ہندوستانی معاشرے میں فرقہ واریت اور بنیاد پرستی کی تاریخ



انگریزوں کے 1757 میں ہندوستان کے مشرقی علاقوں پر قبضہ کر لینے اور برصغیر بھر میں اثر و رسوخ کے آغاز سے ہندوستان کے سماجی، ثقافتی، مذہبی اور سیاسی ڈھانچے میں اور لوگوں کے طرز فکر میں کافی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ انگریز کے دور میں ہماری ثقافتی اقدار تیزی سے تبدیل ہوئیں، ہزاروں سال پرانا (کامیاب) دیہاتی سماج بھی تبدیل ہوا اور شہریت کو تہذیب سے جوڑ دیا گیا۔

یہ دو الگ الگ سماجوں کا ملاپ تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے سے بہت کچھ مستعار لیا۔ مگر وہیں کولونئیل سامراج نے ہمیں غلام بنائے رکھنے کے لیے ہمارے اندر ہی گروہی اختلافات پیدا کرنے کی بھرپور کوششں کی۔ ہماری سماجی و مذہبی اقدار میں فرقہ واریت اور شدت پسندی کا زہر اسی دور کی یادیں ہیں۔

یاد رکھیں! مذہب کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ مذہب کی اخلاقی تعلیمات، دعا و مناجات، روحانیت و تصوف یہ سب ہمارے سماج اور رہتل کا قدیم ماضی سے حصہ رہا ہے۔ درگاہوں، مزارات پر عرسیہ تقریبات، لنگر اور کھانے کی فراہمی، اہم یادگاری دنوں میں میلے ٹھیلے، ختم شریف کے اہتمام اور محلے داروں، اقربا اور غریبوں مسکینوں میں کھانا، کپڑے اور نیاز کی تقسیم یہ سب ہمارے سماج کی سینکڑوں سال پرانی صوفی روایات کا خوبصورت حصہ ہیں۔

اسی طرح عیدین، رمضان، ہولی اور دیوالی، میلے ٹھیلے، بیساکھی، لوڑی کے ثقافتی اور علاقائی تہوار اسی طرح جمعے کے اجتمعات ہمارے برصغیر کے صدیوں سے چلی آ رہی باہمی یگانگت، بھائی چارے اور رواداری و سانجھ کی شاندار روایات کا اظہار رہا ہے۔

خصوصاً پنجاب میں ہم جانتے ہیں کہ پہلے ایک ہی گاؤں میں مسلم، ہندو، سکھ سب مل جل کر بھائی ویروں کی طرح رہتے تھے۔ میں دعوے سے چیلنج کرتا ہوں انگریز کے پنجاب پر قابض ہونے 1848 سے پہلے پنجاب کے کسی گاؤں، شہر میں ہندو، مسلم یا سکھ فساد کی کوئی ایک مثال بھی نہیں ملے گی۔ ہزار سال میں ایک بھی مذہبی تفریق کا واقعہ دکھائی نہیں دیتا۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ 1946 تک ایسا کوئی واقعہ نہیں ملتا۔

”تقسیم کر کے راج کرو“ عالمی استعماری طاقتوں کی پرانی ترکیب ہے۔ انگریز نے بھی یہی کیا۔ انگریز کے آنے کے بعد یہاں پہلی دفعہ نہ صرف یہ کہ سید احمد خان جیسے انگریزی ملازم سامنے آئے جنھوں نے پہلی دفعہ ہندوستانی تاریخ میں مذہبی بنیاد پر تقسیم کو ہوا دی۔ اور ہند میں بسنے والے محمڈن لوگوں کو پہلی بار ایک الگ قوم کے طور پر پیش کیا۔

یوپی سے تعلق رکھنے والے انگریزی سرکاری ملازم نے ملازمت میں حیرت انگیز طور پر ترقی حاصل کی۔ محض ایک کلرک بھرتی ہونے والے سید احمد چند سالوں میں سرکار کے منظور نظر ملازمین میں سے ایک ہو گئے،  وہ ترقی کرتے ہوئے ڈپٹی کلکٹر اور جج تک بنے۔ ان کی سرکار کے لیے ”خدمات“ کے اعتراف میں حکومت کی طرف سے ’سر‘ کا خطاب دیا گیا۔

یہ سید احمد خان ہی تھے جنہوں نے ہندوستانی تاریخ میں پہلی بار محمڈنز کو اپنے ہم وطن ہندوؤں سے الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی بلکہ مجھے کہنے دیجیے کہ دونوں فریقوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت بھرنے کا کام کیا جبکہ اپنے ملک پر قابض سات سمندر پار سے آئے بدیسی انگریز سے وفاداری کا درس دیا۔ ان کے لکھے گئے اس زمانے کے کتابچے جیسے ”اسباب بغاوت ہند“ اور دیگر رسائل و پمفلٹ ہندو مسلم علیحدگی اور مسلم انگریز دوستی کے فلسفے سے بھرے ہوتے تھے۔

صحیح معنوں میں نام نہاد دوقومی نظریے کی تخلیق کا کریڈٹ انھی کو جاتا ہے۔ اسی دوقومی نظریے نے بعد ازاں برطانوی سرکار کے تقسیم کر کے راج کرو کے عمومی نظریے اور فلسفے کو عملی طور پر معاشرے میں پھیلایا۔ اب یہ سوچا سمجھا منصوبہ تھا یا یہ سب اتفاقی تھا لیکن یہ طے ہے بظاہر تقسیم کے اس مشن میں یہ اکیلے نہیں تھے بلکہ کچھ دیگر لوگ بھی اسی سرکاری بیانیے کی ترویج میں پیش پیش تھے۔

ایسا ہی ایک کردار ہندو لیڈر دیوانند سوامی تھا۔ اس نے آریا سماج نامی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ انسویں صدی کی آخری چوتھائی میں ہی ایک اور ہندو قوم پرست تحریک برہمو سماج تھی۔ اس کی بنیاد ہندو مفکر رام موہن رائے نے رکھی تھی۔ پھر مشہور زمانہ ہندتوا نام کی نئی ہندو قومیت پرستی کے نظریے کا اجراء بھی پہلی جنگ عظیم کے بعد اسی انگریز دور میں ہوا۔ ہندتوا کے نئے تنگ نظر اور خالص ہندو برتری کے حامل نظریے کا بانی مشہور انگریز نواز ہندو لیڈر دھمودر سوارکر تھا۔ مشہور دائیں بازو کی انتہا پسند اور مسلم دشمن جماعت آر ایس ایس کی بنیاد بھی اسی نے رکھی تھی۔

یاد رہے 1861 میں انگریز نے برصغیر میں پہلی مردم شماری کروائی تھی ۔ کہتے ہیں اس مردم شماری کے دوران پنجاب میں خاص کر مذہب کے بارے پوچھے گئے سوال پر سادہ لوح دیہاتی کنفیوژ دکھائی دیتے تھے۔ اسے آپ سادگی سے زیادہ پنجابی لوگوں کی مذہبی ہم آہنگی اور باہمی میل جول سے تعبیر کر سکتے ہیں ، یقیناً یہی وہ حقائق ہوں گے جنھوں نے انگریزوں کو مقامی آبادی میں پھوٹ پیدا کرنے کی ترغیب دی ہو گی کیونکہ کسی بھی باہم یکجا قوم کو زیادہ عرصے تک غلام بنائے رکھنا آسان نہیں ہوتا۔ بلکہ اندر سے تقسیم شدہ اور ایک دوسرے سے نفرت کرنے والے لوگوں پر راج کرنا زیادہ آسان کام ہوتا ہے۔

اسی لیے اس دور میں مسلمانوں اور ہندوؤں دونوں میں پہلی دفعہ منصوبہ بندی سے فرقہ واریت متعارف کروائی گئی۔ حیرت انگیز طور پر تقسیم اور مسلکی نفرت کو پروان چڑھانے والی ایسی تمام سرگرمیوں کا مرکز ہندوی یا ہندوستانی زبان بولنے والے شمالی ہندوستان کے علاقے تھے (سوائے برہمو سماج کے جو بنگال میں شروع ہوئی اور قادیانیت پنجاب میں ) یعنی موجودہ یوپی، ہریانہ، بیحار وغیرہ۔

اسی زمانے میں مسلمانوں میں بھی مذہبی اصلاح کی بہت سی نئی تحریکوں نے جنم لیا۔ ایک طرف یوپی کے دیوبند نامی چھوٹے سے قصبے میں مسلمانوں کا ایک مدرسہ قائم کیا گیا جس کا مقصد مسلمانوں کے اندر ایک نیا فرقہ تیار کرنا تھا جہاں اصلاح دین اور شریعت کی خالصیت کے نام پر نئی مذہبی کلاس پیدا ہوئی جو خود کو علمائے اسلام کہلانے لگے۔ اسی گروہ نے بعد ازاں بے شمار مسلم قوم پرست تحاریک کی بنیادیں رکھیں جیسا کہ تحریک الأحرار، جمیعت علماء ہند، جماعت اسلامی، خاکسار تحریک وغیرہ۔ ان سب جماعتوں میں ایک بات مشترک تھی اور وہ تھی سرکار سے وفاداری۔

نیز عام بھولے بھالے دیہاتی مسلمانوں کو عقائد، شریعت، عبادات، دعوت و تبلیغ اور شرک و بدعت کے خاتمے کے نام پر مذہبیت کی طرف لے کر آئیں تاکہ ان کی توجہ سرکاری مظالم کی طرف نہ جائے اور یوں آئندہ 1857 جیسی بغاوت پیدا ہی نہ ہونے پائے اور یوں سات سمندر پار سے آئے ہوئے مٹھی بھر انگریز اس عظیم ملک پر غیر قانونی قابض رہیں اور ہندوستان ان کی وفادار غلام کالونی بنا رہے۔ اور وہ اس کی دولت لوٹنے میں آرام سے بے فکر ہو کر مصروف رہیں۔

حتیٰ کہ 1906 میں وائسرائے ہند لارڈ کرزن کی تجویز پر قائم ہونے والی مسلم لیگ کے ابتدائی منشور کے مطابق بھی اس نئی جماعت کا مقصد انگریز اور مسلمانان ہند کے درمیان اچھے تعلقات پیدا کرنا تھا۔ مسلم لیگ کے بانی قائدین مسلم اشرافیہ کے سرکردہ اور سرسید کے علی گڑھ مسلم کالج کے فارغ التحصیل نواب اور امام تھے۔

انگریزی سرکار کی حکمت عملی بہت گہری تھی انھوں نے صرف برصغیر کے لوگوں کی سماجیات اور طرز معاشرت کو ہی نہیں بدلا بلکہ ان کی معتدل سوچ میں شدت پسندی، عدم برداشت اور عسکریت پسندی بھی انڈیلی۔ 1830 کی دہائی میں پنجاب کی سکھ سلطنت میں سید احمد بریلوی کی شروع کردہ وہابی جہادی تحریک نے خصوصاً ہزارہ اور ملحقہ پختونخوا و پنجاب کے لوگوں میں پہلی مرتبہ عسکری رجحان پیدا کیا۔

حیرت انگیز طور پر یہ جہادی تحریک انگریز کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف ہر گز نہیں تھی بلکہ یوپی کے سید احمد بریلوی کی تمام تر جہادی توجہ مقامی پشتون مسلمانوں اور سکھوں کے خلاف تھی۔ اس جہاد نے بھی پنجابی۔ پشتون مسلمانوں کے بیچ اور مسلمانوں۔ سکھوں کے بیچ نفرت کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جس کا نتیجہ ہم نے سینتالیس کی پنجاب کی تقسیم کے دوران ہونے والے خون خرابے اور فسادات کی صورت اور بالآخر طالبانائزیشن کی شکل میں دیکھا اور بھگتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments