گلگت بلتستان کو صوبہ کیسے بنایا جا سکتا ہے؟


گلگت بلتستان اپنے خوبصورت پہاڑوں، گلیشئرز، پھلوں، دریاوں، معدنیات، ثقافت اور دلکش نظاروں کی وجہ سے پوری دنیا میں منفرد مقام رکھتا ہے۔ یہاں پر ماضی میں دنیا کی مشہور طاقتوں برطانیہ، روس اور چین کی سرحدیں ملتی تھیں۔ آج بھی یہاں پر پانچ ممالک کی سرحدیں آپس میں جڑی ہیں جن میں چین، پاکستان، انڈیا، افغانستان، تاجکستان اور روس شامل ہیں۔

ستمبر 2020 میں گلگت بلتستان کو باقاعدہ پاکستان کا صوبہ بنانے کے حوالے سے سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان مشاورت کی خبریں گردش کر رہی تھیں۔ بعد میں کچھ وفاقی وزراء نے اس مشاورتی ملاقات کی تصدیق کی۔ گلگت بلتستان پاکستان کا صوبہ بن سکتا ہے یا نہیں؟ اس سے پہلے اس کی موجودہ آئینی حیثیت اور تاریخ کو سمجھنا ضروری ہے۔

تاریخی طور پر گلگت بلتستان ہمیشہ سے کشمیر کا حصہ نہیں رہا ہے۔ 1841 میں اسے سکھوں نے بزور طاقت کشمیر کا حصہ بنایا۔ سکھوں کی شکست کے بعد اسے ڈوگرہ راج کے حوالے کیا گیا۔ 1947 میں پاکستان آزاد ہونے کے بعد گلگت بلتستان کے لوگوں نے ڈوگروں کو یہاں سے مار بھگایا اور یکم نومبر 1947 کو آزادی حاصل کرنے کے بعد 16 نومبر کو الحاق پاکستان کا اعلان کیا گیا۔

یہ علاقہ بہت وسیع ہے جس کے تین بڑے حصے ہے۔ پہلا کشمیر، دوسرا لداخ /کارگل اور تیسرا گلگت بلتستان ہے۔ 1947 کے بعد سے کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک متنازع مسئلہ ہے۔ دوسرا حصہ لداخ جس کے کچھ حصے چین اور بھارت کے زیر انتظام ہیں اور تیسرا حصہ گلگت بلتستان جو کہ پاکستان میں وفاق کے زیر انتظام ہے۔

1948 میں پہلی بار انڈیا مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ لے گیا۔ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا پاکستان نے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ کرایا اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے جنوری 1949 میں پاکستان اوربھارت کے مابین قرار داد منظور کی، جس میں گلگت بلتستان کو ریاست جموں و کشمیر کا حصہ قرار دیا گیا۔ اس کے فوراً بعد اپریل 1949 کو حکومت پاکستان اور آزادکشمیر کی اس وقت کی حکمراں جماعت مسلم کانفرنس کے درمیان کراچی معاہدہ طے پایا جس کے تحت گلگت بلتستان کا انتظام ریاست پاکستان کے کنٹرول میں آیا۔

اس کے بعد گلگت بلتستان میں ترقیاتی کاموں کا آغاز ہوا۔ 1974 تک اس علاقے کو فرنٹئیر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) کے تحت چلایا گیا، 1975 سے لے کر 2020 تک انتخابات بھی منعقد ہوئے، کچھ اصلاحات بھی ہوئیں اور گلگت بلتستان اسمبلی کا نام بھی تبدیل ہوتا رہا۔ 2015 میں سرتاج عزیز کی سربراہی میں گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے حوالے سے کمیٹی بنائی گئی جس نے 2017 میں اپنی رپورٹ پیش کی اور گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کی تجویز پیش کی مگر اس پر پیش رفت نہیں ہوئی۔ پھر نومبر 2020 کو انتخابات منعقد ہوئے اور تحریک انصاف نے اپنی حکومت بنا لی۔

گلگت بلتستان حالیہ انتخابات سے پہلے تحریک انصاف کی حکومت نے بار بار اپنے بیان میں یہ کہا ہے کی گلگت بلتستان کو صوبہ کا درجہ دیا جائے گا، اور ماضی میں دوران انتخابات وفاقی سیاسی پارٹیوں نے ایسے اعلانات کیے ہے جس کا مقصد انتخابات پر اثرانداز ہونا ہے۔ مگر یہ وعدے اور اعلانات آج تک پورے نہیں ہوئے ہے۔

اب 9 مارچ 2021 کو گلگت بلتستان اسمبلی میں ایک متفقہ قرارداد منظور کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کو فوری طور پر عبوری صو بہ کا درجہ دیا جائے۔ اور وفاق میں وزیر اعظم پاکستان نے بھی وزیر امور کشمیر کے زیر نگرانی ایک مہینے پہلے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ جو عبوری صوبے کے حوالے سے رپورٹ اور سفارشات تیار کر کے وزیر اعظم کو پیش کرئیں گے۔

اب سوال یہ ہے کہ گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دینے سے کشمیر ایشو متاثر ہو سکتا ہے؟ تو اس حوالے سے ماضی میں آزادکشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی حکومتوں اور سیاسی قیادت نے ہمیشہ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت میں تبدیلی کی مخالفت کی ہے۔ تاہم اس حوالے سے سرتاج عزیز کمیٹی نے اس کا حل یہ بتایا تھا کہ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 1 پاکستان کی جغرافیائی حدود کا تعین کرتا ہے، اس میں ترمیم نہ کی جائے بلکہ آئین کے آرٹیکل 51 اور 59 میں ترمیم کرتے ہوئے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مخصوص نشستوں کے ذریعے نمائندگی دی جائے۔

ایک اور بات سمجھنے والی ہے کہ گلگت بلتستان جغرافیائی طور پر کشمیر کا حصہ نہیں ہے بلکہ مسئلہ کشمیر کا حصہ ہے۔

پھر انڈیا اور پاکستان نے 1972 میں اقوام متحدہ سے یہ مسئلہ واپس لے لیا اور شملہ معاہدہ کر لیا گیا۔ اس معاہدہ کے تحت دونوں ممالک پابند ہیں کہ آپس میں مسئلہ کشمیر حل کریں۔

1999 میں پاکستان کے سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ ”شمالی علاقہ جات/ گلگت بلتستان کے لوگ ہر لحاظ سے پاکستان کے شہری ہیں۔ ان کے بنیادی حقوق کو آئینی تحفظ دیا جانا ضروری ہے۔“

سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو حکم دیا تھا کہ اس حوالے سے ضروری انتظامی اور آئینی اقدامات بروئے کار لائیں۔ جنوری 2019 کو سپریم کورٹ نے پھر ایک فیصلہ دیا کہ گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنایا جائے اور وفاقی حکومت کو حکم دیا کہ اس پر کام شروع کیا جائے۔

اب اگر وفاقی حکومت گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے جا رہی ہے تو اس کا ممکنہ حل یہ ہے کہ ملکی آئین میں دو تہائی اکثریت سے ترمیم کی جائے۔ جس کے نتیجے میں سینیٹ، قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے آئینی اور دوسرے اداروں میں بھی گلگت بلتستان کو نمائندگی ملے گی۔ اگر گلگت بلتستان کو اسی طرح سے نمائندگی ملی تو ان کو وسائل میں بھی پورا حصہ ملے گا اور یہ خطہ ترقی کی طرف گامزن ہو گا۔

لیکن ایک قانونی نکتہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے سے یہاں کے نمائندوں کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مبصر کے طور پر نمائندگی ملے گی جس کا کوئی فائدہ نہیں، یعنی یہ مبصرین قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قانون سازی میں شامل نہیں ہوں گے۔

گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے لئے یہاں کے عوام کی طویل جدوجہد ہے اور یہ ابھی تک جاری ہے۔ یہاں کے لوگوں کا مطالبہ ہے کہ ہمیں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے عبوری صوبہ نہیں چاہیے بلکہ گلگت بلتستان کے عوام کی مشاورت سے آئینی مسودہ تیار کر کے پارلیمنٹ میں پیش کر کے مکمل صوبہ بنایا جائے، جس سے ہمیں دیگر صوبوں کی طرح نمائندگی اور اختیارات ملیں۔ یعنی جغرافیائی اور آئینی طور پر اسے مکمل طور پر پاکستان کا حصہ بنایا جائے۔

دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ اگر مکمل صوبہ نہیں بنا سکتے تو آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ دیا جائے اور سب سے بڑھ کر سٹیٹ سبجیکٹ رول کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے یا گلگت بلتستان اسمبلی میں ایسا قانون پاس کیا جائے کہ گلگت بلتستان سے باہر کے لوگ یہاں پر زمین وغیرہ نہ خرید سکیں۔

تیسرا مطالبہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان کونسل اور جی بی کشمیر منسٹری کو ختم کیا جائے اور اٹھارہویں ترمیم میں جس طرح دوسرے صوبوں کو حقوق اور اختیارات دیے ہیں۔ اسی طرح سے گلگت بلتستان اسمبلی کو بھی با اختیار بنایا جائے۔

چوتھا مطالبہ یہ ہے کہ ان تمام مراحل میں یہاں کے لوگوں کی رائے شامل ہو۔

ایک بات وفاقی حکومت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام شروع دن سے یہی چاہ رہے ہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ شامل ہوں اور 16 نومبر 1947 کو یہاں کے لوگ اپنی مرضی سے پاکستان کے ساتھ شامل ہوئے تھے مگر ابھی تک یہاں کے حب الوطنی کو سمجھا نہ سکا۔ اب گلگت بلتستان پاکستان کے لئے دفاعی اور اقتصادی لحاظ سے اہمیت اختیار کیا گیا ہے لہٰذا یہی وقت ہے کہ مسئلہ کشمیر کو نقصان پہنچائے بغیر گلگت بلتستان کو جغرافیائی اور آئینی طور پر پاکستان کا مکمل صوبہ بنایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments