گوادر شہر اور مضافات کے درمیان باڑ لگانے کا کام معطل، کھمبے اکھاڑے جا رہے ہیں


گوادر کی باڑ

باڑ کے لیے نصب کیے جانے والے کھمبے

گوادر شہر اور اس کے مضافات کے درمیان باڑ لگانے کے لیے نصب کیے جانے والے کھمبوں کو اکھاڑا جا رہا ہے اور حکام کا کہنا ہے کہ وہاں باڑ لگانے کے عمل کو معطل کر دیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شہر گوادر کی سکیورٹی کے لیے فوج نے باڑ لگانے کے منصوبے پر گزشتہ برس کام شروع کیا تھا۔ اس باڑ کو 25 کلومیٹر کے علاقے میں لگایا جانا تھا تاہم عوامی احتجاج کے بعد حکام کو دسمبر میں مجبوراً اس منصوبے کو روکنا پڑا تھا جسے اب معطل کر دیا گیا ہے اور کھمبے بھی اکھاڑے جا رہے ہیں۔

بی بی سی سے گفتگو میں گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل شاہ زیب کاکڑ نے بتایا کہ ’باڑ لگانے کا عمل فی الحال معطل کر دیا گیا ہے اور امکان یہی ہے کہ یہ معطل رہے گا۔’

اس سوال پر کہ کیا باڑ کا منصوبہ معطل کرنے کے تحریری احکامات جاری ہوئے ہیں، حکام کا کہنا تھا کہ تحریری بیان تو جاری نہیں ہوا لیکن اب اس مقام پر باڑ نہیں لگائی جا رہی۔

ضلعی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ دسمبر میں جب باڑ لگانے کا کام صوبائی حکمنامے پر روکا گیا تھا تو اس کے بعد سے اب تک تین ماہ کے عرصے میں باڑ کی معاملے پر انتظامیہ اور متعلقہ اداروں سے پوچھ گچھ ہوتی رہی اور اب کھمبے اکھاڑنے کا کام جاری ہے۔

واضح رہے کہ دسمبر میں عوامی احتجاج اور عدالت میں درخواست دیے جانے کے بعد گوادر میں باڑ لگانے کا کام روکا گیا تھا۔ اس وقت معاملہ بلوچستان اسمبلی تک پہنچا تھا جس کے بعد ایک کمیٹی بھی بنائی گئی تھی جس نے علاقے میں جا کر عوام کی رائے لینی تھی۔

گذشتہ ماہ ڈپٹی کمشنر گوادر کبیر زرکون نے بی بی سی کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’باڑ تو ماسٹر پلان کا حصہ ہے جس پر عمل ہو گا اور ایک صوبائی سٹینڈنگ کمیٹی بنی ہے، وہ یہاں آئیں گے لوگوں سے ملیں گے، جو تجاویز دیں گے اس کے بعد ہی فیصلہ ہوگا۔ جب تک لوگوں کے تحفظات ختم نہیں ہوتے ہم اس کو آگے نہیں بڑھائیں گے۔‘

یہ بھی پڑھیے

گوادر: وہ باڑ جو شہر کو شہریوں سے جدا کر دے گی

’اب پیشِ خدمت ہے گوادر کی باڑ‘

گوادر کی تاریخ پر ایک نظر

گوادر کرکٹ سٹیڈیم: جس کی تیاری کے لیے گوجرانوالا کی 90 ٹن مٹی منگوائی گئی

سی پیک: گیم چینجر یا ہوائی قلعہ؟

باڑ کے لیے لگے کھمبوں کو ہٹائے جانے کے اقدام پر مقامی افراد خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔ بی بی سی سے گفتگو میں مقامی صحافیوں نے بتایا کہ عوام میں اس بات پر غصہ اور ناراضگی کا اظہار کیا گیا تھا اور اب وہ اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں۔

گوادر شہر کی ترقی کی لیے قائم ادارے جی ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل شاہ زیب کاکڑ کہتے ہیں کہ فیصلہ تو دسمبر میں اسی روز ہو گیا تھا جب صوبائی حکومت کی جانب سے کمیٹی گوادر میں آئی تھی۔

https://www.youtube.com/watch?v=q4t2yA2Dwb0&feature=youtu.be

ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے واضح طور پر یہ احکامات جاری کیے تھے کہ یہاں جو بھی کام ہو گا اس میں مقامی افراد کو شامل کیا جائے گا اور پھر اسمبلی سے توثیق کروائی جائے گی۔ کمیٹی بنے گی جس میں مقامی نمائندے اور دیگر سٹیک ہولڈر اس پر متفق ہوں گے تو ہی شہر کے اندر فینسنگ ہوگی اور وہ لیزر فینسنگ ہی ہوگی۔

انھوں نے بتایا تھا کہ یہ سیف سٹی کا پراجیکٹ ہے جس میں زیادہ تر علاقے کو لیزر فینسنگ اور کم کو فیزیکل فینسنگ میں رکھنے کو کہا گیا تھا تاہم بجلی کا مسئلہ ہونے کی وجہ سے ابتدائی طور پر فیزیکل فینسنگ زیادہ علاقے میں کی جا رہی تھی جسے روکا گیا ہے۔

اب جب فینسنگ نہیں کی جا رہی تو علاقے میں سکیورٹی کے لیے چیک پوسٹوں کے علاوہ کیا انتظامات کیے جائیں گے۔

شاہ زیب کاکڑ نے اس کے جواب میں بتایا کہ شہر کے دو داخلی مقامات ہیں جہاں سکینر نصب ہوں گے اور مختلف مقامات پر سکیورٹی کیمرے نصب ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ مزید 2000 پولیس اہلکار تعینات کیے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’شہر کے شمال میں پہاڑ ہیں، وہاں جہاں کوسٹل ہائی وے ہے، سے لے کر زیرو پوائنٹ تک ایکپریس وے بنے گا تو وہ بھی باڑ میں ہوگا۔ اس سے پورا شہر ویسے ہی باڑ میں آ جائے گا اس کی تجویز جی ڈی اے نے دی ہے لیکن وہ بہت خرچ طلب ہے، دیکھیے یہ منظور ہوتا ہے یا نہیں۔‘

ان کا کہنا ہے ’دیر ہونا ایک الگ فیکٹر ہے لیکن یہ نہیں کہ کوئی منصوبہ نہیں۔ پولیس میں 2000 اہلکار مزید بھرتی ہوں گے۔ سرمایہ لگانے والوں اور لوگوں کو نہ لگے کہ وہ ایک سکیورٹی گیریزن میں پھر رہے ہیں۔‘

گوادر کی باڑ

باڑ کہاں اور کیوں لگائی جا رہی تھی

باڑ لگانے کا معاملہ دسمبر میں منظر عام پر آیا جب نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر میر کبیر احمد محمد شہی نے گوادر سیف سٹی کے منصوبے میں اس اقدام کی پر زور مخالفت کی۔

بلوچستان ہائی کورٹ میں درخواست میں کہا گیا کہ گوادر میں باڑ لگانے کا فیصلہ مکینوں کے بنیادی انسانی حقوق جو آرٹیکل 15 میں واضح ہیں کی خلاف ورزی ہے۔

یہ 25 کلو میٹر کے علاقے میں لگائی جا رہی تھی جو زیرو پوائنٹ سے کہان روڈ تک کا علاقہ ہے۔

شہر اور اس کے مضافات میں آپ کو لاتعداد چیک پوسٹس دکھائی دیتی ہیں۔

ڈی سی گوادر کے مطابق ‘جب یہاں پر لوگوں کی آمدورفت ہوتی ہے تو انھیں بہت زیادہ دشواریاں ہوتی ہیں کیونکہ انھیں چیک کیا جاتا ہے۔ اس کا حل ہم نے یہ نکالا کہ باڑ کا پہلے ہی ماسٹر پلان میں ذکر ہے اور اس کی منظوری بھی ہے اس پر عمل کریں تاکہ اس علاقے میں ہم باڑ لگائیں اور اندر سے تمام سکیورٹی چیک پوسٹوں کو ختم کر دیا جائے۔’

ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ ’ابتدائی طور پر تو ہم صرف شہر یا اس کے کچھ مضافاتی علاقے میں، جو 20 سے 25 کلومیٹر کا علاقہ بنتا تھا، باڑ لگا رہے ہیں اور مستقبل کے پلان میں پوری تحصیل گوادر کو باڑ کے اندر ہونا چاہیے۔‘

خیال رہے کہ چین کی معاونت سے بننے والے ماسٹر پلان کے مطابق شہر کو تین تہوں میں باڑ لگائی جانی تھی۔

پہلا مرحلہ تو اہم مقامات اور اداروں کی سکیورٹی اور فینسنگ کا ہے جو ہر جگہ عمومی طور پر ہوتی ہے۔

دوسرا مرحلہ جو ابھی روکا گیا اسے 2023 تک مکمل کیا جانا تھا جبکہ تیسرے اور آخری مرحلے میں پورے گوادر کے گرد باڑ لگنی تھی۔ دوسرے مرحلے کی باڑ کا جائزہ سنہ 2035 میں لیا جانا تھا۔

حکومتی ذرائع کہتے ہیں کہ طے شدہ پلان کے مطابق لگاتے تو زیادہ بڑا علاقہ باڑ میں آتا چونکہ یہاں ترقی اور ڈویلپمنٹ کا عمل سست رہا ہے اور اتنی آبادی نہیں ہو سکی جس کی ابتدا میں توقع کی گئی تھی اس لیے باڑ لگاتے ہوئے ماسٹر پلان کو مکمل طور پر عمل نہیں کیا گیا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس سے زیادہ لاگت آتی یعنی زیادہ کھمبے لگتے، زیادہ کیمرے اور ٹیکنالوجی لگانی پڑتی۔

باڑ سے ہٹ کر دیکھا جائے تو شہر میں سکیورٹی چیک پوسٹوں کے باوجود جدید سکیورٹی نظام ناپید ہے۔

جنوری سنہ 2016 میں کوئٹہ اور گوادر کے لیے سیف سٹی پلان کی مد میں 10 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ تب کہا گیا تھا کہ 465 کیمرے شہر کے 136 مقامات پر لگائے جائیں گے، وائرلیس ٹاور لگیں گے، یہ کیمرے لیزر کیمرے ہوں گے، آٹو میٹک نمبر پلیٹ ریڈرز اور ریڈیو فریکوینسی آئیڈینٹیفکیشن سسٹم آر ایف آئی ڈی لگایا جائے گا۔

تحصیل گوادر کی کل آبادی ایک لاکھ 38 ہزار سے زیادہ ہے۔ یہاں فی مربع کلومیٹر 115 افراد بستے ہیں۔

گ

کل تک جس شہر کو پاکستان میں بھی بہت کم لوگ جانتے آج پوری بین الاقوامی اہمیت اختیار کر گیا ہے

مقامی افراد باڑ پر ناخوش کیوں تھے

ایک مقامی رہائشی نے جس کا گھر باڑ کے سامنے تھا، بی بی سی سے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے گھر کے سامنے باڑ لگے۔

انھوں نے بتایا کہ ’چار پانچ مہینے پہلے فوجی آئے تھے اور انھوں نے ہمیں بتایا تھا کہ یہاں باڑ لگے گی‘۔

وہ کہنے لگے کہ ‘مشکل ہو گی بہت تنگی آ جائے گی، بکری چرانا مشکل ہو جائے گا۔ لوگ بول رہے تھے ایک گیٹ پشوکان پر لگے گا دوسرا زیرو پوائنٹ پر۔ ایک جانب سات کلومیٹر دور ہے دوسرا دس کلو میٹر۔۔۔میں نے بھی احتجاج کیا تھا۔ میں چاہتا ہوں پیچھے پہاڑوں کی طرف باڑ لگائیں۔۔۔ جیونی، پِشوکان پلیری، نگور دشت، سر بندن سب اس کے اندر آ جائیں۔۔۔ باڑ کے اندر خالی گوادر چھوٹا شہر ہے۔ میرے بھائی بہن سب باڑ کے اندر کے علاقے میں ہیں، باڑ لگ گئی تو مشکل ہو جائے گی۔’

شہر کے اندر رہنے والے چند افراد کا بھی کہنا تھا کہ باڑ سے اندر صرف مقامی لوگ رہ جائیں گے، دیہات کٹیں گے تو وہ غریب لوگ کیسے کمائیں گے۔

‘وہاں ہمارے بھائی رہتے ہیں، بہن رہتی ہے، صرف میں یہاں رہتا ہوں، باقی سب لوگ باہر ہیں، آنے جانے میں بہت دشواری ہوتی ہے۔ لائنوں میں کھڑا ہونا پڑتا ہے، ایک گھنٹہ دو دو گھنٹے۔۔۔ پھر سکیورٹی چیک کرتے ہیں اور پھر آپ کو جانے دیتے ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp