کیا آپ لاہور کے سقراط کو جانتے ہیں؟


پاکستان کے اخبار، مساوات، کے 31 مئی 1972 کے ایک کالم میں ترقی پسند شاعر و دانشور ظہیر کاشمیری رقم طراز ہیں، آج لاہور کا سقراط مر گیا ہے۔ اس سقراط کا ایتھنز لاہور میں تھا۔ ینگ پیپلز فرنٹ اس کی اکادمی تھی۔ وہ کئی سالوں سے مسلسل حق اور خیر کی تبلیغ کرتا تھا لیکن آج وہ شعور و دانش پھیلانے کے جرم میں نیلے زہر کا پیالہ پی چکا ہے اور لاہور سے، اپنے ایتھنز سے، ہمیشہ کے لیے جدا ہو چکا ہے،

لاہور کے سقراط کا نام عزیز الحق تھا۔ وہ 1939 میں پاکستان میں پیدا ہوئے تھے۔ بچپن سے نہایت ذہین محنتی اور کتابوں کے پرستار تھے۔ 13 برس کی عمر میں میٹرک اور انیس برس کی کم عمری میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے 1958 میں کیمیکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ 1962 میں انہوں نے اپنی محبوبہ اور بیڈمنٹن کی مایہ ناز کھلاڑی جمیلہ سے شادی کر لی جن سے ان کے تین بچے پیدا ہوئے۔ 1963 سے 1966 کے دوران انہوں نے کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پھر واپس پاکستان چلے گئے۔ 28 مئی 1972 کو ان کی ناگہانی موت ہوئی جب ایک دوست نما دشمن نے ان کی کنپٹی پر بندوق رکھ کر گولی چلا دی اور علم و دانائی کے اس چراغ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بجھا دیا۔

عزیز الحق اپنے عہد کے ادبی اور سیاسی حلقوں میں بہت مقبول تھے۔ وہ لاہور کے پاک ٹی ہاؤس اور حلقہ ارباب ذوق کی محفلوں میں تواتر سے شرکت کرتے تھے اور زور شور سے بحث کرتے تھے۔ وہ دوستوں کے خیالات اور نظریات کو چیلنج کرنے سے بالکل نہ گھبراتے تھے اور نہ ہی کتراتے تھے۔ وہ اپنا سچ بیان کرتے تھے اور وہ بڑی دلیری کے ساتھ۔ وہ عزیز الحق تھے انہیں ہر دلعزیزی کا کوئی شوق نہ تھا۔ اسی لیے ان سے کئی دوست ناراض بھی رہتے تھے لیکن یہ ناراضگی نظریاتی تھی ذاتی نہ تھی۔ عزیز الحق نظریاتی اختلاف اور دشمنی کے فرق سے بخوبی واقف تھے۔ اسی لیے ان کی موت کے بعد ان کے ادبی اور نظریاتی دشمنوں نے بھی ان کے بارے میں محبت بھرے کالم لکھے۔

چند سال پیشتر 2012 میں ان کے بھائی انوار الحق نے مختلف رسالوں اور انجمنوں میں ان کے بکھرے ہوئے مقالوں، خطوں اور دوستوں کے مضامین کو جمع کر کے اس متاع عزیز کی ایک کتاب مرتب کی ہے جس کا نام۔ مضامین عزیز الحق۔ ہے جسے حسن قلم پبلشرز لاہور نے چھاپا ہے۔

جب ہم عزیز الحق کے مقالوں کا سنجیدگی سے مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ چھوٹی سے عمر میں انہوں نے مشرق و مغرب کے بہت سے شاعروں ادیبوں اور دانشوروں کی کتابوں کا نہ صرف مطالعہ کر لیا تھا بلکہ ان دانشوروں کے خیالات اور نظریات کو ہضم کر کے ان کے بارے میں اپنی ایک تنقیدی رائے بھی بنا لی تھی۔

عزیز الحق کے خیالات میں جہاں مارکس، لینن اور ماؤ کے نظریات کی جھلک دکھائی دیتی ہے وہیں ان کی تحریروں مین فرائڈ، ینگ اور سارتر کے خیالات کا عکس بھی دکھائی دیتا ہے۔ وہ نظریاتی طور پر ایک MARXIST EXISTENTIALIST تھے۔ ہمیں ان کے خیالات کی جھلکیاں ان کے مندرجہ ذیل مضامین میں دکھائی دیتی ہیں

وجودیت اور آزادی
آزاد خیالی کیا ہے؟
ینگ اور پاکستانی ادب
شخصیت، ذات اور ادب۔

عزیز الحق ایک انقلابی دانشور ہونے کے ناتے اپنے مقالوں میں ادب اور فلسفے اور نفسیات اور سماجیات کے درمیان پل تعمیر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

عزیز الحق اپنی تحریروں میں شاعروں ادیبوں اور دانشوروں کو ان کی سماجی ذمہ داری کا احساس دلاتے ہین ان کا موقف تھا کہ ہمیں مشرق و مغرب کے تمام فلسفوں کا تنقیدی مطالعہ کرنا چاہیے اور پھر ان کی روشنی میں اپنے زمینی اور سماجی حالات کا تجزیہ کرنا چاہیے تا کہ ہم ایک پرامن اور منصفانہ نظام قائم کر سکیں۔

عزیز الحق انسان دوست دانشور تھے۔ وہ مظلوم و مجبور عوام سے محبت کرتے تھے ان کے بارے میں خواب دیکھتے تھے اور پھر ادیبوں، دانشوروں اور نوجوانوں کو دعوت دیتے تھے کہ وہ عوام کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کی کوشش کریں۔ ان کے دوست ہارون رشید اورکزئی عزیز الحق کے بارے میں اپنے خیالات و جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں

، عزیز کو تلاش کرنے کے لیے اس کی کہانی رقم کرنے کے لیے آپ کو در در دستک دینا پڑے گی۔ ان بے شمار لوگوں کے پاس جانا پڑے گا لکھوکھا عوام الناس سے رجوع کرنا پڑے گا جن سے عزیز کا رشتہ تھا۔ تاریک چھتوں کے نیچے سانس لیتے بے شمار لوگوں سے رجوع کرتے اور انہیں زندگی کرنے کا سلیقہ سکھاتے تو عزیز الحق کو میں نے دیکھا ہے۔ ہاں میں نے دیکھا اور محسوس کیا ہے کہ اس عزیز چہرے سے لوگ کس قدر محبت کرتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ جس کسی نے ان سے ہاتھ ملایا ان کا ہی ہوکے رہا۔

لیکن میں نے اسی تاریخ ساز کردار کو اپنے گھر میں کسی گوشے میں پڑی ہوئی لکڑی کی بڑی پیٹی کھول ایک ایک کاغذ نکال نکال کر پڑھتے اور اس کاٹھ کباڑ میں سے اپنے بے شمار دکھ اٹھاتے دکھاتے اور سمیٹتے بھی دیکھا ہے۔ اس قدر صداقت کے ساتھ زندگی گزارتے اور اس قدر بہادری کے ساتھ اپنی موت کا سامنا کرتے میں نے اور کوئی نہیں دیکھا، ۔

مضامین عزیز الحق پڑھ چکا تو میں کافی دیر تک ان کی زندگی ان کی شخصیت اور ان کے فلسفے کے بارے میں سوچتا رہا اور پھر میرے جذبات اور احساسات نے الفاظ کا جامہ پہننا شروع کر دیا تا کہ انہیں خراج عقیدت پیش کیا جا سکے۔ ان الفاظ کا تحفہ عزیز الحق کے ان دوستوں اور پرستاروں کی نظر جن کے دل میں وہ آج تک زندہ ہیں۔ عین ممکن ہے آپ کو بھی وہ ادبی تحفہ پسند آ جائے۔

وہ کون تھا؟
اس کی شخصیت میں
ایک جوش تھا
ایک جذبہ تھا
ایک ولولہ تھا
اس کے دل میں
غریبوں، کسانوں اور مزدوروں کے لیے
محبت تھی
اپنائیت تھی
پیار تھا
خلوص تھا
اس کی آنکھوں میں
امن اور آشتی اور انصاف کا
ایک خواب تھا
ایک آدرش تھا
ایک اضطراب تھا
وہ ہر غیر منصفانہ روایت کو چیلنج کرتا تھا
وہ نوجوانوں کو
سوال کرنا سکھاتا تھا
ایک نئی دنیا کی دعوت دیتا تھا
وہ لاہور کا سقراط تھا
عوام و خواص اسے عزیز الحق کے نام سے جانتے تھے
خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments