیر مذہبی ناقد و مخالف کسی بھی ناکام تجربے کی مثال پیش کر کے اس عظیم نظریے پر نشانہ بازی شروع کر دیتے ہیں، یورپ میں موجود سماجی بہبود اور سوشل سیکورٹی کے ماخذ کی تلاش کی جائے تو یہاں بھی کارل مارکس جیسے درویش کا پیش کردہ نظریہ ہی خون آشام، حکومت، زمین دار اور ظالم سرمایہ دار سے مزدور کے بلکہ رعایا کے بنیادی حقوق کے حصول کی وجہ ضمانت کے طور پر دکھائی دیتا ہے۔

سوشل ازم انسانیت کے مستقبل کا نظام ہے جو ”کرۂ ارض بنی نوع انسان کے لیے“ کے نظریے کے تحت مذہب، رنگ و نسل، قومیت اور وطنیت کی زنجیریں توڑ کر دنیا کے وافر وسائل موجود علم و فنون کی مدد سے، برابر اور یکساں انسانی حیثیت رکھنے والے ہر انسان تک یکساں طور پر پہنچانے اور انسان کو صحیح معنوں میں شرف انسانیت سے ہم کنار کر دینے کا ذمہ دار قرار پائے گا۔

ہلاکت خیز اور تباہ کن اسلحہ جات کی تیاری پر اٹھنے والے وسائل اور علوم و فنون، نسل انسانی کے آرام و آسائش کی جانب موڑ دیے جائیں گے۔ اور یہی بنی نوع انسان کا تابناک مستقبل ہو گا۔ جس طرح اس وقت دنیا اقلیتی کثرت اور اکثریتی محرومی کے خون آشام اور استحصالی نظام، جس کی بنیاد جنگل کے قانون ”یعنی طاقت کی انسانیت پر برتری“ کی بنیاد پر چل رہا ہے، یہ نظام بڑھتے ہوئے انسانی شعور کے سامنے زیادہ عرصہ اپنا وجود برقرار نہ رکھ پائے گا، انسان کے شعور کا قدرتی ارتقاء، محروم انسانیت کو اپنے جائز حقوق کی پہچان کا شعور اور اس کے حصول کے بنیادی انسانی حق کے حصول کے لیے سوال اٹھانے کا حوصلہ ودیعت کر رہا ہے۔

اب وہ فیصلہ کن لمحہ قریب آتا جا رہا ہے کہ استحصالی اقلیتی قوتوں کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ محروم انسانیت کو یہ بنیادی انسانی حقوق احسن اور پرامن طریقے سے دے کر ایک مشترکہ خوش اور خوشحال انسانی برادری میں شامل ہو جاتے ہیں، یا دوسرا راستہ ”گلوٹین“ کا ہے، انتخاب کا حق لمحہ موجود تک دنیا کے وسائل اور دولت کے پچانوے فی صد کی حامل بورژوا اقلیت کے ہاتھ ہے۔

اس موقع پر انسانی مساوات کے دعوے دار مذاہب کے پیروکاروں سے بھی محروم انسانیت یہ تقاضا کرتی ہے کہ ”تاریخ میں پہلی بار“ وہ اقتدار اور سرماے کا کسی نہ کسی بہانے ساتھ نہیں دیں گے اور اپنے مذاہب کے آفاقی بنیادی پیغام، شرف انسانیت اور مساوات، کے زریں اصولوں کے تحت غاصب اور ظالم طاقتور اقلیت اور مقتدرہ کے مقابلے میں خدا کے محبوب غریب، محروم و مظلوم اکثریت کا ساتھ دے کر مستقبل کی تاریخ نسل انسانی میں اپنا انقلابی اور انسان دوست کردار سنہری الفاظ سے درج کروانے کا موقع حاصل کریں گے۔ اس طرح یہ بھی ثابت کریں گے کہ مذہب ایک متروک نظریہ اور استحصالی قوتوں کا ہتھیار یا آلۂ کار نہیں بلکہ انسانیت کی تقویت اور حفاظت کا باعث ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments