قاسم جان بھی اللہ کو پیارے ہو گئے


اتوار کے دن قاسم جان لیاقت ہسپتال کراچی میں علالت سے لڑتے لڑتے جان کی بازی ہار گئے۔ قاسم جان ایک قوم پرست متحرک سیاست مدار تھے۔ ان سے میری پہلی ملاقات دو ہزار پانچ میں آرٹس کونسل میں جرس ادبی جرگے کی طرف سے ریاض تسنیم اور قیصر اپریدی کے شعری مجموعوں کی کتابوں کی تقریب رونمائی کے دوران ہوئی جس میں وہ مدعو تھے اور کوئٹہ سے اس تقریب کے لئے پشتو کے ممتاز ادیب و شاعر پروفیسر رب نواز مائل اور ان کے ساتھ پشتو شعروادب کا بڑا نام عبدالکریم بریالے مہمانان خاص تھے۔

تقریب کے بعد قاسم جان نے اس وقت کے محب وزیر اور آج کے باچا خان یونیورسٹی کے پختونخوا مطالعاتی سنٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محب وزیر اور ہمیں سراہتے ہوئے کہا کہ اصل کام تو آپ لوگ ہی کر رہے ہیں۔ اور آرٹس کونسل میں یہ پشتو کا پہلا پروگرام یا کہہ سکتے ہیں کہ یہ پہلی انٹری تھی اور آرٹس کونسل میں یہ میری ممبرشپ کا بھی پہلا سال تھا۔

پھر محب وزیر نے جرس ادبی جرگے کے ساتھ ساتھ پشتون ترقی پسند دانشور علاؤ الدین بنگش کے گھر واقع گلشن اقبال کراچی میں سباؤن تھنکرز فورم کی داغ بیل ڈالی اور وہاں ادبی نشستوں کے انعقاد کا بیڑا اٹھایا اور اس فورم میں زاہدہ حنا، جبار خٹک، سلیم راز، حفیظ لاکھو، اجمل خٹک کشر وغیرہ نے ادب اور زبان پر لیکچرز دیے اور ان نشستوں میں قاسم جان بھی شرکت کیا کرتے تھے۔

یہ وہ دن تھے کہ قاسم جان کی اے این پی سندھ چیپٹر سے علیحدگی ہو گئی تھی اور وہ کسی متحرک فورم کی جستجو میں سرگرداں تھے۔ اور شاید سباؤن تھنکرز فورم سے متاثر ہونے کے باعث انہوں نے اپنی چیئرمین شپ میں پختون تھنکر فورم کی بنیاد رکھی۔ جب پختون تھنکر فورم کی بنیاد رکھ رہے تھے تو کراچی کے تمام ادبی جرگوں کے ممبران و عہدیداران کو اباسین ہاؤس میں مدعو کا گیا تھا اور ایک ادبی نشست کا بھی اہتمام کیا گیا تھا اور یاروں کے یار اور مہمان نواز تو وہ تھے ہی لیکن اس دن کچھ زیادہ ہی پیش پیش اور دوستوں پر جان نچھاور کرتے نظر آئے۔

پہلے پہل تو اپنے ہی اوطاق اباسین ہاؤس میں ہی ادبی اور سیاسی نشستیں کیا کرتے تھے، کبھی اکیس فروری کو مادری زبانوں کے حوالے سے تو کبھی خیبر پختونخوا سے کسی ادبی شخصیت کو بلا کر اور ان کی عزت افزائی کے لئے مشاعرہ یا ادبی نشست کا پروگرام بنا دیتے تھے۔  پشتو کے مزاحیہ شاعر اکمل لیونی کو ایک بار بلایا گیا تھا۔ کبھی موسیقی کا پروگرام منعقد کراتے تھے اور پشتو کے مایہ ناز اور ابھرتے ہوئے گلوکار بختیار خٹک سے موسیقی کے پروگرام کو رنگینیاں بخشتے۔

قاسم جان

پھر آرٹس کونسل کا رخ کیا اور پہلے پروگرام کا سارا انتظام میرے حوالے کیا اور غنی خان پر پروگرام منعقد کیا۔ پشاور سے ہمارے دوست اور ہمارے بڑے پروفیسر اباسین آئے ہوئے تھے۔ مہمان خصوصی سابق وفاقی وزیر قانون اور میرے دوست خالد مروت ایڈووکیٹ کے والد اور ہم دونوں کے استاد جناب میر نواز مروت تھے۔ جس میں کراچی قونصلیٹ میں مقیم کلچر اتاشی اور پشتو کی نامور ادیبہ و شاعرہ پروین ملال بھی تشریف فرما تھی۔ اس کے بعد گویا آرٹس کونسل ہی کے ہو کر رہ گئے اور ہر سال دو سال بعد کوئی نہ کوئی پروگرام منعقد کیا کرتے تھے، جیسے خوشحال خان خٹک اور رحمان بابا پر پروگراموں کا انعقاد اور اس دوران پروفیسرڈاکٹر راج ولی شاہ خٹک کو مدعو کرنا اور پروفیسر طہٰ خان کو عزت بخشنا ، جنہوں نے رحمان بابا کی پشتو شاعری کا منظوم ترجمہ اردو میں کیا ہوا تھا اور اس پروگرام میں پیش خدمت سماعت سامعین کیا۔ گزشتہ دو تین عالمی اردو کانفرنسوں میں باقاعدگی سے آرٹس کونسل میں ایک پشتو نشست کا اہتمام کیا کرتے تھے اور اباسین یوسفزے کو پشاور سے بلایا کیا کرتے تھے۔

جب بیگم نسیم ولی خان نے اے این پی ( ولی خان) کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا تو قاسم جان ان کے ساتھ شامل ہو گئے اور صوبہ سندھ کے صدر بن گئے اور اے این پی سے علیحدگی کے بعد چھوڑی ہوئی سیاست کو ایک بار پھر یہاں سے شروع کیا۔ پھر پختون تھنکرز فورم کی سرگرمیاں کچھ عرصہ کے لئے ماند پڑ گئیں۔ لیکن کچھ عرصہ بعد نسیم ولی خان نے اپنی پارٹی کو ایک بار پھر اے این پی میں ضم کیا اور قاسم جان پھر سے پختون تھنکرز فورم کے لئے فعال ہو گئے اور بیماری سے چند دن پہلے تک فعال رہے لیکن اس بار عالمی اردو کانفرنس اور پھر آرٹس کونسل میں الیکشن کے دن اس انداز سے دکھائی نہیں دے گئے جس طرح وہ دکھتے یا نظر آتے تھے۔

اور پھر گزشتہ کئی مہینوں سے کبھی ہسپتال اور کبھی گھر، کبھی گھر اور کبھی ہسپتال میں شفٹ ہوتے رہے لیکن بیماری کے ان ایام میں ایک دن بھی سوشل میڈیا کی خبروں سے اوجھل نہیں رہے۔ کبھی کوئی بیمار پرسی کے لئے ہسپتال چلا جاتا اور ان کی تصویر یار دوستوں سے شیئر کرتا، کبھی کوئی یار دوست پشاور سے آ جاتے اور اپنی حاضری کی عکس بندی یار دوستوں سے چھوڑ جاتے لیکن ہفتے کے دن جو تصویر پشاور سے آئے ہوئے مشہور صحافی عقیل یوسفزئی نے شیئر کی تھی ، اس تصویر میں ان کی اداسی نے وہ تأثر چھوڑا جس کا نتیجہ اتوار کے دن قاسم جان کی رحلت کی صورت میں سامنے آیا۔

ہماری دعا ہے کہ جہد مسلسل کی زندگی گزارنے والے قاسم جان کو اللہ غریق رحمت کرے اور ان کی قبر کو خداوند تعالی نور سے بھر دے۔ آمین ثم آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments