آدمی غنیمت ہے


اخبار وہ واحد ذریعہ تھا جس سے خبر ملتی تھی۔ ٹیلی ویژن پر خبر نامہ دیکھنے کے لیے رات نو بجے کا انتظار کیا جاتا تھا۔ ریڈیو پر بی بی سی کی سگنیچر ٹون گونجتی تو ہر کسی کو فوراً متوجہ کر لیتی تھی۔ اخبار سب سے موزوں اور اہم ذریعہ ابلاغ تھا۔

اخبار بھی ہر گھر میں کہاں آتا تھا۔ حمام، کریانے کی دکانیں، ٹاؤن کمیٹی کی لائبریری، ڈاکٹر فضل قادر کے کلینک، گل شیر، ساقے (اسحاق) اور بابا تقی کے ہوٹل اور چوہدری صدیق صاحب کی آڑھت کے ساتھ ساتھ مختلف گھروں اور دکانوں پر اخبار آتا تھا۔

میاں اکرم صاحب واحد نیوز ہاکر تھے۔ گزشتہ چالیس برسوں سے وہی واحد نیوز ہاکر ہیں۔ ان کی سائیکل کے سامنے لگی باسکٹ میں اخبار رکھے ہوتے تھے۔ ہفتے بعد ”اخبار جہاں“ بھی آتا تھا۔ یہ ”اخبار جہاں“ ہمارے گھر بھی آتا تھا اور تین عورتیں تین کہانیاں میرا پسندیدہ سلسلہ ہوتا تھا۔ ہماری باجی اس میگزین میں چھپے اداکاراؤں کے انٹرویو پڑھتی تھیں۔ بزم اطفال میں چھپی کہانیاں، آپ کا یہ ہفتہ کیسا گزرے گا، عالمی خبریں۔یہ ہر عمر کے لوگوں کے لئے ایک مکمل پیکج تھا۔

کئی دہائیوں بعد اخبار جہاں کے دفتر جانا ہوا تو ہماری خالد فرشوری صاحب سے ملاقات ہوئی۔ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور صلاحیتوں سے ہماری اخلاقی و علمی تربیت کی۔ ہمارے قصبے تک اخبار پہنچنے کا واحد ذریعہ ٹرین تھی۔ ٹرین کے انتظار میں میاں اکرم صاحب ریلوے اسٹیشن پر موجود ہوتے تھے۔ اگر اس ٹرین کا سٹاپ نہ ہو تو چلتی ٹرین سے وہ بنڈل اسٹیشن پر پھینک دیا جاتا تھا۔

یہ اخبار پھر مختلف گھروں اور دکانوں پر تقسیم کر دیا جاتا۔ پھول اور کلیاں، بچوں کا جنگ، پھول اور متعدد صفحات اور میگزین نے لکھنے کی تحریک پیدا کی۔ آج سے تیس سال قبل اعجاز احمد ضیاء، شعیب احمد ضیاء، غلام مصطفی احسن، ثوبیہ عندلیب بچوں کے اخبارات میں لکھتے تھے۔ تیس سال بعد آج اس قصبے سے کوئی بچہ بھی ان رسائل میں نہیں لکھتا۔ مجھے اردو کی لغات کبھی کسی نے تحفتاً دی اور نہ ہی خرید پایا۔

ساتویں کلاس میں کلاس میں تھرڈ آنے پر ایک جیبی اردو لغت میسر آئی۔ ماسٹر فیض صاحب ہمارے اردو کے استاد تھے۔ کمال کا ذوق اور ادبی رجحان تھا۔ میری یہ عادت ٹھہری کہ دو تین شعر گلابی رنگ کی رف کاپی میں لکھتا اور ان کے پاس چلا جاتا کہ سر ان کی تشریح سمجھا دیں۔ وہ بہت خوش ہوتے تھے۔ سمجھاتے اور کہتے کہ مزید شعر لکھ کر لانا۔ ساتویں کلاس میں ہی پڑھا۔

ہے مجھ کو تجھ سے تذکرہ غیر کا گلہ
ہر چند برسبیل شکایت ہی کیوں نہ ہو

ماسٹر فیض صاحب سے آخری بار ملاقات 1998 میں ہوئی۔ ان کی متعدد بار یاد آئی۔ ان کی مغفرت کے لئے دعا کرتا ہوں۔ بہت بڑے لوگ تھے۔ سادہ مگر وضع دار۔

بازار سے گھر آنے والے سودا سلف کے اخباری لفافوں کو کھولنا، پڑھنا ہمیشہ اچھا لگتا تھا۔ کوئی پرانا اخبار ہاتھ لگ جاتا تو سنبھال لینا کہ پڑھ کر ضائع کر دیں گے۔ اس وقت آن لائن اخبار تھے اور نہ نامہ نگاروں اور صحافیوں کی لائنیں۔ صحافت ایک صنعت نہیں خدمت تھی۔ اخبار کا ہر صفحہ اور سطر پڑھی جاتی تھی۔

قلمی دوستی کے سلسلے بھی کیا کمال تھے۔ واقعی قلمی دوستی کے ذریعے خطوط، تحائف اور احساس کا تبادلہ ہوتا تھا۔ سرگزشت، آداب عرض، سلام عرض، جواب عرض، جاسوسی ڈائجسٹ، سسپنس ڈائجسٹ، سب رنگ، دوشیزہ، شعاع، خواتین، کرن، آنچل، حجاب، نیا رخ اور متعدد دوسرے ڈائجسٹ نظر آتے تھے۔ محلے میں قائم لائبریریوں کا زمانہ تھا۔ کتب کرائے پر ملتی تھیں۔ حافظ آباد کالج جانا شروع کیا تو کالج لائبریری اور پھر کرائے کی کتابیں حاصل کرنا شروع کیں، ڈائجسٹ پڑھنے کا موقع ملا۔

آج احساس پنپتا ہے کہ علم کوئی بھی برا نہیں۔ سب کچھ آپ کی سوچ کے در وا کرتا ہے۔ نئی جہتیں سکھاتا ہے۔ زندگی کے رنگ دکھاتا ہے۔ بہت سے رویوں اور رجحانات کی طرف مائل کرتا ہے۔ نشاندہی، رہنمائی کرتا اور توجہ مبذول کراتا ہے۔ میرے بچپن کا علم بھی ایسا ہی تھا۔ اخبارات، ڈائجسٹ، ٹیلی ویژن اور بچوں کے رسائل پر محیط۔ اور ہاں وقت کی لوح پر لکھی تحریریں بہت کچھ سکھاتی ہیں۔

آج کے دور کو Knowledge Explosion کا دور کہا جاتا ہے۔ علم عام ہے۔ انگلی اور ہتھیلی پر رکھا ہے۔ ایک کلک آپ کو دنیا کے ہر علم تک رسائی دیتا ہے۔ آج موم بتی، لالٹین، دیے نہیں جلانے پڑتے۔ مٹی کا تیل لانے کے لئے لائنوں میں نہیں لگنا پڑتا۔ لالٹین کی چمنی نہیں صاف کرنی پڑتی۔ چمنی ٹوٹنے پر ڈانٹ نہیں پڑتی۔ لالٹین لٹکانے کے لئے دروازے کی چوکھٹ پر کیل نہیں گاڑنے پڑتے۔ دیے میں سرسوں یا مٹی کا تیل نہیں جلانا پڑتا۔

گیس سلنڈر پر مینٹل لگا کر اس کی روشنی میں شادیاں، مہندی، گھڑولی نہیں بھری جاتی ہیں۔ ریلوے اسٹیشن سے مہمان کو لانے کے لئے لالٹین تھام کر نہیں جانا پڑتا۔ آج بجلی کے قمقمے روشن ہیں۔ بجلی کے دیے اور چراغ جلتے ہیں۔ بچے ٹیبلٹ، فون یا لیپ ٹاپ پر کلاسز یا لیکچر پڑھتے ہیں۔ ٹیلی ویژن کے انٹینا کو گھمانا نہیں پڑتا۔ سگریٹ کی چاندی، سلور کی پنی (پٹی) کو تار پر نہیں رگڑا جاتا۔ وی سی آر اور کیسٹ کا ہیڈ صاف کرنے کے لیے نیا نوٹ نہیں ڈھونڈا جاتا۔

مونگ پھلی، تل والی ریوڑیاں کھاتے کھاتے رات گیارہ بجے لگنے والی اردو فیچر فلم کا انتظار نہیں کیا جاتا۔ آج سب کچھ ہماری دسترس میں ہے۔ آج بڑے گھر خالی مگر سکڑے ہوئے لگتے ہیں۔ پہلے چھوٹے گھر سمٹے اور سنورے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔ اس وقت گھروں کی چھتوں پر سونے کا رواج تھا۔ گرمیوں کی راتیں تاروں اور شہاب ثاقب کے نظاروں سے بھرپور ہوتی تھیں۔ آج ہمیں کمروں کی چھتوں پر ریفلیکٹر ستارے سجانے پڑتے ہیں۔ ماضی مشکل تھا مگر سہانا تھا۔

ہمارا حال آرام دہ مگر کٹھن اور پر پیچ ہے۔ گھمن گھیریوں اور بھنوروں کے درمیاں چلتے چلتے ہم اپنے مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ شاید ہم نے آرام طلبی کی خاطر اپنے وقت کو مشکل بنا لیا ہے۔ ہمارا مستقبل ترقی اور آسانی کے ساتھ ساتھ خاصا مشکل بھی ہے۔ اس مستقبل کو مشینیں کبھی آسان نہیں بنا سکتیں۔ صرف انسان بنا سکتے ہیں۔ کوشش کریں اپنی زندگی سے انسانوں کو مائنس نہ کریں۔ ہمارے نانا مرحوم کہتے تھے۔ ”بندہ ’بندے دا دارو اے یعنی انسان ہی انسان کے دکھ کا مداوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments