میانمار کی فوج کی ’خفیہ اور احتساب سے بالاتر‘ کاروباری سلطنت


Soldiers are seen patrolling the streets in Thingangyun

میانمار میں حال ہی میں حکومت کا تختہ الٹنے والی فوج کے حصے میں ملک کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ آتا ہے۔ مگر ملک کی مسلح افواجکو ایک وسیع اور خفیہ کاروباری سلطنت کے ذریعے بے تحاشہ دولت بھی حاصل ہوتی ہے:

یانگون کے انتہائی مقبول اِن ڈور سکائی ڈائیونگ سینٹر میں آپ فضا میں گئے بغیر طیارے سے چھلانگ لگانے کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔

مگر یہاں اس مصنوعی سکائی ڈائیونگ سے لطف اندوز ہوتے چند ہی لوگوں کو پتا ہوگا کہ یہ ملک کی فوج کی بزنس سلطنت کا حصہ ہے، ایک ایسی سلطنت جس کے حصے آپ کو عام زندگی کے ہر کونے میں نظر آئیں گے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ یہی بزنس نیٹ ورک ہے جو کہ فوجی بغاوت کو ممکن بناتا ہے اور فوج کے احتساب کو کامیاب نہیں ہونے دیتا۔

عام کاروباری افراد ملک کے کاروباری ماحول کو ‘مافیا کے زیرِ اثر سسلی‘ سے تشبیہ دیتے ہیں جبکہ کارکنان کا کہنا ہے کہ ‘جمہوری اصلاحات تب ہی ممکن ہوں گی جب فوج بیرکس میں لوٹے گی۔‘

فوج کی دولت کا ذریعہ دو بڑی کمپنیاں

میانمار کی افواج کا سرکاری نام ’ٹٹمادو‘ ہے۔ ملک کی افواج نے کاروباری دنیا میں 1962 کی سوشلسٹ بغاوت کے بعد قدم رکھا تھا۔

کئی برسوں تک فوجی بیٹالیئنز پر لازم تھا کہ وہ خود کفیل ہوں اور ان کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ مقامی کاروباروں میں حصہ ڈالیں اور اپنے آپریشنز کی مالی فنڈنگ خود کریں۔

یہ بھی پڑھیے

میانمار میں منتخب حکومت گرا کر اقتدار پر قبضہ کرنے والے فوجی سربراہ کون ہیں؟

میانمار میں فوجی بغاوت: فوج نے ایسا کیوں کیا اور اب مستقبل کیا ہو سکتا ہے؟

آنگ سان سوچی کے خلاف غیر قانونی کمیونیکیشن آلات استعمال کرنے کا مقدمہ

Stock image of person indoor skydiving

یانگون کے انتہائی مقبول اِن ڈور سکائی ڈائیونگ سینٹر بھی فوج کے کاوباروں میں سے ایک ہے (فائل فوٹو)

اگرچہ اب یہ رحجان ختم ہو چکا ہے تاہم 1990 کی دہائی میں فوج نے ایک ایسی وقت پر دو کمپنیاں بنائیں جب حکومت ریاستی صنعتوں کی نجکاری کر رہی تھی۔

یہ دونوں کمپنیاں میانمار اکانومک کاروپریشن اور میانمار اکانومک ہولڈنگز لمیٹڈ اب فوج کے لیے دولت کا ایک اہم ذریعہ بن گئی ہیں اور ان کے بینکاری اور کان کنی سے لے کر تمباکو اور سیاحت سب میں حصہ ہے۔ میانمار اکانومک ہولڈنگز لمیٹڈ فوج کا پینشن فنڈ بھی چلاتی ہے۔

متعدد فوجی لیڈران اور ان کے خاندان والوں کے اپنے کاروباری مفادات ہیں اور ماضی میں ان پر پابندیاں بھی لگائی جا چکی ہیں۔

فوجی بغاوت کی قیادت کرنے والے جنرل من آنگ ہلینگ کے بیٹے آنگ پائے سونے متعدد کمپنیوں کے مالک ہیں جن میں ایک ساحلی ہوٹل کے علاوہ قومی ٹیلی کام کمپنی ’مائی ٹیل‘ میں نصف سے زیادہ شیئرز بھی شامل ہیں۔

تاہم ان تمام کاروباری مفادات کا مکمل اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ فوج کا کاروباری اثر و رسوخ کافی زیادہ ہے حالانکہ ملک میں جمہوری اصلاحات کی جا چکی ہیں، اور ہوسکتا ہے کہ حالیہ بغاوت ان مفادات کے تحفظ کے لیے کی گئی ہو۔

‘احتساب سے بالاتر‘

فوج کے کاروباری مفادات کے بارے میں ہمیں جو تھوڑا بہت پتا ہے یہ سب حال ہی میں منظرِ عام پر آیا ہے۔

میانمار میں روہنگیا برادری کے خلاف مظالم کے بعد اقوام متحدہ کی روہنگیا برادری کے حوالے سے 2019 کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ کاروباری وسائل فوج کو بغیر کسی پکڑ کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے کے قابل بناتے ہیں۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اپنے خود کے کاروباری وسائل اور مفادات کے ذریعے فوج خود کو نگرانی اور احتساب سے دور رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔

میانمار اکانومک ہولڈنگز لمیٹڈ کے داخلی ڈھانچے اور مالی معاملات کے بارے میں دو رپورٹیں بھی منظرِ عام پر آ چکی ہیں، ایک تو جنوری 2020 میں کمپنی نے خود شائع کی اور دوسری ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ’جسٹس فار برما‘ نامی گروہ نے لیک کی تھی۔

فوجی بغاوت کی قیادت کرنے والے جنرل آنگ لیانگ

فوجی بغاوت کی قیادت کرنے والے جنرل من آنگ ہلینگ

ان میں دیکھا گیا کہ یہ کمپنیاں فوج کے اعلیٰ حکام جن میں سے کچھ موجودہ بغاوت میں بھی ملوث ہیں، چلاتے ہیں۔ اس کمپنی کے تقریباً ایک تہائی شیئر فوجی یونٹس کے پاس ہیں اور باقی موجودہ اور سابق فوجی حکام کے پاس ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1990 اور 2011 کے درمیان میانمار اکانومک ہولڈنگز لمیٹڈ نے اپنے شیئر ہولڈرز کو 108 ارب کایاٹ جو کہ تقریباً 16.6 ارب ڈالر بنتے ہیں، ادا کیے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فوج اپنے لوگوں کو نوازنے یا سزا دینے کے لیے میانمار اکانومک ہولڈنگز لمیٹڈ کے شیئرز استعمال کرتی ہے۔ مثلاً 35 افراد کے منافعے اس لیے ہمیشہ کے لیے روک دیے گئے کیونکہ انھوں نے کوئی فوجی جرم کیا تھا۔

میانمار اکانومک ہولڈنگز لمیٹڈ نے اب تک اس رپورٹ کے بارے میں کوئی بیان نہیں دیا ہے۔

دوبارہ پابندیوں کے مطالبات

حالیہ فوجی بغاوت کے بعد لوگوں کا کہنا ہے کہ فوج اور اس کے عالمی مالیاتی نظام تک رسائی پر پابندی لگائی جائے۔

بہت سے لوگ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان فوجی کمپنیوں کو ختم کر دیا جائے۔

بی بی سی کو دیے گئے ایک بیان میں جسٹس فار میانمار نامی تنظیم نے الزام لگایا کہ فوج ‘غیر قانونی مفادات کے تصادم‘ میں ملوث ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’فوج اور اس کے کاروباروں نے جو دولت لوٹی ہے وہ میانمار کے لوگوں کی ہے اور اسے لوٹایا جانا چاہیے۔‘

امریکہ نے میانمار کے اعلیٰ فوجی حکام اور چند حکومتی افراد سمیت کان کنی کی تین کمپنیوں کے خلاف نئی پابندیاں لگا دی ہیں۔ کینیڈا، نیوزی لینڈ اور برطانیہ نے بھی اپنی جانب سے اقدامات کیے ہیں تاہم کسی بھی ملک نے ان دو کمپنیوں کو براہِ راست نشانہ نہیں بنایا ہے۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ تاریخی طور پر نے کمزور پابندیوں کی وجہ سے فوج بغاوتیں کر سکی ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی کرتی رہی ہے۔

مگر ماہرین نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ان مغربی ممالک میں صحیح وقت پر ان پابندیوں میں سختی کرنے کا خیال ضرور موجود ہے۔

ایکسز ایشیا نامی رسک مینجمنٹ کمپنی کے مینجنگ ڈائریکٹر جارج مکلوئڈ کا کہنا ہے کہ ‘اس وقت دیگر ممالک یہ دیکھ رہے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔‘

ادھر مقامی کاروباروں میں ان کمپنیوں کی بے پناہ طاقت کے حوالے سے ناراضی پائی جاتی ہے۔

مکلوئڈ بتاتے ہیں ’وہ اس بارے میں ایسے ہی بات کرتے ہیں جیسے کہ سسلی میں کوئی کاروباری مافیا کے بارے میں بات کرتا ہے۔ اگر آپ ان کے ریڈار سے گزریں تو آپ و ان کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن آپ ایسا نہیں کرنا چاہتے ہیں۔‘

‘وہ ایک عالمی سطح کے کھلاڑی بننا چاہتے ہیں‘

فوج پر غیر ملکی سرمایہ کاروں کا دباؤ بھی بڑھنے لگا ہے۔

مشروبات بنانے والی جاپانی کمپنی کرن نے میانمار اکانومک ہولڈنگز لمیٹڈ کے ساتھ دو معاہدے ختم کیے ہیں جن کی مدد سے وہ میانمار کی بیئر کی مارکیٹ پر حاوی تھے۔ سنگاپور کے کاروباری شخصیت لم کالنگ نے میانمار کی تمباکو کی ایک کمپنی میں سرمایہ کاری روک دی ہے۔

ادھر مقامی مظاہرین فوجی حکومت کے زیر کنٹرول کمپنیوں کی اشیا کا بائیکاٹ کر رہے ہیں جن میں جیولری کی دکانوں سے لے کر سگریٹ کے برانڈ تک شامل ہیں۔

EPA

ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگرچہ پابندیاں اہم ہیں لیکن قانونی اور سفارتی دباؤ بھی ہونا چاہیے اور ملک کو ہتھیاروں کی فروخت پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔

عالمی سطح پر پابندیوں کی گونج ہے لیکن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دیگر ممبران کی جانب سے میانمار کی فوج کی مذمت کرنے کی کوششوں کو چین اور روس نے فی الحال کامیاب نہیں ہونے دیا ہے۔

میانمار کی فوج کے نائب چیف نہ اقوام متحدہ سے کہا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے عالمی دباؤ کا سامنا کرنے کو تیار ہیں۔

آگے جو بھی ہو، ناقدین کا کہنا ہے کہ فوج کی دولت کو کھینچنے اور ان کی کمپنیوں میں اصلاحات ہی ملک میں جمہوری اصلاحات کی راہ ہموار کریں گی۔

برما کیمپیئن یو کے کی ڈائریکٹر اینا رابرٹس کہتی ہیں کہ ‘یہی عوام چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ فوج واپس بیرکس میں جائے، سویلین معیشت ہو اور ایک ایسی وفاقی جمہوری حکومت ہو جو ان کی خواہشات کا احترام کرے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp