ارینج میرج میں صرف فرائض ہی پورے ہوتے ہیں


اس کی عمر کوئی پچپن سال کے لگ بھگ ہو گی۔ تیس سال احتیاط سے نوکری کی۔ نوکری اچھی تھی، گھر کی مالی حالت مسلسل بہتر ہوتی رہی۔ گھر کا خرچ پورا کیا اور بچت بھی جاری رکھی۔

جوانی میں شادی ہو گئی۔ بیوی دور کی رشتہ دار بھی تھی۔ شادی گھر والوں نے ارینج کی تھی جو اس نے خوشی سے قبول کی۔ اس کے علاوہ کسی اور ارینجمنٹ سے وہ واقف بھی نہ تھا۔ وہ سال میں ایک یا دو مرتبہ گھر چھٹی آتا۔ گھر میں بھی پانچ بچے بھی ہو گئے۔

تیس سال کی کامیاب نوکری کے بعد وہ خوش تھا کہ اب ریٹائر ہو کر واپس جا رہا تھا۔ اسے فخر تھا کہ اس نے زندگی میں بہت محنت کی ہے۔ پیسوں کا بہت اچھا استعمال کیا تھا۔ گاؤں میں ایک بہترین نیا گھر بنا لیا تھا۔ وہ سوچتا کہ جب وہ ایک کامیاب نوکری کے بعد گھر جائے گا تو گھریلو زندگی کا مزہ آئے گا۔ اس کی بیوی اس کی خدمت میں جت جائے گی۔

وہ تو بیوی کو کچھ خاص ”مس“ نہیں کرتا تھا لیکن اس کا خیال تھا کہ اس کی بیوی کو تو اس کی یاد بہت تڑپاتی ہو گی۔ اس لیے وہ اس کی بہت خدمت کرے گی۔

بیوی نے اپنے سسرال میں ایک مصروف زندگی گزاری تھی۔ انیس سال کی عمر میں ایک ملازمت پیشہ شریف آدمی سے شادی ہو گئی۔ اچھی بات تھی۔ گھر والے اس رشتے پر خوش تھے اسے بھی کوئی پرابلم نہیں تھا۔ گاؤں میں سب کی شادیاں ایسے ہی ہوتی تھیں۔ نوکری والے لڑکے سے شادی گاؤں میں کاشتکاری کرنے والے نوجوان سے بہتر سمجھی جاتی کیونکہ بیوی کو کاشتکاری کے کام نہیں کرنے پڑتے۔

ان کا گھر کا ماحول باقی گھروں جیسا ہی تھا۔ جوائنٹ فیملی سسٹم۔ جس میں شوہر کے سارے بہن بھائی اور والدین رہتے تھے۔ شادی کے پچیس سال بعد اب جوائنٹ فیملی سسٹم تقریباً ختم ہو چکا تھا۔ اب نئے گھر میں وہ خود اور اس کے بچے ہی رہ گئے تھے۔

گھر میں کام کاج کا کوئی خاص پریشر نہیں تھا۔ کاشتکاری اور ڈھور ڈنگر نہ ہونے کی وجہ صرف کچن اور صفائی ہی کے کام تھے۔ وقت گزارنے کے لیے ٹی وی ڈرامے تھے جو وہ بالکل مِس نہ کرتی۔ کمپنی کے لیے باقی دو بہنیں تھیں اور دو چار پڑوسی خواتین سے دوستی بھی تھی۔ میاں صاحب ریٹائر ہو کر آئے تو بھی یہی روٹین جاری رہی۔

وہ میاں کے لیے کھانا وقت پر پکاتی۔ ان کے کپڑوں اور جوتوں کا خیال رکھتی۔ باقی روٹین ویسی ہی تھی۔ ٹی وی ڈرامے، بہنیں اور پڑوسنوں سے گپ شپ۔ میاں سے کمپنی کی عادت ہی نہیں تھی اور نہ اس بات کی خواہش یا خیال کبھی دل میں آیا۔

ادھر میاں صاحب کا خیال تھا کہ اس کا خیال ٹھیک طرح سے نہیں رکھا جا رہا۔ وہ سوچتا اس نے زندگی کے تیس سال محنت سے کام کیا اور اپنے بیوی بچوں کو ہر سہولت مہیا کی تو اس کی بیوی کو اس کی قدر کرنا چاہیے۔

میاں صاحب نے کچھ عرصہ تو برداشت کیا لیکن پھر اپنے جاننے والوں سے اس بات کی شکایت کرنا شروع کر دی کہ اس کی قدر نہیں کی جا رہی، اس کو بیوی اس میں دلچسپی نہیں لیتی۔

قریبی دوست اس سے پوچھتے کہ شکایت کیا ہے؟ جب انہیں پتا چلتا کہ وہ اس کے سارے کام کرتی ہے ہم بستری سمیت تو وہ بھی کنفیوز ہو جاتے اور اس کا مسئلہ سمجھ نہ پاتے۔ کہ اگر یہ سب کچھ اسے مل رہا ہے تو پھر بیوی سے اور کیا چاہتا ہے۔

اس کی بیوی بھی اپنی جگہ یہی سمجھتی کہ وہ اپنے تمام فرائض پورے کر رہی ہے تو پھر اور کیا کرے۔

معاشرے کے تقریباً سبھی گھروں کا یہی حال ہے۔ زیادہ تر لوگ اپنے فرائض پورے کر رہے ہیں۔ میاں بیوی کے فرائض میں تقسیم واضح ہے اور ہر کوئی اپنے فرائض پورے کر رہا ہے۔ سبھی کچھ پورا ہو تو رہا تھا لیکن خوشی کی کمی ہے۔ بیوی سبھی کچھ کر دیتی تھی لیکن کمپنی کیوں نہیں دے رہی تھی، اس کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کیوں نہیں کرتی تھی۔ اس سے پیار کیوں نہیں کرتی تھی۔

اس بات کی جان کاری ابھی تک کسی کو نہیں تھی کہ ارینج میرج کے تحت ہونے والی شادیوں میں فرائض تو پورے ہو رہے ہوتے ہیں لیکن زندگی کی خوشیوں، رفاقت کی لذت اور پیار محبت کے امکانات کم ہی ہوتے ہیں۔ پیار محبت ایک قدرتی امر ہے اور زبردستی نازل نہیں ہو سکتا۔

قدرتی طریقے کے تحت پہلا سٹیپ ملاقات ہے جو شادی اور سیکس کی غرض کے علاوہ کسی بھی اور وجہ سے ہو سکتی ہے۔ پہلی ملاقات اگر شادی یا سیکس کی غرض سے کی جائے تو وہ قابل کراہت ہوتی ہے۔ اگر یہ دو اغراض نہ ہوں تو ملاقات عموماً اچھی ہی رہتی ہے۔ پہلی ملاقات کے بعد بتدریج، جان پہچان، پسندیدگی، دوستی، پیار محبت، اور زیادہ محبت اور پھر جب لگے کہ ایک دوسرے کے بغیر رہ نہیں سکتے تو پھر لوگ شادی کا سوچتے ہیں اور وہ بھی کافی ہچکچاہٹ کے ساتھ۔ ایسی شادی میں زندگی کے مزیدار ہونے کے امکانات کافی ہوتے ہیں۔

ارینج میرج میں پہلی ملاقات ہی شادی یا پھر سیکس کی غرض سے ہوتی ہے ، اس لیے فرائض ہی پورے ہو سکتے ہیں جیسا کہ پاکستان کے ہر گھر میں ہو رہے ہیں۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments