بیکا معاہدہ: پاکستان اور چین کے لیے حقیقی خطرہ۔


یہ حقیقت اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ امریکہ اور ہندوستان، پاکستان اور چین کو کو کمزور اور اس کا گھیراؤ کرنے کے لیے ایڑھی چوڑی کا زور لگا رہے ہیں۔ موجودہ علاقای اور خلائی معاہدے ( بیکا) سے یہ حقیقت مزید تقویت پکڑتی ہے کہ ایشیاء اور بحرہ عرب پر حکمرانی کے لیے بھارت اور امریکہ اب کھل کے چین اور پاکستان کے سامنے اگئے ہیں۔ اس معاہدے سے پہلے بھی اسی طرز کے تین اور معاہدے جیسے جنرل سیکیورٹی اف ملٹری انفارمیشن معاہد ہ ( 2002 ) ، لاجسٹک ایکسچینج میمورنڈم معاہدہ ( 2016 ) اور کمیونیکیشن سیکیورٹی معاہدہ ( 2018 ) شامل ہے ہو چکے ہیں۔

اس معاہدے کی رو سے اب امریکہ اور بھارت سٹیلائٹ معلومات کا تبادلہ کرنے کے ساتھ ساتھ، نقشوں کی فراہمی، انڈیا کو خودکار ہتھیاروں کی فراہمی، بحری اور بری سمت شناسی کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان فوجی اور دفاعی معلومات کا تبادلہ کیا جا سکے گا۔ اس معاہدے کی مدد سے بھارت اور امریکہ کو بحرہ ہند، خلیج بنگال، ابناے ملا

کا اور بحرہ عرب کی حدود میں موجود بحری اور ہوائی جھازوں کی حرکت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ ہو سکے گا۔ اس کے علاوہ چین اور پاکستان کے جھازوں، میزائل سسٹم اور جوہری اثاثوں کی جاسوسی بھی ہو سکے گی۔ اس معاہدے کی شق کے مطابق، امریکہ، بھارت کو جدید ڈرون اور میزائل ٹیکنالوجی فراہم کرے گا۔

یہ معاہدہ اس وقت سامنے آیا ہے جب بھارت اور چین کے ساتھ لداخ میں جھڑپیں عروج پر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان اور بھارت کے بارڈر حالات بھی پرامن نہیں۔ مزید براں انڈیا کو خودکار ہھتیاروں کی وجہ سے نہ صرف علاقائی سالمیت خطرے میں پڑ جائے گی بلکہ پاکستان اور چین کے دفاعی اثاثے غیر محفوظ ہو جاینگے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ چین دفاعی اور معاشی لحاظ سے بڑی تیزی سے ترقی کرہاً ہے۔ اوبور (OBOR) کی بدولت اب چین نہ صرف ایشیا بلکہ دنیا کی منڈیوں کو اپنے کنٹرول میں لے رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق 2030 میں چینی معیشت امریکہ کی معیشت کو پیچھے چھوڑ دیگی۔ یہ ترقی امریکہ اور بھارت کو ہضم نہیں ہو رہی اسی لیے وہ چین کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکا رہی ہے۔ اس مقصد کے کے امریکہ انڈو۔ پیسیفک کے علاقے میں اپنی نیوی کے 60 فیصد کو یہاں لگانے کا ارادہ رکھتا ہے جس کے لے بھارت ایک اہم راستہ اور مدد مہیا کر سکتا ہے۔

موجودہ معاہدہ اسی کا تسلسل ہے۔ جس کی رو سے چین کے دفاعی اثاثوں کی معلومات، نقشوں کی فراہمی، انٹیلی جنس ڈیٹا کی فراھی، اور سمندری حدود میں چینی جھازوں کے بارے میں امریکہ کو معلومات انڈیا کے توسط سے حاصل ہو سکے گی۔ مزید براں بحرالکاہل کو چینی تسلط سے محفوظ کرنے کے لے امریکہ اور بھارت نے جاپان اور آسٹریلیا کی مدد سے پہلے ہی QUAD کا محاذ بنا رکھا ہے۔

جھاں تک پاکستان کا تعلق ہے۔ اس معاہدے کے پاکستان پر بیش بھا اثرات ہونگے۔ امریکہ کی طرف سے پاکستان کی جاسوسی، بھارت کو ڈرون اور میزائل ٹیکنالوجی کی فراہمی سے پاکستان کی سلامتی کو مزید خطرات لاحق ہونگے۔ اور انڈیا کے مکروہ عزائم، جیسے سرجیکل سٹرائیک کی ڈھونگ کو مزید تقویت مل سکتی ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے دفاعی اثاثوں کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ مذکورہ معاہدہ یہ ظاھر کرتا ہے کہ امریکہ کی پاکستان کے حوالے سے پالیسی ہمیشہ ذاتی مفادات کے گرد گھومتی رہی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے اتحادی ہونے، اربوں روپے معاشی نقصان، ہزاروں فوجیوں اور عام افراد کی شہادتوں اور قربانیوں کے باوجود بھارت کو جدید ملٹری امداد اور خلائی امداد کی فراہمی امریکہ کی منافقانہ اور معاندانہ پالیسی کو ظاھر کرتا ہے

وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان اور چین اس شیطانی منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے مل کر کام کرے۔ دونوں ممالک کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں مل کر اس معاہدے کے خلاف اپنی دفاعی اور جوہری نظام کو مضبوط بناے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ روس اور ایران کے ساتھ مل کر مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دے کیونکہ اس معاہدے سے روس اور ایران دونوں کو بھی سنگین خطرات لاحق ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments