گوادر کے وہ مقامات جنہیں گوادری نہیں جانتے



بلوچ قوم سے متعلق اکثر بلوچوں کو ملک کے سینئر سیاست دانوں، ممبران پارلیمنٹ، صحافیوں، دانشوروں اور دوسری نامور شخصیات سے شکوہ رہتا ہے کہ وہ بلوچ قوم کو بلوچی کہہ کر پکارتے اور لکھتے ہیں جبکہ بلوچی صرف ایک زبان ہے جس کے تین لہجے ہیں اور تینوں کے الفاظ، لہجوں ، تلفظ اور کچھ حروف تہجی میں فرق موجود ہونے کے ساتھ ساتھ کئی دوسری زبانیں بھی ہیں جنہیں بلوچ مادری زبان کے طور پر بولتے ہیں۔ انہیں جب بھی بلوچی کہا جاتا ہے تو انہیں عجیب لگتا ہے۔

بالکل اسی طرح کچھ ناموں کے تلفظ بھی وقت کے ساتھ ساتھ اپنی اصلیت کھو رہے ہیں جیسا کہ گوادر جسے گاوادر کہا جا رہا ہے۔ اس تلفظ کے بدلنے سے یقیناً لفظ کا اصل معنی ”گوات در“ یعنی ’ہوا کا دروازہ‘ تو متاثر ہو رہا ہے لیکن پھر بھی ہر عام شخص کو یہ لفظ سن کر پتہ چل جاتا ہے کہ اس سے مراد گوادر ہی ہے۔

مگر آپ کو کیسا لگے گا جب کوئی شخص آپ کے ہی علاقے کا کوئی ایسا نام لے جسے آپ نے کبھی بھی سنا نہ ہو؟

بالکل ایسا ہی پچھلے دنوں ہم دو دوستوں کے ساتھ ہوا جب ہم اسلام آباد سے آئے ہوئے اپنے ایک صحافی دوست سے ملے جو گوادر میں سیروتفریح کے لیے آئے تھے۔ ملاقات طویل نہ ہو سکی کیونکہ انہیں شیڈول کے مطابق سیر کے لیے نکلنا تھا اور وہ جا رہے تھے ”گوادر ہیمرہیڈ“ یہ نام سن کر ہم دونوں مقامی ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ یہ ”گوادر ہیمر ہیڈ“ کہاں ہے؟ جب گوگل پر سرچ کیا تو تمام تصاویر میں گوادر کے ”کوہ باتیل“ پر سے گوادر شہر کے مناظر نظر آنے کے تھے۔

بعد میں کئی لوگوں سے پوچھنے کے بعد گوادر کے سماجی کارکن اور استاد جناب ناصر سہرابی صاحب سے پتا چلا کہ چونکہ فضائی مناظر سے گوادر شہر ’کوہ باتیل‘ کے ساتھ ایسا لگتا ہے جیسا کہ ایک ہتھوڑا ہو، اس لیے اب ملک کے مختلف علاقوں اور باہر سے آئے ہوئے سیاحوں کے لیے اسے مختلف کمپنیاں اور سرکاری ادارے اس مقام کو ہیمر ہیڈ ہی لکھتے اور کہتے ہیں بھلے ہی اس سے سیاحوں کو کوہ باتیل پر سیر کرنے باوجود بھی پتہ نہ چلے کہ وہ باتیل کی پہاڑی پر گھوم کر آرہے ہیں اور اسی طرح مقامی لوگوں کو پتا نہ ہو کہ ”ہیمر ہیڈ“ نام کا بھی کوئی تفریحی مقام گوادر میں موجود ہے جسے انہوں نے کبھی بھی نہیں دیکھا سنا ہے۔

جس طرح پچھلے کچھ برسوں سے ”کنڈ ملیر“ بلوچستان کا خوبصورت ساحل سمندر ملک بھر کے سیاحوں اور خصوصاً کراچی والوں کے لیے سیر و تفریح کا مقام بنا ہوا ہے ، جسے تمام لوگ اس کے اصل نام سے جانتے ہیں، اسی طرح گوادر سمیت تمام علاقوں کی شناخت اور مقامات کے اصل ورثے کو محفوظ بنانے کے لیے لازمی ہے کہ ان کے اصل نام ہی ہوں کیونکہ ان ناموں کے پیچھے ایک لمبی تاریخ، روایات اور داستانیں ہوتی ہیں جنہیں نئی نسل تک پہنچانے کے لیے ان کے نام ہی واحد ذریعہ رہ چکے ہوتے ہیں۔

اسی طرح ایک دفعہ گوادر میں کچھ دوستوں کو آفیشل کام کے لیے جبل نوح پر آنے کا کہا گیا تھا جس پر وہ مقامی ہونے کے باوجود بھی انتہائی پریشان تھے کہ یہ حضرت نوح کے نام سے منسوب پہاڑ گوادر میں کہاں ہے؟ بعد میں ادھر ادھر پوچھنے پر پتا چلا کہ کوہ باتیل کے مشرقی حصے کو سرکاری سطح پر جبل نوح کہا جاتا ہے جسے مقامی لوگ ”جمبیل“ سمیت مختلف ناموں کے ساتھ جانتے ہیں اور آج تک کوئی بھی عام شہری جس کی عمر خواہ کتنی ہی زیادہ ہو، اسے نہیں معلوم کہ یہ جبل نوح کہاں ہے۔

جمبیل کوہ باتیل کی مشرقی طرف ایک آستانہ تھا جہاں عقیدت مند منتیں اور مرادیں لے کر اپنے بچوں سمیت جایا کرتے تھے مگر سمندری کٹاؤ کی وجہ سے اب جمبیل کا مقام سمندر برد ہو چکا ہے لیکن پھر بھی جمبیل نام کوہ باتیل کے مشرقی جانب کے لیے مقامی سطح پر عام استعمال ہوتا ہے ۔ جبل نوح تو صرف ڈاکیومنٹس کی حد تک محدود ہے مگر خدشہ ہے کہ شاید آنے والی نسلوں کے لیے جمبیل کے مقام کی طرح کوہ باتیل بھی ایک بھولا بسرا نام ہو۔

گوادر میں جاری ترقیاتی اسکیمات اور نئے پروجکٹس میں مقامی سطح پر یہ خدشات بھی بڑھ رہے ہیں کہ کہیں مقامی ورثہ و شناخت معدومی کا شکار نہ ہو جائے۔ ایک مثال حال ہی میں شہرت پانے والا کرکٹ گراؤنڈ ہے جسے مقامی لوگ سینیٹر محمد اسحاق بلوچ کرکٹ اسٹیڈیم کے نام سے جانتے تھے مگر اچانک شہرت ملنے سے اس اسٹیڈیم کا نام صرف گوادر کرکٹ اسٹیڈیم چل رہا ہے بلکہ سوشل میڈیا پر کئی صارفین نے تو اپنی طرف سے مختلف ناموں کے مشورے بھی دیے کہ فلاں فلاں شخصیات کے ناموں سے اسے منسوب کیا جانا چاہیے۔

جب گوادر میں زمینوں کا کاروبار شروع ہوا تو مختلف سرمایہ داروں نے ہزاروں ایکڑز زمینیں خریدیں جن پر مختلف اسکیمیں شروع کی گئیں۔ آج ان اسکیموں کے سائن بورڈز کے علاوہ مقامی سطح پر بہت ہی کم لوگوں کو پتا ہو گا کہ وشیں ڈھور، نگور، پلیری و شنکانی در کے نام اگلے چند سالوں میں کیا کیا ہوں گے ۔

گوادر شہر سے متصل ماہی گیروں کی بستی سربندن اب سر بندر سے جانی جاتی ہے کیونکہ بندن بلوچی زبان میں ساحل پر آباد بستی کو کہتے ہیں جبکہ بندر، بندرگاہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

ایسے کئی نام اب ماضی کا حصہ ہوتے جا رہے ہیں اور ان کی جگہ ایسے نام دیکھنے اور سننے میں آ رہے ہیں جن کا مقامی زبان، شناخت اور ورثے سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ نئے نام یہاں کی ثقافت کی نمائندگی کرتے ہیں اور نہ ہی مقامی لوگ ان سے آشنا ہوں گے ، ایسے میں باہر سے آئے ہوئے لوگ ان مقامات پر آئیں گے بھی، سیر بھی کریں گے اور سوشل میڈیا پر شیئر بھی کریں گے۔ لیکن ساد کنڈگ، چار پادگو، واجہ ہدر، کلگ، پدی زر، کوہ مہدی، دران اور شہابی سے سیاح کبھی بھی لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments