کورونا وائرس اور محب وطن پاکستانی


سال گزشتہ اپنے ساتھ بہت سے غیر یقینی واقعات لے کر آیا جن نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، خواہ وہ آسٹریلیا کی بش فائر ہو، یوکرین کا جیٹ لائن کریش ہو، انڈونیشیا کا تباہ کن سیلاب ہو، بھارت کے فرقہ وارانہ فسادات ہوں، یا پھر افریقہ کی ٹڈی بھیڑ ہو۔ ساری دنیا ہی اس کی زد میں آ گئی اور آخر میں سب سے بڑا جھٹکا جس نے پوری دنیا کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا وہ کورونا وائرس جیسی مہلک بیماری تھی، جس نے 210 ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

پاکستان جو پہلے سے ہی معاشرتی بیماریوں سے لڑ رہا ہے جیسے کہ سیاسی کشمکش، منڈیوں کا اتار چڑھاؤ، جنسی ہراسانی، انسانی حقوق کی پامالی وغیرہ ، اب پاکستان کی ان بہت سی جنگوں میں ایک نام اور شامل ہو گیا جو کہ ہے کورونا وائرس یعنی کورونا وائرس کے خلاف جنگ۔

کورونا وائرس کوئی پہلی عالمی وبا نہیں جس سے دنیا کا بڑا حصہ متاثر ہوا۔ اگر ہم عالمی وبائی امراض کی تاریخ میں جائیں تو مختلف ادوار میں مختلف ایسی بیماریاں سامنے آئیں جن میں سے چند ایک کولیرہ کی بیماری، مختلف اقسام کے فلو کی عالمی وبائیں، ایچ آئی وی/ ایڈز کا مرض، اور کورونا وائرس ہیں۔

ہر نسل یا معاشرہ اس زمانے کے انوکھے حالات کا سامنا کرتا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انسانی حالات کے بارے میں کسی کا کیا نظریہ ہے۔ اعتماد اور امید کو پیدا کرنا اور مایوسی کو ختم کرنا، معاشرتی تحریکوں کو فروغ دینا، زندگی کے بارے میں سوچنے کے نئے طریقے پیدا کرنا، جینے کے عمل کو قائم رکھنا اور ذاتی اور معاشی پریشانیوں کے جدید حل حاصل کرنا، یہ وہ امور ہیں جن کی جانب ہمیشہ توجہ دی جانی چاہیے۔

کورونا وبا کی اس تباہ کن صورتحال کے دوران ہم نے کچھ ضروری لیکن غیر متوقع پہلوؤں کا تجربہ بھی کیا ہے۔

حکومتیں اس وبا کو روکنے کے لئے اپنی ہر ممکن کوشش میں لگی ہوئی ہیں۔ ڈاکٹرز اور میڈکل سٹاف اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دوسری انسانی جانوں کو بچا رہے ہیں۔ اسی کوشش میں بہت سے پیرامیڈیکس ورکرز اور ڈاکٹرز اپنی جانوں کا نذرانہ بھی دے چکے ہیں۔

دنیا کے تقریباً ہر ملک نے اس مسئلے کا انتہائی سنجیدگی سے سامنا کیا  ہے، کہیں لاک ڈاؤن لگائے گئے تو کہیں ان لوگوں کو راشن کی فراہمی یقینی بنانے پر کام ہوا جو اپنی نوکریاں کھو چکے تھے اور اب کہیں میڈیکل سٹاف اور سہولیات میں توسیع کی جا رہی ہے۔

مختصر یہ کہ ہر کوئی مالی اور معاشی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ اس صورت حال میں بہت سے انسان دوست افراد پرجوش انداز میں سامنے آئے اور انہوں نے انسانیت دوستی کی نئی مثالیں قائم کیں۔

تقریباً ہر صاحب حیثیت نے اپنے گرد و نواح میں ضروریات زندگی کی فراہمی کو ان لوگوں کے لیے یقینی بنایا جو حقیقی معنوں میں مستحق تھے اور جن تک حکومت کی امداد ابھی تک نہیں پہنچ سکی تھی۔ فیس ماسک، ہینڈ سینی ٹائزرز، میڈیکل ہیلپ، بچوں کی فیس کے اخراجات اور راشن  کچھ ایسی اہم ضروریات تھیں جو کہ فی الحال ہر گھر کی ضرورت ہیں۔

بات صرف یہاں ختم نہیں ہوتی۔ ہمارے اساتذہ وہ سپاہی ہیں جن کو بچوں کے مستقبل کی فکر کھائے جا رہی تھی، سخت لاک ڈاؤن کے باوجود اپنے گھروں میں بیٹھ کر تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے کی کوشش کی اور گھر بیٹھے آن لائن کلاسز کا آغاز کیا کہ کسی طرح بچے اپنی تعلیم سے جڑے رہیں اور ان کی پڑھائی میں ہرج نہ آئے۔

میں ان سب اداروں کو اور ہر ایک شخص کو خراج تحسین پیش کرنا چاہوں گی جنہوں نے وبا کے دوران انسانیت کی نئی مثالیں قائم کی ہیں۔ اگر عوام نے حکومتی لاک ڈاؤن پر عمل درآمد کیا اور انسان دوستوں نے مل کر ان کاوشوں کو جاری رکھا تو وہ وقت دور نہیں کہ ہم سب مل کر اس مہلک بیماری کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments