اے خدا! میں شرمندہ ہوں



شرم بھی انسان کا کیسا عجیب زیور ہے جسے آ جائے وہ جھک جاتا ہے اور جسے نہ آئے اسے جھکا دیا جاتا ہے۔ اللہ کے سامنے انسان کو شرمندہ ہونا بھی چاہیے۔ وہ خدائے برحق ہے اور ہم خطا کار انسان جن کے پاس کرنے کو گناہ کے علاوہ کوئی کام بھی نہیں ہے۔

گناہ کیا ہے؟ یہ ایسا عمل ہے جو ناپسندیدہ ہے۔ لیکن یہ ناپسندیدگی کا اختیار اللہ نے اپنے پاس رکھا ہے۔ وہ پسند ناپسند کرنے کا اختیار رکھتا ہے، کیونکہ فیصلہ اسی نے کرنا ہے۔انسان کا کام تو ان گناہوں سے بچنا ہے۔ وہ یہ پسند ناپسند کا اختیار کیسے لے سکتا ہے؟ کیا وہ یہ اختیار لے کر فیصلے کا اختیار بھی رکھتا ہے؟ حالانکہ قدرت نے تو یہ فیصلہ اپنے اوپر چھوڑ رکھا ہے کہ ہم جلد ہی فیصلہ سنائیں گے۔

اب انسان نے خود سے ہی خدا کے کام کرنے شروع کر رکھے ہیں۔ وہ جس کو چاہتا ہے گناہ قرار دیتا ہے اور پھر میزان ہاتھ میں پکڑ کر فیصلہ بھی صادر کر دیتا ہے۔ سوال کرنا انسان کی سب سے اولین ترجیحات میں سے ایک ہے جس سے اس کی عقل کھلتی ہے۔ وہ حق اور سچ کی کھوج میں نکلتا ہے۔ تقلیدی باتیں اور روایتی اقوال اس کے ذہن میں سوالات کا مجموعہ لا کھڑا کر دیتے ہیں تو کیا وہ سوالات کا حق نہیں رکھتا؟ کیا اسے بات کرنے کا حق بھی کسی سے پوچھ کر استعمال کرنا ہو گا یا وہ یہ اختیار پہلے سے ہی رکھتا ہے؟

ہمارے معاشرے میں ایسا کیوں ہے کہ مولوی حضرات سوال کرنے والے کے پیچھے ایسے پڑ جاتے ہیں کہ وہ دوبارہ سوال کرنے کی جسارت نہ کر سکے۔ کیوں سوال کرنے والے ذہن کو سوال ڈھونڈنے کا کام نہیں کرنے دیا جاتا؟ حالانکہ یہی تو دین ہے۔ سمجھ کر آگے بڑھ کر ایمان لانا اور غور و فکر کرنا ، کائنات میں یہی تو دین کے احکام ہیں۔ تقلیدی ذہنیت سے نکل کر کوئی اگر علم کی تلاش میں نکل رہا ہے اور حق کی تلاش میں ہے تو کیوں اس کے پیروں میں زنجیریں ڈالی جاتی ہیں جس سے وہ ایک جگہ جامد ہو کر رہ جاتا ہے اور زمانے کی تسلیم شدہ حقیقتوں کو ذہن پر مسلط کر لیتا ہے۔

الحمدللہ علم حاصل کر رہا ہوں جس سے عقل حرکت میں آتی ہے۔ انسان کوئی بھی خیال ذہن میں لاتے ہوئے سوچنے کا عمل شروع کرتا ہے کہ آیا یہ معاملہ ایسا ہی ہے یا صرف پرانے لوگوں کے قصے اور کہانیاں ہیں جنہوں نے میرے مذہب کو گدلا کر دیا ہے۔ اسلام دین کی بجائے کرامات کا مجموعہ بنتا جا رہا ہے اور کافی حد تک بن چکا ہے۔ لوگوں کو دین کا علم کم اور بزرگوں کی کرامات کا علم زیادہ ہے۔ ہمارے جمعہ کے اجتماع خاص طور پر ترتیب ہی اس طرح دیے جاتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اپنے بزرگوں کی کرامات کو لوگوں کے سامنے معقول بنا کر پیش کیا جائے۔

بندہ ناچیز نے علم، عقل اور شعور کی آنکھ سے چند سوالات اٹھانے کی جسارت کر دی تو میرے ارد گرد کے چند لوگوں کو سوالات اچھے نہیں لگے۔ کیونکہ سوالات ان کے بزرگوں کی جھوٹی گھڑی گئی کرامات سے متعلق تھے لیکن مافیا اپنی توجیہات پیش کر رہا تھا اور دوسروں کے ایمان کو خطرے میں ڈال کر کرامات کو سچ ثابت کر رہا تھا۔

اب میں کمزور انسان مافیا کے آگے کیا کرتا ، سب کے سامنے اپنے عقیدے کی تفصیلات بتانا پڑ رہی ہیں اور تفصیل بتانے کے بعد میں اللہ کے سامنے مزید شرم سے پانی پانی ہو رہا ہوں۔ عقیدے اور ایمان کا فیصلہ تو اس رب کریم کی شان ہے اور میں انسانوں کے سامنے جواب دے رہا ہوں۔ میں تو اللہ کے سامنے جواب دہ ہوں۔ میزان تو اس کے پاس ہے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والی ذات ہے۔ سوچتا ہوں کہ اللہ نے اگر پوچھ لیا کہ تو لوگوں کو صفائیاں کیوں دے رہا تھا تو کیا جواب دوں گا؟

یہ تو سراسر اللہ کا اختیار ہے۔ اس نے ایک مخصوص دن مقرر کر رکھا ہے۔ انسان اصلاح اور فیصلے کو بالکل ایک ہی معنی میں لے رہا ہے۔ اصلاح کا حق ہر صاحب علم کے پاس ہے لیکن اصلاح تھوپنے کا حق کسی کے پاس نہیں ہے۔ آپ کسی سے زبردستی اپنا جواب درست قرار نہیں دلوا سکتے اور نہ ہی اپنا موقف اس پر دھونس اور جبر کے ساتھ مسلط کر سکتے ہیں۔ اے خدا! میں شرمندہ ہوں لیکن تو جانتا ہے کہ سچ کیا ہے اور تو ہمارے معاملات سے بھی باخبر ہے اور ہماری نیتوں سے بھی لاعلم نہیں ہے۔ عقیدہ اور ایمان وہی ہے جس کا تو نے حکم دیا ہے۔ انسانوں کے بنائے ہوئے ان راستوں کو میں نہیں مانتا جس پر چل کر انسان جھوٹوں کا دفاع کرنے لگ جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments