آئیے اللہ کے دروازے پر دستک دیں


اگرچہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے اور اسے دنیاوی معاملات میں خودمختار بنا دیا ہے کہ وہ اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق اپنے معاملات چلائے تاہم اللہ تعالیٰ نے معاملات چلانے کے لئے راہ عمل بھی دکھادی اور ان حدودوقیود کا بھی تعین فرمادیا جن سے تجاوز کو نافرمانی قرار دیا اور سزا کی نوید بھی سنادی چنانچہ مشاہدہ یہ ہے کہ بداعمالی کے مظاہروں پر پہلے دست قدرت اصلاح کے لئے حرکت میں آتا ہے لیکن جب حضرت انسان باز نہیں آتا تو پھر سزا کا ایک نظام بھی ہے سزا انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی۔

کسی بھی قوم کی قیادت اس کے نیک اعمال کا انعام اور بداعمال کی سزا ہو سکتی ہے دست قدرت وقت اور ضرورت کا بھی خیال کرتا ہے اگر ایک قوم غلامی کی زنجیروں میں جکڑی لیکن آزادی کی تڑپ رکھتی ہے تو اس میں اعلیٰ کردار اور خصوصیات کی حامل قدآور شخصیات جنم لیتی ہیں جو اپنے اپنے شعبوں میں اپنی قوم کی رہنمائی کرتی، نشان منزل کی نشاندہی کرتی اور منزل مقصود تک رہنمائی کرتی ہیں اسی نظام کے تحت ماضی میں مختلف قوموں میں اس وقت کی ضرورت کے مطابق فاتح، مصلح، مبلغ، عالم، سائنسدان اور لیڈر پیدا ہوئے اور قوموں کو اپنی اجتماعی غلطیوں کی سزا بری قیادت کی صورت میں بھی بھگتنا پڑی۔

برصغیر پاک وہند میں دیکھ لیں۔ اس مسجد میں پہلی اذان محمد بن قاسم نے دی تو مختلف ادوار میں کتنے ہی فاتحین نے اس سرزمین کو روندا، پھر اسی سرزمین میں اپنے اپنے دور میں احمد شاہ ابدالی، سلطان محمود غزنوی، شاہان مغلیہ نے اپنے اپنے جوہر دکھائے جب بداعمالیاں حد سے بڑھنے لگیں تو انگریزوں کی شکل میں بیرونی آقا مسلط کردیے۔ اس دوران سراج الدولہ، رانی جھانسی اور ٹیپوسلطان جیسے شعلے بھی بھڑکتے رہے۔ سید اسماعیل شہید اور سید احمد شہید بریلوی جیسے نابغۂ روزگار لوگ بھی منصۂ شہود پر ابھرے۔

جب قدرت نے محسوس کیا کہ اب کچھ جھٹکوں کے بعد اصلاح کا ایک موقع برصغیر کے لوگوں کو ملنا چاہیے تو برصغیر کی دونوں بڑی قوموں میں بڑے لیڈر پیدا ہوئے۔ تعلیم کا بیڑا سرسید احمد خان نے اٹھایا تو سیاسی قیادت کے لئے حضرت قائداعظم محمد علی جناح، حضرت علامہ اقبال، مولانا محمد علی جوہر، نواب وقار الملک، مولانا حسرت موہانی رحم اللہ علیہم اور عوام الناس کی دینی رہبری کے لئے حضرت شاہ ولی ا اللہ، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، حاجی شریعت ا اللہ، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا قاسم نانوتوی، مولانا جعفر تھانیسری اور مولانا اشرف علی تھانوی رحمہم ا اللھعلیہم اور کتنے ہی دوسرے عالی مرتبت علمائے کرام پیدا ہوئے۔

ان عظیم شخصیات کا جنم لینا مسلمانوں کے لئے انعام عظیم سے کم نہ تھا قیام پاکستان کے بعد بھی جزا اور سزا کے اسی نظام کے تحت پاکستان کو لیڈر نصیب ہوئے۔ ملک کے قیام کے فوری بعد قومی خدمت کے جذبہ سے سرشار قیادت نے مقدور بھر قوم کی خدمت کی لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر، خواجہ ناظم الدین، چودھری محمد علی جیسے مخلص لوگ کسی بھی قوم کے لئے سرمایہ افتخار ہیں۔ پھر جب سیاستدانوں نے پرپرزے نکالے اور دھماچوکڑی مچائی تو ان کا دماغ درست کرنے کے لئے ایوب خان آ گیا۔

لیکن شاید ہم بہت گناہگار تھے اور ایوب خان کی شکل میں کفارہ ادا نہ ہوسکا تو یحییٰ خان آ گیا جس کا دور اہل پاکستان کے لئے بدترین تازیانہ ثابت ہوا۔ بھٹو کا دور جزا اور سزا کا امتزاج تھا۔ اس دور میں بھی بڑے سبق تھے۔ ضیاء الحق کے گیارہ سال کا ضیاع اگرچہ عظیم قومی نقصان تھا لیکن آئندہ کے لئے دو سبق ایسے ملے ہیں کہ جن پر ہم اپنی مستقبل کی پالیسیوں کو استوار کر سکتے ہیں ایک یہ کہ پاکستانی قوم تمام تر بداعمالیوں کے باوجود اجتماعی اسلامی مزاج رکھتی ہے اور اسلام کے نام پر ہر قربانی دینے کا جذبہ اس میں بدرجہ اتم موجود ہے اور دوسرا یہ کہ اس میں ہر شعبے میں بے پناہ صلاحیتوں کے حامل لوگ موجود ہیں اور یہ بحرانوں اور دباؤ کو برداشت کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہیں۔

تحریک نظام مصطفی میں قوم کے جوش و جذبے، جہاد افغانستان اور کشمیر میں تن من دھن کی قربانیوں اور اس دوران سپرپاور روس کے بے پناہ دباؤ کا مقابلہ اور لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی، ایٹم بم، میزائل اور دوسرے جدید ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کرنا ایسی خصوصیات ہیں۔ جو مندرجہ بالا دونوں دعوؤں کا ثبوت ہیں۔ اس کے بعد بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے ادوار کو بخوبی قدرت کے ”سٹک اینڈ کیرٹ“ نظام کا آئینہ دار قرار دیا جاسکتا ہے جب قوم نے اپنا قبلہ درست نہیں کیا اور سیاسی لیڈر جوتوں میں دال بانٹنے میں مشغول رہے تو دست قدرت نے پھر ”سٹک“ بھیج دی۔

کسی بھی قوم کے لئے اس سے بڑی سزا کوئی اور نہیں ہو سکتی کہ اس کے معاملات اس کی اجتماعی امنگوں اور مزاج کے خلاف چلائے جا رہے ہوں اور اس کے وسائل اور صلاحیتیں چھپے ہوئے اور ظاہری دشمنوں کے مفاد کے لئے استعمال ہو رہے ہوں اور وہ بے بسی سے سب کچھ دیکھنے کے سوا کچھ بھی نہ کرسکے۔ لیکن انسان کتنا خوش نصیب ہے کہ نظام قدرت میں ہر مشکل کا حل موجود ہے انتہائی بے بسی کے عالم میں جب تمام دنیاوی سہارے ختم ہوجائیں ہر طرف گھٹا ٹوپ اندھیرے ہوں۔

آندھیاں ہوں، طوفان ہوں تو بھی ہمارے لئے ایک دروازہ موجود ہے جس پر دستک کا جواب ضرور ملتا ہے۔ یہ رب کائنات کے عفوودرگزر کا دروازہ ہے۔ اگر ہم اجتماعی طور پر اس دروازے کی چوکھٹ پکڑ کر روئیں، گڑگڑائیں اور اپنے اجتماعی اور انفرادی گناہوں پر اظہار ندامت کر کے رب الرحیم سے عفوودرگزر کی درخواست کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ رحمت خداوندی جوش میں نہ آئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے بہت پیارے ہیں اور وہ اس انتظار میں رہتا ہے کہ اس کے بندے کبھی عرق انفعال میں شرابور ہو کر اس کے پاس آئیں تو سہی۔

پاکستان گوناگوں وسائل سے مالامال ملک ہے یہاں اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب نبیۖ سے محبت کرنے والے کروڑوں لوگ رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کبھی بھی پاکستان کو اتنا کمزور اتنا رسوا نہیں کرے گا کہ یہ مسلمانوں کے لئے باعث ننگ ہو جائے۔ یقیناً ایسے لوگ اٹھیں گے جو اس ملک کو زیادہ بہتر طریقہ سے چلا سکیں گے اور جو اس ملک کے مفادات کا بہتر تحفظ کرسکیں گے کہ ایسا ہونا ضرورت بھی ہے اور نظام قدرت کا اگلا قدم بھی۔

٭۔ ٭۔ ٭


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments