ہمارے سنگدل دیوتا اور تاریخ کا خام مال


اس وقت پاکستانی معاشرہ جس صورتحال کا شکار ہے، اس نے یہ ثابت کر دیا کہ ہم نے اپنے لئے جو راستہ منتخب کیا، وہ ہمیں پسماندگی، جہالت اور اندھیرے کی جانب لے جا رہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر ہم نے وقت کی نزاکت کا احساس نہ کیا تو ہم دنیا سے کٹ کر اور نیچے کی طرف گرتے چلے جائیں گے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ موجودہ دور کسی نہ کسی طور جمہوری اور سیکولر اقدار کی پاسداری کا ہے کہ جس میں معاشرے کے ہر فرد کو مساوی حقوق ملنے کے امکانات زیادہ رہتے ہیں اور انہیں مذہب، نسل یا زبان کی بنیاد پر ثانوی درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ ایک مضبوط اور مستحکم معاشرہ جب ہی قائم ہوتا ہے جب اس میں ہر فرد کو برابر کے حقوق ملیں۔

حقوق سے محرومی اقلیتوں اور ضروریات زندگی سے محروم افراد کو تشدد اور بے حسی کی جانب لے جاتی ہے، اور جب ریاست خود تشدد کے ہتھیاروں کو استعمال کر کے اذیت، قید وبند، اغواء، جبر ی گمشدگیوں، رشوت اور قتل کے ذریعے اپنا تسلط قائم کرنا چاہے تو پھر یہی ماڈل سیاسی جماعتیں بھی اختیار کر لیتی ہیں۔

کوئی بھی معاشرہ انتشار کا شکار ہو کر ٹکڑے ٹکڑے ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اکثر پسماندہ ملکوں میں حکمران طبقے لوگوں کی توجہ مسائل سے ہٹا کر ان میں وطن پرستی کی تبلیغ کرتے ہیں تاکہ وہ محرومیوں کو بھول جائیں اور اپنے حقوق کا مطالبہ ہی نہ کریں۔ بلکہ اپنی اذیتوں اور دکھوں کے ساتھ وہ ان کی مراعات کے تحفظ کے لئے جدوجہد کریں اور ان کے دفاع میں اپنی جانیں بھی قربان کر دیں۔

پاکستان کی تاریخ کے المیوں میں سے ایک بدترین المیہ یہ ہے کہ ہماری تاریخ میں ماضی کی جو تشکیل کی جاتی ہے، اس میں فاتحین، جرنیلوں اور لوٹ مار کرنے والوں کی تعریفیں ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس ادیبوں، شاعروں، دانشوروں، صحافیوں، سائنس دانوں اور محققین کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ امن و امان اور محبت کے مقابلے میں تشدد اور طاقت کا راستہ ہمیشہ آمریت اور مطلق العنانیت کی طرف لے جاتا ہے۔

بدقسمتی سے ہماری تاریخ اپنی ابتدا ہی سے رجعت پسند مؤرخوں کے ہاتھوں تشکیل پائی جنہوں نے فرسودہ روایات، اداروں کی چاپلوسی اور حکمرانوں کے مفادات کا تحفظ کیا۔ اسی لئے ہماری ماضی، حال اور مسقبل کی نسل جھوٹ، فریب اور تنگ نظری کے سائے میں ہی پروان چڑھی اور یہ علتیں پورے معاشرے میں سرایت کرتی چلی گئیں۔

حقیقت میں حکمران طبقے اپنے اقتداراور طاقت کے لئے ذرائع ابلاغ اور پراپیگنڈہ کا استعمال کرتے ہوئے ایک طرف اپنے بارے میں خوش کن اور خوشنما تصویر پیش کرتے ہیں تو دوسری طرف اپنے مخالفین کے متعلق من گھڑت قصے کہانیوں کے ذریعے ان کے لئے عوام میں نفرت پیدا کرتے ہیں۔ جب کبھی بھی وہ بحرانوں میں گرفتار یا پریشانیوں میں مبتلا ہوتے ہیں تو ماضی کا سہارا لے کر خود کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ماضی کی شان و شوکت کی دلربا داستانیں ہی لوگوں کے مسائل کو دبا کر ان کے جذبات کو ٹھنڈا کرتی ہیں اور پھر حب الوطنی اور قوم پرستی کے نام پر انہیں مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ معاشرے کی نا انصافیوں کو برداشت کریں اور ان کے خلاف کوئی آواز ہی نہ اٹھائیں۔

پاکستان کے حکمران خوشنما اور خوش کن ماضی کے قصے کہانیوں کا سنہرا جال بن کر مسائل حل کرنے کے بجائے لوگوں کا حوصلہ یہ کہہ کر بڑھاتے ہیں کہ ان کے آبا و اجداد نے صدیوں بہادری اور جرأت کی تاریخ رقم کرتے ہوئے بے مثال حکومتیں قائم کیں، فلاں فلاں حملہ آوروں کو دھول چٹائی اور ”مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی“ کی ایمان افروز اور لازوال مثالیں قائم کیں۔ مقصد صرف یہی ہوتا ہے کہ وہ جذبات میں آ کر توازن کھو بیٹھیں اور حقائق کو سمجھے بغیر نعروں، وعدوں اور دعوؤں کی بھینٹ چڑھتے چلے جائیں۔

ایسے ہی ماحول میں مفاد پرست جماعتیں اور مخصوص بالادست طبقات اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر شخصیتوں کو استعمال کرتے ہیں اور انہیں ہیرو کا درجہ دے کر ان کی پرستش کرتے ہیں۔ ان شخصیتوں کو عظیم بنانے کا کا م وقت اور مصلحت کے تقاضوں کے تحت ہوتا ہے، جب تک یہ طاقت کے اصل مراکز کے مفادات کو پورا کرتی ہیں ان کی عظمت باقی رہتی ہے اور جیسے ہی ان کی ضرورت ختم ہوتی ہے تو ان کی حیثیت ایک ٹوائلٹ ٹشو پیپر جیسی ہو جاتی ہے۔

ذہنی پسماندگی کی نفسیات ہے کہ جب لوگ ان خود ساختہ ہیروز پر اندھا اعتماد کرنے لگتے ہیں اور اپنی تقدیر ان کے حوالے کر دیتے ہیں تو ان میں خود بے حسی آ جاتی ہے۔ وہ اپنے تمام مسائل کا حل ہیرو کی معجزانہ طاقت سے چاہتے ہیں اور یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ انہیں تمام بحرانوں سے نجات دلائے گا۔ اور جب ایک مرتبہ لوگ اپنی طاقت اور توانائی ہیرو کے سپرد کر دیتے ہیں تو وہ ہیرو اپنی عظمت کے نام پرانہیں ذلیل کرتا ہے، ان کے ساتھ حقارت سے پیش آتا ہے اور جب وہ استعمال کے قابل نہیں رہتے تو انہیں کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے۔

من گھڑت اور مصنوعی تاریخ کے اسی نقطۂ نظر کی وجہ سے لوگ معجزوں پر یقین کرتے ہوئے اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کوئی مسیحا آئے گا اور انہیں تمام مسائل و مصائب سے نجات دلائے گا۔ چنانچہ ہمارا مجموعی مزاج بلکہ عقیدہ ہی بن گیا کہ ہم جب بھی کسی بحران سے دوچار ہوتے ہیں تو دعا کرنے لگتے ہیں کہ کوئی نجات دہندہ آئے ہماری مصیبتوں کا مداوا کرے۔ اسی لئے ہم آج بھی صلاح الدین ایوبی، محمد بن قاسم اور محمود غزنوی جبسے کرداروں کا انتظار کرتے ہیں جو ہماری جگہ ہمارے دشمنوں سے لڑے، انہیں ناکوں چنے چبوائے اور پھر انہیں ہتھکڑیاں لگا کر ہمارے قدموں میں لا پھینکے۔ یہی وہ ذہنیت ہے جو معاشروں اور قوموں کو عمل سے کوسوں دور لے جا کر جمہوری راستوں کو مسدود کرتی اور آمرانہ نظام کے قیام میں مدد دیتی ہے۔

سیاسی و نصابی تاریخ حکمرانوں کے ہاتھوں میں ہمیشہ ایک خطرناک ہتھیار رہی ہے جو اس کے ذریعہ اپنے اقتدار کو مضبوط کرتے اور لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرتے ہیں۔ یہ حکمران ہمیشہ نیک خصلت اور فرشتہ سیرت ہی ہوتے ہیں جو ہرحال میں لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرتے ہیں۔ وطن عزیز میں اس کا فائدہ ہمارے عسکری حکمرانوں نے پوری طرح اٹھایا اور عوام کو یہ تأثر دیا کہ صرف طاقتور افراد ہی ان کی حفاظت، ان کے دیرینہ مسائل حل کر سکتے ہیں اور تمام اندرونی و بیرونی خطرات کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اس تأثر کی وجہ سے فوج شان و شوکت کی علامت بن گئی چنانچہ اس کے خلاف بولنا ملک و قوم کے خلاف غداری کے مترادف ٹھہرا۔

قابل غور بات یہ ہے کہ ادارے ہوں یا افراد، ان کی بڑائی ہمیشہ لوگوں کی قربانیوں پر رکھی جاتی ہے۔ ہیرو ازم کے اس عمل میں لوگ محض خام مال کی حیثیت رکھتے ہیں جن کا بے دردی سے استعمال کیا جاتا ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ ان کا ہیرو کبھی بھی ان کی قربانیوں پر نہ تو رنجیدہ ہوتا ہے اور نہ پشیمان بلکہ وہ تو انہیں استعمال کرتا ہے، نہ صرف بہیمانہ استعمال کرتا ہے بلکہ اسے جائز بھی سمجھتا ہے کہ اس نے اچھے، نیک اور عمدہ مقاصد کے لئے لوگوں کی قربانی دی۔ شاید اسی لئے کہتے ہیں دیوتاؤں کے دل نہیں ہوتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments