جناب وزیراعظم! مہنگائی بڑھانے والے آپ کی بغل میں بیٹھے ہیں


تحریک انصاف اقتدار ملتے ہی تین ماہ میں ہی ملک وملت کی تقدیر سنوارنے کا وعدہ کر چکی تھی، لیکن حکومت میں آنے کے بعد ماہ و سال میں تبدیل ہوتے گئے، پچھلے سال خلائی رپورٹوں کی بنیاد پر آسمان کو چھو لینے کے جو دعوے کیے گئے تھے ان میں مہنگائی پر کنٹرول سب سے اول تھا، تاہم اس سال کا آغاز گزشتہ سال سے بھی خوفناک ہوا ہے، وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ مہنگائی کا بوجھ کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ملکی معاشی حالات کے باعث غریبوں پر پڑنے والے بوجھ کا مکمل احساس ہے، اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے ہر حد تک جائیں گے۔

وزیراعظم عمران خان ملک کے حکمران ہیں، ان کی ہر بات پر یقین کرنے کا جی چاہتا ہے، قوم کو اپنے حکمرانوں پر اعتماد ہونا بھی چاہیے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کو بھی بات کرتے وقت ایسی بات کرنی چاہیے کہ عوام کے اعتماد میں اضافہ ہو، نہ کہ اسے مزید ٹھیس پہنچے، یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک طرف وزیراعظم مہنگائی کا بوجھ کم کرنے کی یقین دہانی کرواتے ہیں تو دوسری جانب سے انہی کے وزراء کہتے ہیں کہ مہنگائی کی وجوہات مختلف ہیں، بعض پر ہمارا کنٹرول ہی نہیں، لیکن پھر انہیں وزراء کا دعویٰ سامنے آتا ہے کہ وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ لیتے ہی مہنگائی کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا ہے، وہ غریب اور متوسط طبقے کو ٹارگٹڈ سبسڈی دیں گے۔

حکوت کے بدلتے بیانات سے عوام تذبذب کا شکار نظر آتے ہیں، یہ عجیب اصطلاحات استعمال کرنے والی حکومت ہے کہ کبھی اسمارٹ لاک ڈاؤن کبھی ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کی بات کرتی ہے، یہ وزراء کبھی خود عام آدمی کی طرح 25 ہزار کی آمدنی والے کا بجٹ لے کر بازار جائیں تو احساس ہو گا کہ کس طرح 12 ہزار روپے مکان کا کرایہ ادا کرنا ہے، بجلی، گیس کے پانچ ہزار روپے دینے ہیں، روز کام پر جانے کے لیے تین ہزار ماہانہ کرایہ یا پٹرول خرچ کرنا ہے، بچوں کے کپڑے اور اسکول کی فیس بھی ادا کرنی ہے، اس بڑھتی مہنگائی اور کم آمدنی میں سب کیسے ممکن ہو گا، جبکہ مرغی کا گوشت پانچ سو روپے کلو، گائے کا آٹھ سو روپے کلو، بکرے کا گوشت تو 50 ہزار تنخواہ لینے والا بھی نہیں سوچ سکتا ہے۔

وزیراعظم کہتے ہیں کہ عام آدمی پر مہنگائی کا بوجھ کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن یہ سب کچھ کیسے ممکن ہو گا؟ حکومتی وزراء کہتے ہیں کہ بعض وجوہات پر ہمارا کنٹرول ہی نہیں، حکومت کا جب مہنگائی کی مختلف وجوہات پر کنٹرول ہی نہیں ہے تو مہنگائی کے خلاف جہاد کیسے ممکن ہو گا؟ وزراء نے ابھی آدھی بات کی ہے، جبکہ پوری بات یہ ہے کہ مہنگائی کی وجوہات نے تو حکومت کو کنٹرول کر رکھا ہے۔ پٹرول مافیا سے لے کر چینی، آٹا مافیا اسمبلی میں ساتھ بیٹھی ہے، یہ لوگ جب کابینہ کا حصہ ہیں تو پھر ان پر کنٹرول کون کرے گا؟ اس مافیا کے ہاتھ اتنے لمبے ہیں کہ حکومت کے لئے سینیٹ، ایوان میں انتخابات کے دوران بندے خرید کر لاتے ہیں، حکومت بنانے والوں کے خلاف حکومت کیسے کوئی کارروائی کر سکتی ہے؟

ملک میں مہنگائی حکومت کے کنٹرول سے باہر ہے، کیونکہ حکومت مہنگائی بڑھانے والوں کے کنٹرول میں ہے۔ وزیراعظم کی معاشی ٹیم جہاں سے آئی ہے، گورنر اسٹیٹ بینک جہاں سے آئے ہیں اور جس تیزی سے ڈالر کو پر لگا کر اڑایا گیا، آئی ایم ایف کی جس طرح ہر شرطیں مانی جا رہی ہیں تو مہنگائی بڑھے گی ہی، وزیراعظم فرماتے ہیں کہ عوام کا بوجھ کم کرنے کے لیے ہر حد تک جائیں گے، مگر صورت حال یہ ہے کہ حکومت عوام کو مہنگائی کے بوجھ تلے دبانے کے معاملے میں پہلے ہی تمام حدیں عبور کر چکی ہے۔

ڈالر مہنگا کر دیا گیا، پٹرول کی قیمت ماہانہ بڑھائی جا رہی ہے، عوام کی بنیادی ضرورت کی اشیاء بھی قابو سے باہر ہیں، لیکن حکومتی وزراء ایک ہی قوالی میں مصروف ہیں کہ سب کیا دھرا سابق حکمرانوں کا ہے، یہ مہنگائی بھی سابق حکمرانوں کی وجہ سے ہوئی ہے، یہ حکومت جب جائے گی تو ان کے بارے میں بھی یہی کچھ کہا جائے گا تو پھر دونوں میں فرق کیا ہے؟

وزیراعظم مہنگائی کے خاتمے کی بات کرتے ہوئے بھی سابق حکمرانوں پیچھے پڑے رہتے ہیں، یوسف رضا گیلانی کے بارے میں بھی کہا جا رہا ہے کہ ایک نااہل شخص پیسے کے بل پر سینیٹ الیکشن جیت گیا تو حکومتی ادارے کیا کر رہے تھے؟ اس طرح تو چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں بھی اس روایت کو دہرایا جائے گا، اس تناظر میں وزیراعظم نے انکشاف کیا ہے کہ ہمارے سینیٹرز کو ابھی سے پیشکش کی جا رہی ہے، تاہم یہ پہلا موقع تو نہیں ہے کہ پیسے چل رہے ہیں اور خرید و فروخت ہو رہی ہے، اس قبل بھی تمام انتخابات میں منڈی لگتی رہی، ارکان بکتے رہے ہیں، لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے لوگ ہی کیوں بکتے ہیں؟

اگر ایک پارٹی کے سینیٹر بکاؤ ہیں تو ضرور بکیں گے، آفر بھی انہیں ہی آتی ہے جو بکتے ہیں، تاہم عوام کو ارکان پارلمنٹ کی خرید و فروخت سے کوئی سروکار نہیں، انہیں تو بڑھتی مہنگائی سے نجات اور اپنے مسائل کا تدارک چاہیے، اس لیے حکومت کا مہنگائی کے خلاف اعلان جہاد کافی نہیں، بڑھتی مہنگائی کے خلاف عملی اقدامات نظر آنا بھی ضروری ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments