ایک نااہل عاشق کی دل سوز داستاں


یہ دنیا ایک عجیب و غریب جگہ ہے جہاں آئے دن ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ انسان کو سمجھ میں نہیں آتا کہ قہقہے لگائے یا اپنے بال نوچے۔

ایسے ہی واقعات کا ایک سلسلہ ایک نوجوان کے ساتھ پیش آیا جو کہ ایک سیدھا سادھا شریف النفس انسان تھا۔ بڑی تنگ دستی کے عالم میں اس نے ایم فل کی تعلیم مکمل کی تھی اور بڑی تگ و دو کے بعد بیچارہ اک سرکاری جامعہ میں لیکچرار بنا تھا۔ اپنے شعبے کے ذہین اساتذہ میں اس کا شمار ہونے لگا اور یہ دیکھ کر اسی جامعہ کے ایک پروفیسر کی بیٹی جو کہ پیشے سے ڈاکٹر تھی، اسے یہ نوجوان لیکچرار پسند آ گیا۔ ان دونوں کی ملاقات کیسے ہوئی ، اس کی تفصیل کسی اور نشست میں۔

بہرحال، پسندیدگی کی حد تک تو داستان محبت بالکل درست سمت میں تھی تاہم جب ذکر شادی کا آیا تو پروفیسر صاحب ایک دیوار بن کے بیچ میں آ گئے۔ آپ غالباً سوچ رہے ہوں گے کہ پروفیسر صاحب نے منع کر دیا ہو گا۔ نہیں ایسا نہیں ہوا، دراصل پروفیسر صاحب جامعہ کے معاملات سے اس حد تک وابستہ ہو چکے تھے کہ اب وہ رشتوں اور انتظامی معاملات میں فرق کرنے سے قاصر تھے اور اسی بیماری کے باعث انہوں نے اس نوجوان لیکچرار سے اپنی بیٹی کے رشتے کے لئے ایک عجیب و غریب شرط رکھ دی۔

شرط یہ تھی کہ تم پہلے پی ایچ ڈی کر لو تو پھر تمہیں اپنی بیٹی کا ہاتھ دوں گا البتہ تم ایک دو سال پہلے آ جاتے تو تمہاری ایم فل اور چار سال کا تجربہ تمہیں میری بیٹی کے اہل بنا دیتا۔ یہ شرط سن کر عشق کے مارے بیچارے لیکچرار کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ لیکن جیسے تیسے دن رات ایک کر کے اس نے ڈاکٹریٹ مکمل کر کہ سند پروفیسر صاحب کے آگے رکھی۔

پروفیسر صاحب نے پھر منع کر دیا۔ وجہ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ پروفیسر صاحب کو اب پی ایچ ڈی کے بعد کچھ برسوں کا تجربہ بھی درکار ہے۔ لیکچرار نے اب اپنا سر پکڑ لیا۔ پروفیسر صاحب نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ بیٹا دل چھوٹا مت کرو تم یہ سوچ کہ خوش ہو جاؤ کہ اگر تم یہی اہلیت چار پانچ سال پہلے لاتے تو آج تم نہ صرف شادی شدہ ہوتے بلکہ تمہارے ایک دو بچے بھی ہوتے اور ایک گھر کے سربراہ بھی ہوتے۔

مرتا کیا نہ کرتا، بیچارا لیکچرار اٹھ کے جانے لگا اور دروازے پر پہنچا تو پیچھے سے پروفیسر صاحب نے آواز لگائی کہ بیٹا اس بار تجربے کے ساتھ سات آٹھ ریسرچ پیپر بھی لانا۔ یہ سن کر لیکچرار نے ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے خود سے کہا کہ چلو یہ تو آسانی ہو گئی کیوں کہ میرے پہلے سے ہی دس پیپر چھپے ہوئے ہیں۔

زمانہ اپنی کروٹیں بدلتا رہا، لیکچرار اور پروفیسر کی بیٹی اپنی زندگی کی چار دہاہیاں گزار چکے تھے لیکن لیکچرار کا عشق جوں کا توں سلامت رہا۔ پانچ سال کے بعد بوڑھا ہوتا ہوا جسم اور وصال کی تمنائیں لے کر لیکچرار نے ویل چیئر پر بیٹھے ہوئے قریب المرگ پروفیسر کے آگے ڈاکٹریٹ کی سند، تجربے کا سرٹیفیکیٹ اور چھپے ہوئے پیپرز سے لدا ہوا ایک پلندا رکھتے ہوئے کہا کہ پروفیسر صاحب نکاح کے لئے مولوی لے آؤں؟

تو اس پر پروفیسر صاحب نے سر کو دائیں بائیں ہلاتے ہوئے کہا، نہیں۔ لیکچرار نے پوچھا اب کیا مسئلہ ہے؟

تو پروفیسر صاحب نے کہا کہ تمہاری سند اور تجربہ تو ٹھیک ہے لیکن تمہارے جو تحقیقی مقالے ہیں وہ ناکافی ہیں۔ اب کی بار لیکچرار نے چیختے ہوئے کہا کہ پروفیسر صاحب آپ نے آٹھ مانگے تھے ، میں نے آپ کو دس پیپر دیے ہیں۔ یہ کیسے ناکافی ہو گئے؟ تو اس پر پروفیسر صاحب نے بڑے اطمینان سے کہا کہ بیٹا زمانہ بدل گیا ہے۔ تمہارے سارے پیپر زیڈ اور وائی کیٹگری میں چھپے ہوئے تھے جب کہ میری بیٹی کے ہاتھ کے لئے تمہیں آٹھ پیپر کم از کم ایکس اور ڈبلیو کیٹگری میں چھاپنے ہوں گے۔ یہ سن کر بیمار عشق لیکچرار نے اپنے دیرینہ عشق کو الوداع کہہ کر نوکری سے استعفیٰ دے دیا۔ نوکری سے وابستگی اسے اپنے عشق کی یاد دلاتی تھی۔ اس نے نوکری اور لڑکی دونوں سے علیحدگی میں اپنی عافیت سمجھی۔

اب وہ ایک برگر کی دکان چلا رہا ہے۔ اور پروفیسر کی بیٹی؟ ہاں پروفیسر نے اپنی بیٹی ایک بوڑھے رنڈوے پروفیسر سے بیاہ دی۔ اس رنڈوے پروفیسر کے پاس موجودہ پالیسیوں کے مطابق پوری اہلیت ہے۔ اب خدارا مجھ سے یہ مت پوچھیے گا کہ اس بیچاری پروفیسر کی بیٹی کے کیا حالات ہیں۔ آپ کی تسلی کے لئے بس اتنا کہوں گا کہ اس کے بھی وہی حالات ہیں جو آج کل پاکستان کے سیاسی حالات ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments