کووڈ کی نئی لہر اور ہماری معیشت


ایک بار پھر کالج اسکول بند ہو رہے ہیں، ایک بار پھر یونیورسٹیاں بند رہی ہیں، ایک بار پھر اعلان کر دیا گیا ہے کہ شادی ہال بند ہو جائیں گے، ایک بار پھر اعلان کر دیا گیا ہے کہ تقریبات پر پابندی ہے۔

ایک بار پھر بازاروں اور پارکوں کے وقت محدود کر دیے گئے ہیں اور سب سے بڑھ کر ایک بار پھر دفاتر میں حاضری 50 فیصد کر دی جائے گی اور پرائیویٹ نوکریاں جو ابھی پھر سے پہلا قدم اٹھانے لگی تھیں، منہ کے بل گر جائیں گی۔

یہ بھی نہیں سوچا جا رہا کہ اس سب کے ساتھ ملکی معیشت کیسے چلے گی اور کب تک چلے گی؟
لوگ ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں کہ ملک میں جلد ملنگ ہی ملنگ پھرتے ہوں گے۔
ملکی معیشت نہ چلے تو عوام کیسے چل سکتے ہیں؟

ایک بار پھر کاروباری حضرات کا لین دین کھٹائی میں پڑ جائے گا۔ بڑے کاروباری افراد تو اپنا گزر بسر کسی طور کر لیتے ہیں۔ چھوٹے کاروباری افراد پہ تو اتنا بوجھ بڑھ جاتا ہے کہ کاروبار بند کرنے کی نوبت آ جاتی ہے اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس بن کر بڑے کاروبار، چھوٹے کاروباروں کو کھا جاتے ہیں۔

موقع پرستی بڑھ جاتی ہے کیونکہ سفر قیامت ہے، انسانیت اور ضمیر دفن ہو چکے ہیں۔
کیا کبھی حکومت نے اس طرح سے سوچا ہے؟
اب کی بار کاروبار زندگی رک جانا کوئی رومانس نہیں ہو گا۔

اب کی بار انسان، انسان کا دشمن ہو جائے گا۔ انسان، انسان سے نفرت کرنے لگے گا۔ کیوں کہ جس طرح ملک قرضے میں ہے اسی طرح عوام بھی قرضوں کے بوجھ تلے دب چکے ہیں۔

لیکن حکومت کی ترجیحات میں لنگر خانے ہیں ۔ لنگر خانوں سے نہ تو ملکی معیشت چلتی ہے نہ عوامی کاروبار۔
روزی روٹی کا وعدہ تو پیدا کرنے والے نے بھی کیا ہے مگر بجلی کے بل، گیس کے بل، پانی کے بل اور بچوں کی فیسوں کا وعدہ تو نہیں کیا۔
بچے سکول جائیں یا نہ جائیں ان کی فیس ادا کرنی ہے۔ کیا کبھی حکومت کے کسی نمائندے نے ایسا سوچا ہے؟

جب 2019 میں کورونا آیا تھا ہم نے یہ سوچا کہ ہمیں اس بیماری کے ساتھ سفر بھی کرنا پڑ سکتا ہے؟
تو کیا ایسے سفر میں زندگی روک دی جاتی ہے؟
بدقسمتی سے ہم 2019 سے 2021 تک کوئی پلاننگ نہیں کر سکے۔

سو فیصد ویکسینیشن ہو بھی جائے تو کیا گارنٹی یے کہ وبا ختم ہو جائے گی؟ لیکن ہمارا مسئلہ سینیٹ کے الیکشن سے لے کر اعتماد کے ووٹ تک ہے۔ شہروں میں بڑھتے ہوئے کوڑا کرکٹ سے کیا کوئی وبا نہیں پھیل سکتی؟ یا یہ کوڑا ہماری ویکسین یا کوئی دوا ہے، یا عبرت کا کوئی نشاں؟

یا ہمیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ آپ کے ووٹ کا انعام ہے اور آئندہ بھی ووٹ ہمیں ہی دیجیے گا تاکہ ملک کوڑے اور بیماریوں کا ڈھیر بن جائے۔

کیا بدلتے ہوئے موسم میں اس گند سے کوئی بیماری جنم نہیں لے سکتی اور کیا یہ ضروری ہے کہ یہ کووڈ ہی ہو؟

ممکن ہے یہ ہمارے اعمال کا نتیجہ ہو ، ممکن ہے یہ ہمارے ووٹ کا نتیجہ ہو۔

ایک بات اور ہمارا ترقی یافتہ ملکوں سے کوئی مقابلہ تھا اور نہ ہے۔ ہم ایک ترقی پذیر ملک ہیں اور ہمیں اسی کے مطابق اپنا لائحہ عمل طے کرنا ہوتا ہے ، ورنہ ترقی یافتہ ملکوں کی تاریخ تو یہ ہے کہ انہوں نے جنگ عظیم دوم میں بھی ہمیں جنگ کا ایندھن بنا لیا تھا ۔ ہمیں افرادی قوت کے طور پہ جنگ میں جھونک کر ہمارے گھر تباہ کر دیے گئے تھے۔

کیا اب ہماری حکومت ان کے عظیم نقش قدم پہ چلتے ہوئے کسی جنگ میں جھونک رہی ہے؟
دنیا میں اس طرح تو کاروبار زندگی کہیں بند نہیں ہوا۔ کہ منگ مندی بن جائے۔ لاک ڈاؤن ہے لیکن کام بھی ہو رہا ہے کم از کم نوجوانوں و جوانوں کو تو کام کرنے دیا جائے، وبا کا خطرہ بچوں اور بزرگوں کو زیادہ ہے۔ ہمیں ان کے لیے احتیاطی تدابیر زیادہ کرنی چاہیں، مگر ہم سب سے پہلے ان لوگوں کو روک رہے ہیں جو ہماری معیشت کا پہیہ ہیں اور پہیے رکنے سے کاروبار زندگی نہیں چلا کرتا۔
جذباتی فیصلوں سے ملک نہیں چلا کرتا
لنگر خانوں سے ملک نہیں چلا کرتا
اعتماد کا ووٹ لینے سے ملک نہیں چلا کرتا
انا اور تکبر سے ملک نہیں چلا کرتا
ذہنی غلامی سے ملک نہیں چلا کرتا
قرضوں کے تلے دبے ملک نہیں چلا کرتے
اور جب ملک نہیں چلا کرتے تھے تو عوام حکومت کے خلاف ہو جاتے ہیں۔

جب پیٹ میں روٹی نہیں جاتی تو کسی کی کوئی جماعت نہیں رہتی۔ روٹی سب سے بڑی جماعت اور سب سے بڑا منشور بن جاتی ہے۔ جب پہیے کارخانوں و فصلوں میں چلتے نہیں رکتے ہیں تو بعض اوقات الٹے چل پڑتے ہیں۔

لطیفہ تھا مگر سچ نکلا ”مجھے اسٹیبلشمنٹ بھی ٹھیک نہیں ملی“ ۔ اس میں کتنے ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو عوام سے آتے ہیں مگر ان کی تنخواہ اور مراعات کے سامنے عوام چیونٹی بن جاتے ہیں لیکن یہ بھی سن رکھا ہے کہ چیونٹی ہاتھی کی ناک میں گھس جائے اور کاٹ لے تو ہاتھی مر بھی جاتا ہے۔
”کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے“ ڈیئر حکومت! ہمیں نعرے نہیں عمل چاہیے۔ دفاتر اور کاروبار کے حوالے سے کیے گئے فیصلوں پہ نظر ثانی کیجیے اور ملکی معیشت کا رکا ہوا پنکچر پہیہ چلنے دیں۔

دماغ استعمال کرنے کے لیے بھی ہوتا ہے۔ اسے صرف مادے بنانے کی قدرتی مشین سمجھنا چھوڑ دیں۔ نہیں تو اپنے سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر سے ہی پوچھ لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments