جذبات، قلم اور میں


لفظوں کو جوڑنے سے لے کر لکھاری بننے تک کا سفر کن مراحل کو طے کر کے مکمل کیا جاتا ہے۔ یہی داستاں چند لفظوں کی مالا میں پرو کر ورق کی زینت بنانے کی ایک کوشش۔ یہ راہ خود سے آگاہی کی ہے۔ قلم کا رشتہ آپ کو ہر چیز سے بھی قریب کر دیتا ہے۔ آپ ہر شے کو الگ زاویے سے دیکھنے لگتے ہیں۔ اس سے نت نئے پہلو سامنے آتے ہیں۔ پھر آپ اس کو اپنے احساسات کے ساتھ سپرد قلم کرتے ہیں تو تحریر بن جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک پہلی سی کوشش سے لے کر اب تک کا سفر میں نے بھی کیا ہے۔

لکھاری، الفاظ کا جادوگر جس کی گٹھڑی الفاظ سے بھاری رہتی ہے۔ وہ الفاظ کا بہتا سمندر سا لگتا ہے اور اس کا سمندر ہر وقت طلاطم میں ہی رہتا ہے۔ مگر ہائے افسوس! یہ دکھ بھری داستان ایسی ہے کہ لفظوں سے لہو رسنے لگے۔

جیسے کوئی عادی شخص جب تک اپنی دوا نہ لے اس کو سکون کے جزیرے کا راستہ نہیں ملتا۔ عادت اتنی پختگی سے رگوں میں سرایت کر جاتی ہے کہ کانوں کان خبر نہیں ہونے پاتی۔ وہ عادت کوئی سی بھی ہو سکتی ہے۔ کتاب، چائے، چاہ، یا پھر لفظوں کے موتی پرونے کی۔

ہوش کی دنیا میں قدم رکھا تو لفظوں سے خاص انسیت محسوس ہوئی۔ الفاظ جوڑ کے خوشی سی محسوس ہونے لگی۔ کبھی ان کو کہانی کا نام دیا تو کبھی شعر کہہ کر دل کی تسلی کا ساماں کر لیا۔ پھر خوابوں کی دنیا جس میں اپنا بسیرا ہے ، ان خوابوں کو کاپی پر منتقل کرنا شروع کر دیا۔ سلسلہ یہاں رکتا نہیں۔ کچھ بے جوڑ الفاظ کو جوڑا اور اس کو ایک تحریر کہہ دیا۔ جذبات کو کالم کی صورت کاپی پہ منتقل کرنا شروع کر دیا تو یہ سلسلہ چلتا رہا۔

پھر ایک رہنما نے مشورہ دیا۔ کہا کہ بہت بہترین انداز ہے لکھنے کا ، اس کو خود تک نہ رکھو۔ کسی پلیٹ فارم پہ لکھو تو ذرا سی ہچکچاہٹ کے بعد بات قلب کے نہاں خانوں میں اترنے لگی۔ پھر ہر ایک شے کو توجہ کا مرکز بنا لیا۔ پھر ایک رہنما نے جب پہلی بار کہا آپ لکھاری ہیں تو ایسی سرشاری ہوئی کہ نہ پوچھیے۔

پہلی بار کسی پلیٹ فارم پہ لکھا ، ذرا سی داد ملی تو حوصلہ ملا۔ اور پھر یہ سفر شروع ہو گیا۔ لکھنے کا حق تب ادا ہوتا ہی جب آپ کی لکھی بات پہ ردعمل آئے۔ اصلاح کی ضرورت ہو تو کی جائے۔ اختلاف ہو تو بتایا جائے۔ اس سے تحریر میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اپنے ساتھ معاملہ ایسا ہوا کہ ہر نئی تحریر کے مواد اور خیال پر غور کرنے کیبجائے اس پر مبارک باد دے گئی جس کی کوئی ضرورت نہیں۔ ارے معصوم لوگو! مبارک پہلی بار دی اور لی جا چکی اب تحریر میں جو بات کہنے کی کوشش کی وہ تو دیکھو۔

دکھ کی داستاں طویل ہے ذرا، ہائے افسوس! دوستوں کی طرف سے جواب آتا کہ تم نے لکھا ہے تو اچھا ہی ہو گا۔ پڑھنے کی ضرورت ہی کیا۔ ارے اس ایک جملے کی نذر ہو گئے ہمارے جذبات سارے۔ کاٹو تو لہو نہیں والا حال ہوگیا۔ تو بس پھر جذبات، قلم اور میں۔ اس غم سے نکلے تو ایک اور دشوار مرحلے کا سامنا ہوا۔ اب لکھا کیا جائے۔ ارے ہم تو ٹھہرے جذبات کے لوگ کہاں ہوتی ہیں ہم سے سیاست کی باتیں ، ہم تو بس اک اپنی سی کوشش سے جذبات کو سپرد قلم کر سکتے ہیں۔

اس درد کی دوا کیا ہو گی جب طلب کے صحرا کو سیرابی درکار ہو اور مگر پانی کا امکان دور دور تک نہ ہو ۔ اس کرب سے روح چھلنی ہو جاتی ہے۔ کچھ ایسے ہی درد سے لکھاری گزرتا ہے جب وہ سکون کی منزل کا راستہ بھی جانتا ہو ، پھر بھی وہ منزل طے نہ کر پائے۔ اس کی وجہ کشمکش حیات کے معاملات بھی ہوں یا مصروفیات ہوں یا پھر ذہنی بے سکونی ، اس کیفیت میں اگر الفاظ اس کا ساتھ چھوڑ جائیں تو پوروں سے لفظوں کی محرومی کا لہو پھوٹ نکلتا ہے۔

کبھی یہ لفظ ایسے مہربان ہوتے ہیں کہ وقت دیکھتے نہ مقام اور ذہن کے دریچوں میں دستک دینے لگتے ہیں۔ ارے کر لو ہمیں محفوظ ۔ ہم پھر نہیں آنے والے۔ تو وہ آگہی کا لمحہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے صدیوں سے پیاسے کو قطرۂ آب مل گیا ہو۔ جیسے بنجر زمیں پہ کونپل پھوٹنے لگے۔ بھرے ہجوم میں تنہائی سے نکل کر من میں خوشی رقص کرنے لگتی ہے۔ اور من کی دنیا میں جھانکنا سب سے دلچسپ لگتا ہے۔ اس کو وہ محسوس کر سکتا ہے جو کسی منزل کی جستجو رکھتا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments