حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول چکے ہیں لیکن عوام کے دل جیتنا مشکل نہیں


ایسا لگتا ہے کہ حکومت کی ساری توجہ حزب اختلاف کی حرکات و سکنات پر مرکوز ہے کہ اس نے اڑھائی برس احتساب اور این آر او کی گردان الاپتے ہوئے گزار دیے جس کے نتیجے میں سماجی و معاشی مسائل گمبھیر تر ہوتے گئے اب حالت یہ ہے کہ اس کے ہاتھ پاؤں پھول چکے ہیں لہٰذا وہ اس کیفیت کو چھپانے کے لیے ایک بار پھر ماضی کے حکمرانوں کی آڑ لے رہی ہے ،انہیں برا بھلا کہہ کر عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اسے چاہیے تھا کہ وہ اپنے سیاسی حریفوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو دیکھنے کے لیے اداروں کو زحمت دیتی ، خود جنگی بنیادوں پر فلاحی منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں مصروف عمل ہو جاتی مگر اس نے نہ جانے کیوں اپنی تمام تر توانائیاں انہیں احتسابی شکنجے میں کسنے پر صرف کر دیں ، مطلوبہ نتائج تب بھی برآمد نہیں ہو سکے ۔ اس طرح وہ اپنے منشور کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہی مگر اس نے ان اڑھائی برسوں میں عوام کے ساتھ جو سلوک کیا ، وہ بتانے کی ضرورت نہیں سب کے سامنے ہے۔

کبھی کبھی تو یہ نظر آتا ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کو یہ یقین ہو گا کہ وہ اقتدار میں آتے ہی سب کچھ بدل کر رکھ دیں گے ، ہر ایک رکاوٹ کو آسانی سے اپنے راستے سے ہٹاتے ہوئے آگے بڑھ جائیں گے مگر انہیں یہ معلوم نہیں ہو گا کہ ایک مخصوص سیاسی و سماجی کلچر نے پورے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے ، جس سے نجات حاصل کرنے کے لیے مخلص ترین لوگوں کی ایک ٹیم چاہیے ہو گی جو انہیں دستیاب نہیں ہو سکی مگر یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ انہوں نے اس حوالے سے بھی زیادہ کوشش نہیں کی ، لہٰذا آج وہ ایک مشکل میں گھر چکے ہیں۔ان کی مخالف سیاسی جماعتیں انہیں ایک پل بھی اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتیں۔

عوام ان کے پیچھے کھڑے نہیں دکھائی دے رہے ، وہ مہنگائی اور اندھا دھند ٹیکس لگائے جانے کی وجہ سے ان سے دور جا چکے ہیں، اس کا فائدہ حزب اختلاف خوب اٹھا رہی ہے۔ اگرچہ وہ (حزب اختلاف) بھی یکسو نہیں اور اس میں شامل جماعتیں اپنے اپنے مفادات کی نگرانی کر رہی ہیں مگر اسے شاید یہ یقین ہے کہ اب عمران خان کی حکومت زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی۔

بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ حکومت نادیدہ قوتوں کی تھپکی سے محروم ہو چکی ہے ، انہیں اب اس سے کوئی دلچسپی نہیں رہی کیونکہ وہ عوام میں غیر مقبول ہو گئی ہے ، اس نے معاشی اعتبار سے قومی معیشت کو مضبوط نہیں کیا۔ جو مسائل انتظامی طور سے حل یا ختم کیے جا سکتے تھے ، اس میں بھی وہ ناکام رہی ہے لہٰذا وہ جانے اور اس کا کام جانے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ عمران خان اداس نظر آنے لگے ہیں ،انہیں یہ بات بہت پہلے سوچنا چاہیے تھی کہ وہ اپنے گرد ایسے لوگوں کو اکٹھا کر چکے ہیں جو ان کے اپنے نہیں دوسری جماعتوں کے ہیں جنہیں عوام اور عوامیت سے کوئی غرض نہیں ، وہ ایسی کسی تبدیلی کے سخت خلاف ہیں جس سے ان کی تجوریاں خالی رہتی ہوں لہٰذا انہوں نے غیر عوامی مشورے دے کر عوام کا بھرکس نکلوا دیا ، ان کا یہ طرزعمل پی ٹی آئی کو نقصان پہنچانے کا سبب بن گیا۔ اب جب بلدیاتی انتخابات ہوتے ہیں تو ہمیں نہیں لگ رہا کہ حکمران جماعت اپنا سیٹ اپ بنانے میں کامیاب ہو سکے گی۔

بہرحال یہ سچ ہے کہ لوگوں کی غالب اکثریت عمران خان کی حکومت سے بیزار ہو گئی ہے ، وہ اٹھتے بیٹھتے ہر مسئلے کا ذمہ دار اسے گردانتے ہیں۔ اس تناظر میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اب سیاسی منظرنامہ تبدیل ہو سکتا ہے ، سوال یہ ہے کہ کیا آنے والے حکمران عوام کے لیے کوئی خوشحالی پروگرام لائیں گے ، یقیناً ایسا کچھ نہیں ہو گا؟

ہمارے دوست جاوید خیالوی کے مطابق غریب عوام کے لیے کسی بھی با اختیار کے دل میں کوئی درد نہیں ، سب انہیں بیوقوف بنا کر مزید لوٹ مار کے منصوبے بنا رہے ہیں اب تفصیلاً یہ بتانا غیر ضروری ہو گا کہ اب تک ان سب نے مل کر کس قدر عوامی سرمایے کو ہتھیایا ہے کیونکہ اس کا حساب کتاب ہی نہیں لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ کل حزب اختلاف اور حزب اقتدار ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہو جائیں گے تاکہ سب کے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔ ہم کئی بار انہی کالموں میں عرض کر چکے ہیں کہ یہ حکمران سیاست دان نہیں ان میں جو چند ایک ہیں بھی وہ بھی عوام دوست نہیں اقتداری ہیں ، انہیں اقتدار سے پیار ہے۔یہ لوگ دانستہ مسائل پیدا کرتے ہیں اور پھر ان میں سے ایک دو کو حل بھی کرتے ہیں تاکہ عوام ان کے ساتھ جڑے رہیں۔

ویسے یہ بھی سچ ہے کہ ان حکمران طبقات کو عوام کی کوئی ضرورت نہیں یعنی انہیں ووٹ سے کوئی سروکار نہیں کیونکہ اقتدار عوام کی طاقت سے نہیں کسی دوسری طاقت سے حاصل ہوتا ہے۔ پھر منصوبے خواہ وہ ترقیاتی ہوں یا غیر ترقیاتی عالمی مالیاتی اداروں کی مرضی سے بنتے ہیں اور وہ ایسے منصوبوں کی اجازت کبھی بھی نہیں دیتے جو لوگوں کو خود کفیل بناتے ہوں۔ لہٰذا عوام کہاں کھڑے ہوتے ہیں اس کا بخوبی علم ہو جاتا ہے۔

جاوید خیالوی گاہے گاہے ہمیں اپنے خیالات سے نوازتا رہتا ہے ، کبھی ہم اس سے اتفاق کر لیتے ہیں اور کبھی نہیں بھی کرتے۔ خیر ہم یہاں یہ بتاتے چلیں کہ سیاست دانوں کو عوام سے تعلق رکھنا پڑتا ہے کیونکہ انہوں نے ان سے کسی نہ کسی مقام پر کوئی کام لینا ہوتا ہے لہٰذا یہ ان کی چھوٹی چھوتی مشکلات کا ازالہ کرتے رہتے ہیں مگر انہیں اقتدار و اختیار میں حصہ دار نہیں بناتے۔

بہر کیف موجودہ حکومت نے بعض معاملات میں خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی چلائی ہے کہ اس نے انتظامی پہلوؤں سے چشم پوشی اختیار کی ہے ، وگرنہ یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ آج ہمیں جتنے سماجی مسائل در پیش ہیں ان کا خاتمہ ہو گیا ہوتا۔ ملاوٹ، رشوت، کمیشن خوری، حق تلفی، قبضہ گیری، مہنگائی اور دھوکا دہی ایسے مسائل کو بڑی حد تک ختم کیا جا سکتا تھا۔ اب وہ وقت گزر گیا کیونکہ اس کے بارے میں عوام کی رائے قائم ہو چکی ہے ، ان کے ساتھی خفا خفا ہیں ، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ عمران خان اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو اپنا چہرہ تک نہیں دکھاتے ، ملاقات نہیں کرتے لہٰذا ہو سکتا ہے وہ جلد یا بدیر یہ کہتے ہوئے نظر آئیں کہ ”یہ کیا ہو گیا“ مگر انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ سیاست کاری ایک فن ہے جو آسانی سے نہیں آتا اس کے لیے عوامی ہونا پڑتا ہے ، حکمت عملی اور تحمل سے کام لینا ہوتا ہے۔ لوگوں کے دل جیتنے پڑتے ہیں ، آمرانہ طرز عمل سے اجتناب برتا جاتا ہے۔

معذرت کے ساتھ ان سب باتوں سے انہوں نے رخ موڑ لیا ہے۔ اب بھی اگر وہ اپنے اندر تھوڑی سی تبدیلی لے آتے ہیں ، مسائل کی جانب متوجہ ہوتے ہیں ، اپنے دونوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سے کام لینے کی ٹھان لیتے ہیں اور بنیادی کارکنوں کو اہمیت دے کر آگے لاتے ہیں تو ان کی جماعت کی مقبولیت بحال ہو سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments