بلنکن کا غنی کو خط، ‘پالیسی بدلیں ورنہ تنِ تنہا طالبان کے حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا’


امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے افغانستان کو خبردار کیا ہے کہ اگر صدر غنی نے افغان امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے نئی تجاویز پر غور نہ کیا تو اسے تنِ تنہا طالبان کے بڑے حملوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

امریکی وزیرِ خارجہ کی جانب سے افغان صدر کو لکھے گئے ایک خط میں کہا گیا ہے کہ امریکہ یکم مئی کو افغانستان سے تمام افواج کے انخلا پر غور کر رہا ہے جب کہ دیگر آپشنز بھی زیرِ غور ہیں۔

خط میں صدر غنی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ “جنابِ صدر میں آپ پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ واشنگٹن میں ہماری پالیسی پر غور ہو رہا ہے اور امریکہ کسی بھی آپشن کو مسترد نہیں کر سکتا۔ ہم یکم مئی کو امریکی فوج کے مکمل انخلا کے علاوہ دیگر آپشنز پر بھی غور کر رہے ہیں۔”

امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان کی سیکیورٹی صورتِ حال اور طالبان کے مزید علاقوں پر قبضے کے خدشے کے پیشِ نظر بلنکن نے اشرف غنی سے کہا کہ “میں آپ پر اسی لیے واضح کر رہا ہوں شاید آپ کو میرے لہجے سے اندازہ ہو کہ ہمیں اجتماعی کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔”

افغان صدر کے قریبی ذریعے نے اشرف غنی کو امریکی وزیرِ خارجہ کا خط موصول ہونے کی تصدیق کی ہے۔

افغان امور کے تجزیہ کار اور صحافی رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ اگرچہ امریکہ کی طرف سے امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی نظر ثانی کا عمل مکمل ہونا باقی ہے۔ تاہم امریکی وزیرِ خارجہ کا افغان صدر کے نام خط اس بات کا اشارہ ہے کہ امریکہ کی افغانستان سے متعلق پالیسی کیا ہو گی۔

افغان امن عمل: امریکہ اور طالبان کے دوبارہ مذاکرات، کابل حکومت کے تحفظات

اُن کے بقول ایک طرف امریکہ طالبان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ تشدد میں کمی اور افغان امن عمل میں دل جمعی سے حصہ لیں وہیں اشرف غنی پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ ایک عبوری حکومت کی تجویز کو قبول کر لیں۔

بلنکن نے خط میں مزید کہا ہے کہ امریکہ اقوامِ متحدہ سے کہہ سکتا ہے کہ وہ روس، چین، پاکستان، ایران اور بھارت کے وزرائے خارجہ اور سفارت کاروں پر مشتمل ایک کانفرنس بلائے جو افغان امن عمل کے لیے متفقہ حکمتِ عملی اپنانے پر تبادلۂ خیال کریں۔

بلنکن کا کہنا تھا کہ یہی وہ ممالک ہیں جنہیں افغان تنازع کے حل کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا۔

امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ “وہ ترکی سے بھی کہیں گے کہ آئندہ چند ہفتوں میں وہ طالبان اور افغان اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل ایک کانفرنس کی میزبانی کرے جس میں امن معاہدے کو حتمی شکل دی جائے۔ اور میں صدر غںی سے بھی کہوں گا کہ وہ بھی اپنا وفد یہاں بھیجیں۔”

بلنکن نے کہا کہ وہ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے ایک تجویز پر بھی کام کر رہے ہیں تاکہ طالبان کو موسمِ بہار میں حملوں سے روکا جا سکے۔

طالبان شدید سرد موسم اور ناہموار علاقوں میں سخت موسمی حالات کے خاتمے کے بعد موسمِ بہار کی آمد پر مزید توانائی کے ساتھ اپنے مخالفین پر حملے کرتے ہیں۔ ماضی میں اس موسم میں کیے گئے طالبان کے حملوں میں سیکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہوتے رہے ہیں۔

افغان حکومت اور عالمی برادری طالبان پر زور دیتے رہے ہیں کہ وہ تشدد میں کمی کریں کیوں اُن کے بقول دوحہ معاہدے کے باوجود طالبان نے تشدد کی سطح میں کمی کے بجائے اس میں اضافہ کیا ہے۔

بلنکن نے صدر غنی سے کہا کہ وہ سیاسی مخالفین اور دیگر فریقین کے ساتھ مل کر ایک متحدہ محاذ تشکیل دیں جو جامع ہو اور اس پر افغان عوام کا اعتماد بھی ہو۔

اُنہوں نے کہا کہ افغان دھڑوں کے مابین عدم اتفاق نے نوے کی دہائی میں ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

خط میں زلمے خلیل زاد کی تجاویز کا حوالہ دیتے ہوئے صدر غنی پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ان پر غور کریں تاکہ افغان امن عمل کو تیزی سے آگے بڑھایا جا سکے۔

یاد رہے کہ امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے اپنے حالیہ دورۂ کابل کے دوران افغانستان کے سیاسی مستقبل کے فیصلوں کے لیے اقوامِ متحدہ کے زیرِ نگرانی عالمی کانفرنس بلانے کے علاوہ افغانستان میں عبوری امن حکومت کے قیام کی تجویز دی تھی۔

مذکورہ تجویز کے مطابق عبوری امن حکومت بعدازاں نئے آئین اور الیکشن کے بعد اقتدار نئی سیاسی حکومت کو منتقل کر دے گی۔

البتہ، افغان صدر اشرف غنی نے عالمی کانفرنس بلانے کی تجویز کا ذکر کیے بغیر کہا تھا کہ “میں کسی اور دروازے سے اقتدار میں آنے کے خواہش مندوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ افغانستان میں سیاسی قوت حاصل کرنے کا ایک دروازہ ہے جس کی چابی افغانستان کے عوام کے پاس ہے۔”

ہفتے کو ایک تقریب سے خطاب کے دوران اُنہوں نے عبوری حکومت کے قیام کی تجویز کو سرے سے مسترد کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا تھا کہ انتخابات کے بغیر اقتدار کی منتقلی پر وہ کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

امریکی تھنک ٹینک وڈ رو ولسن سینٹر کے ایک تجزیہ کار مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ امریکی وزیرِ خارجہ کا یہ خط غنی حکومت اور بائیڈن انتظامیہ کے درمیان مزید دُوریاں پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔

کوگل مین کے بقول اشرف غنی اس لیے عبوری حکومت کے قیام کی امریکی تجویز کی مخالفت کر رہے ہیں کیوں کہ بظاہر اس میں اشرف غنی شامل نہیں ہوں گے۔

افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کا منصوبہ 2019 میں صدارتی انتخابات کے موقع پر بھی زیرِ بحث رہا تھا۔ تاہم اشرف غنی ہمیشہ اس کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔

اگرچہ افغان صدر تاحال عبوری حکومت کی تجویز کو قبول کرنے پر تیار نہیں۔ لیکن تجزیہ کار رحیم اللہ کے بقول شاید صدر غنی کو جلد یا بدیر عبوری حکومت کی تجویز کے بارے میں لچک کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عبداللہ عبداللہ افغانستان میں امن عمل کی تجاویز بشمول عبوری حکومت کے قیام کی تجویز کے بارے میں لچک دار رویہ اختیار کر سکتے ہیں۔

رحیم اللہ یوسف زئی نے افغان امن عمل میں اقوامِ متحدہ کی میزبانی میں ہونے والے اجلاس میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک بشمول روس، چین، امریکہ، پاکستان، بھارت اور ایران کو شامل کرنے کی تجویز کو اہم قرار دیا ہے۔

اُن کے بقول اقوامِ متحدہ ایک اہم بین الاقوامی ادارہ ہے اس لیے اس کی میزبانی میں ہونے والے اجلاس میں علاقائی طاقتوں اور افغانستان کے ہمسایہ ممالک کی شرکت سے افغان امن عمل کی کوششوں کو تقویت ملے گی۔

رحیم اللہ کی رائے ہے کہ علاقائی طاقتوں کا افغان امن عمل میں اہم کردار ہے اور اگر امریکہ ان ممالک کو ساتھ لے کر چلتا ہے تو افغان عمل کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments