کیا عورت واقعی آدھی ہے؟


جب کسی معاشرے میں افراد کے لیے ذمہ داریوں کی تکمیل اذیت بن جائے، جب عدالتیں انصاف کی فراہمی میں تاخیر کرنے لگیں، جب حفاظتی ادارے مجرموں تک رسائی میں کوتاہی کا شکار ہوں اور جب حکمران معاشرے کو درپیش مسائل حل کرنے اور عدل قائم کرنے میں دلچسپی کا مظاہرہ نا کریں، تو پھر معاشرہ جہالت کے ہاتھوں بری طرح تباہی کا شکار ہو جاتا ہے۔

یہی حال قبل از اسلام عرب معاشرے کا بھی تھا کہ جہاں افراد خواہشات کے غلام تھے، کمزور طبقات کئی طرح کی پریشانیوں سے دوچار تھے اور جس معاشرے کو حلم، بردباری یا دیگر اخلاقی قدروں سے بے راہروی کے باعث جہالت کا بھی مصداق بارہا ٹھہرایا گیا۔ خاص طور پر اس عرب معاشرے میں عورت کئی مشکلات سے دوچار تھی۔ عائلی یا سماجی معاملات میں عورت کی رائے بہت کم اہمیت کی حامل تھی اور کہیں تو لڑکی کا جنم ہی اس کی موت کا سبب تھا۔

اسلام نے جہاں آتے ہی اس دور کی کئی برائیوں کا سد باب کیا، وہیں معاشرے کے کمزور طبقات کی دادرسی بھی شروع کی۔ غلاموں، یتیموں، غرباء، مساکین عورتوں اور دیگر طبقات کے حقوق وضع کیے اور ہر طبقے کو دوسرے طبقات کے ساتھ حسن سلوک برتنے کی بھی تلقین کی۔

اسلام کی نظر میں عورت کی اہمیت ان تعلیمات اور احکامات سے بخوبی سمجھی جا سکتی ہے جو عورتوں کے حقوق یا فرائض سے متعلق ہیں، یا پھر جن احکامات میں عورتوں کو بہتر زندگی گزارنے کے لیے تعلیمات کے ایک انمول اثاثے کا امین ٹھہرایا گیا ہے۔

اسلام کی نظر میں مرد و عورت دونوں کا وجود اور دونوں کا آپس میں تعلق، کسی بھی معاشرے کی ترقی یا تنزلی پہ براہ راست اثر انداز ہوتا ہے اور کسی طور عورت کو مردوں کی بنسبت کمتر تصور کیا جانے کی نفی کی جاتی رہی۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب اسلام عرب سے باہر دور دراز علاقوں تک پہنچا تو وہاں کی کئی رسم و روایات کچھ اس درجے مسلمانوں کا معمول بنے کہ اولا انھیں اسلام سمجھا جانے لگا اور دوئم، کئی طبقات جو اسلام کے احکامات یا احکامات کے پس پردہ حکمت سے نابلد تھے، نے انھیں اسلام کا ایک منفی پہلو گردانا شروع کر دیا۔

اسلام سے متعلق ایسی غلط فہمیوں سے کئی اذہان یہ سوچنے لگے کہ شاید اسلام کی نظر میں عورت کا مقام مرد کے مقابلے کم ہے اور کئی احکامات ایسے تھے، جن کی نافہمی اس سوچ کا بنیادی سبب تھی۔ اس کالم میں ہم چند ایسے ہی اعتراضات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

یہ تاثر بہت عام ہے کہ اسلام ایک عورت کو اس کے والد کے انتقال کے بعد جائیداد میں بھائی کی نسبت آدھا حصہ دیتا ہے۔ لہذا اسلام کی نظر میں عورت کمتر ہے۔ جبکہ اسلام کے اس حکم کہ والد کے انتقال کے بعد بھائی کو جائیداد میں سے بہن کی نسبت دوگنا ملے گا کی حکمت یہ ہے کہ بھائی کو ملنے والے دو حصوں کی وجہ سے اسے زیادہ ذمہ داریوں کو بھی پورا کرنا ہے۔ مثال کے طور پر والد کی عدم موجودگی میں جہاں بیٹا اپنی دیکھ بھال کا ذمہ دار ہے، وہیں ماں اور بہن کی ضروریات بھی وہی پوری کرے گا جبکہ بہن کو ملنے والے ایک حصے کی صرف وہی مالکن ہے اور یہیں سے ”الرجال قوٰمون علی النساء“ والی آیت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ مرد کو عورتوں پر فضیلت اس کو سونپی گئی زیادہ ذمہ داریوں کی وجہ سے ہے نا کہ جسمانی طور پر یا دیگر معاملات میں مرد اپنے آپ کو عورت سے افضل گردانتا پھرے۔

دوسرا اعتراض عام طور احادیث مبارکہ میں عورتوں سے متعلق آنے والے الفاظ ”ناقصات عقل و دین“ کو بنیاد بنا کر کیا جاتا ہے کہ عورتیں ناقص العقل ہیں یا دین کی سمجھ میں ناقص ہیں۔ حالانکہ عربی زبان میں ان الفاظ سے مراد عورتوں کو سونپی گئی ذمہ داریوں میں کمی ہے، یعنی اسلام کئی مواقع پہ انھیں عبادت سے رخصت دیتا ہے کئی سماجی معاملات میں بھی عورتیں اس درجے جواب دہ نہیں جس درجے مرد ہیں۔ یہاں کچھ لوگ چند مخصوص ایام میں عورتوں کو عبادت سے رخصت دینے پر بھی سوال اٹھاتے ہیں اور اسے عورتوں کی کمتری گردانتے ہیں حالانکہ یہ اعتراض بے بنیاد ہے کیونکہ ہر مذہب پیروکاروں کو عبادات یا ذمہ داریوں کے سونپے میں آزاد ہے اور اگر کہیں مذہب کسی وجہ سے کسی کو عبادات سے رخصت دیتا ہے اور اس پر حساب سے بھی مستثنی قرار دیتا ہے تو اس عمل میں پیروکاروں کے لیے آسانی اور سہولت ہے ناکہ تحقیر یا ملامت ہے۔

ایک تیسرا اعتراض عورت کی گواہی کو دو مردوں کے برابر بھی ٹھہرا کر کیا جاتا ہے۔ جبکہ اس گواہی کا تعلق بھی ایسے حالات سے ہے کہ جہاں عورت کا جانا شاذ و نادر تھا لہذا یہ بھی عورت کی سہولت کے پیش نظر تھا کہ بجائے مردوں کے اجتماع میں ایک عورت کے اگر دو عورتیں جائیں گی تو زیادہ محفوظ بھی محسوس کریں گی اور معاملات کی کتابت بھی بہتر طریقے سے ہو پائے گی لیکن یہ حکم مطلق تھا اور صرف یہ معاملات کی کتابت سے متعلق تھا جبکہ اس سے ہٹ کر کئی معاملات ایسے ہیں جہاں ایک عورت ہی بطور گواہ کافی ہے۔

اب یہاں یہ بات بھی جان لینا ضروری ہے کہ عام طور پر ایسے اعتراضات ایسے معاشروں میں سامنے آئے جہاں کی روایات یا سماج عورتوں کے حقوق کے معاملے میں کوتاہی کا شکار تھے، جبکہ عرب معاشرے میں ایسی تعلیمات عورت کو معاشرے میں ایک معزز مقام دینے کا سبب تھیں۔ مزید برآں قرآن کریم میں سوری النساء یا اس کے علاوہ چند متفرق مقامات پر عورتوں کے حقوق پورے کرنے کی تعلیم اور نبی کریم ﷺ کا عمل بھی عرب معاشرے کے لیے فقید المثال تھا۔

لیکن اگر اب بھی یہی سوال باقی ہے کہ کیا عورت واقعی آدھی ہے؟ تو اس کا جواب ہاں ہے کہ ایسی عورت واقعی ہی آدھی ہے جو مرد سے بیزار ہے اور درحقیقت ایسا مرد بھی آدھا ہی ہے کیونکہ ایک اچھے معاشرے کی تکمیل ان دونوں کے مرہون منت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments