مریم کا دوپٹہ ’انصاف‘ کی نذر ہوا


یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب تحریک انصاف کی رکنیت سازی کے کیمپ راولپنڈی کے مختلف علاقوں میں لگائے جا رہے تھے اور وہاں ویرانی دیکھ کر دل کڑھتا تھا۔ لیکن پھر اچانک ”مالک“ کو اس جماعت پر رحم آیا اور یہ جماعت ”شام“ دگنی اور ”رات“ چوگنی ترقی کرتی چلی گئی۔ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ اپنے کپتان صاحب ایسی باتیں کرتے تھے جو ہر انسان کے دل کو لبھاتی تھیں۔ ان کی انہی باتوں سے کچھ لوگوں نے انہیں نجات دہندہ سمجھ لیا۔

اس میں ایک اہم کردار کرکٹ نے بھی ادا کیا۔ اگرچہ پاکستان کا قومی کھیل ہاکی ہے لیکن یہاں سب سے زیادہ کھیلا اور دیکھا جانے والا کھیل کرکٹ ہی ہے۔ جس نسل نے کپتان صاحب کو کرکٹ ورلڈکپ جیتتے ہوئے دیکھا تھا وہ ابھی تک ان کے سحر میں گرفتار تھی۔ محبت کا یہ سحر ایک ایسی پٹی ثابت ہوا جس نے ان نوجوانوں کو صحیح اور غلط کی تمییز سے یکسر عاری کر دیا۔ اس محبت میں انہوں نے ساری حدیں پار کر دیں۔ لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ جب یہ حدیں کراس ہو رہی تھیں تو اس وقت جنہیں کردار ادا کرنا چاہیے تھا وہ اپنا حساب بے باک کر رہے تھے کیونکہ اس ملک میں رہتے ہوئے بھی ان کا ملک الگ ہے۔

ان کی رہنے کے لیے سوسائٹیاں الگ، ان کی خریداری کے لیے مارکیٹیں الگ، ان کی شادیوں کے لیے شادی ہال الگ، ان کے بچوں کے لیے سکولز اور کالج الگ، اور تو اور ان کے مردہ جسم دفنانے کے لیے قبرستان الگ۔ پاکستان کے اندر بنے خواص کے اس نئے پاکستان تک غریب کو روکنے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے اپنائے جاتے ہیں۔ یوں انہوں نے اپنے تئیں تمام برائیاں غریبوں کے پاکستان تک محدود کر دیں اور اپنے پاکستان ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے۔

ان کا اس پسماندہ پاکستان سے تعلق بس اتنا ہی ہے کہ صبح اٹھ کر گاڑی پر سوار ہوئے، اپنے پاکستان سے نکلے اور پرانے پاکستان میں پانچ دس گھنٹے حکمرانی کی اور شام کو واپس اپنے پاکستان آ گئے۔ ان کے خلوص کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ اگرچہ ملک کا آئین و قانون ایک ہے لیکن عوام کے پاکستان اور اشرافیہ کے پاکستان کے آئین و قانون کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔

اشرافیہ کے پاکستان میں ایک بار سینما جانے کا اتفاق ہوا۔معلوم تھا کہ وہاں پانی کی بوتل تین گنا زیادہ قیمت پر ملے گی، لہٰذا پانی، جوس اور کھانے کی کچھ چیزیں اپنے پاکستان سے پہلے ہی خرید لی تھیں۔ لیکن یہ بتا کر تمام چیزیں ہم سے لے لی گئیں کہ آپ کھانے پینے کی کوئی باہر سے خرید کر اندر نہیں لا سکتے۔ جو کھانا پینا ہے وہ اندر سے خریدنا پڑے اور ہمیں وہاں ہر چیز تین گنا مہنگا ملی اور خریدنا بھی مجبوری کہ بچے ساتھ تھے۔ یہ صرف ایک مثال ہے بتانا یہ مقصود تھا کہ جب عوام کے پاکستان کو خراب کرنے کے لیے تمام حدیں کراس کی جا رہی تھیں تو اس طوفان کے آگے جنہوں نے بند باندھنا تھا وہ الٹا انہیں ”کراسیوں“ کو ہیرو بنا کر پروموٹ کیا جا رہا تھا۔

بات چلی تھی تحریک انصاف سے، کہ اٹھان ہی گالی اور نفرت کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ جو فرسٹریشن کپتان کے اندر تھی اسے نچلے درجے کے کارکن تک منتقل بلکہ انجیکٹ کر دیا گیا ہے اور یہی بات نیازی صاحب سے وابستہ میرے رومانس کے خاتمے کا سبب بنی۔ دھرنے کے دنوں میں میڈیا پر انحصار کرنے کی بجائے میں خود وہاں جاتا اور مشاہدہ کرتا۔ یہ لوگ کس طرح خواتین کو تنگ کرتے تھے، ان پر آوازے کستے، ان پر بوتلیں پھینکتے، ہاتھوں میں پکڑے ڈندوں سے ان کے ساتھ نازیبا حرکات کرتے، جو میڈیا ہاؤس سوال اٹھاتا اس پر حملے کرتے، پولیس والوں کو بے رحمی سے کوٹا کرتے، پی ٹی وی پر حملہ اور ”مقدس“ اداروں کو گالیاں دیتے اور ان پر شلواریں لٹکاتے تو مجھے کراچی کی ایک لسانی جماعت یاد آ جاتی۔

اور ایسا کیوں نہ ہوتا جب کہ ”معشوق“ سردار خود سڑکوں پر گھسیٹنے، مخالفین کی پھینٹی لگانے، شلواریں گیلی کرنے اور الٹا لٹا کر ڈنڈے مارنے کی باتیں کر رہا ہو اور وسیع تر ”قومی“ مفاد میں ان باتوں کو براہ راست نشر بھی کیا جا رہا ہو تو ”عاشق“ غلام کیوں پیچھے رہے گا؟ جب آقا ہی ایسا ہو تو دلیل سے تہی دامن غلام، مصدق ملکوں اور شاہد خاقان عباسیوں پر ہاتھ بھی اٹھائے گا اور مریم کے سر سے دوپٹے بھی اتارے گا۔ ہماری تاریخ میں اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی جماعت کے کارکنوں نے ایسی حرکت کی ہو اوراس جماعت کے سربراہان نے اس سے لاتعلقی کا اظہار کر کے اس کی مذمت نہ کی ہو۔

یہ پہلی بار ہوا کہ کارکنان کو نہ صرف حساس علاقے تک رسائی دی گئی بلکہ ان کی شیطانی حرکت کا دفاع بھی کیا گیا۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ زرتاج گل اور شیریں مزاری سے جب اس بابت پوچھا گیا تو انہیں بحیثیت خواتین ایک خاتون کے ساتھ کی گئی بدتمیزی کی مذمت کرنے کی اخلاقی جرأت تک نہ ہوئی۔ کتنا بدقسمت ہے وہ معاشرہ جسے یزید کے ٹولے سے ایک حر بھی میسر نہ ہو۔ اس سے بھی زیادہ الارمنگ بات یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ڈیوٹی پر موجود افراد اس اخلاقی معاملے پر فریق بن گئے۔

کیا اس ملک پر فاشسزم کا آسیب اس قدر حاوی ہو چکا ہے؟ اور وہ میڈیا ہاؤسز جوماضی میں اس نفرت کو پروموٹ کرنے میں پیش پیش تھے، وہ یہاں بھی اپنی منافقت سے باز نہ آئے اور کہنے لگے نون لیگی رہنماؤں کو کارکنوں میں آ کر میڈیا ٹاک کرنی ہی نہیں چاہیے تھی حالانکہ میڈیا ٹاک پارلیمنٹ لاجز کے سامنے تھی جبکہ انصافی ڈی چوک پر تھے۔ یہ ڈی چوک سے وہاں گئے، میڈیا ٹاک کے دوران گالیاں دیتے رہے، جب نون لیگی رہنما واپس جانے لگے تو جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے لیکن شپرہ چشم مصر ہے کہ سورج نہیں نکلا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments