پہلوی حکومت کی آمرانہ حماقتیں


رضا خان نے قدیم ایرانی سلطنت کے تسلسل کے اظہار کے طور پر اپنے نام کے ساتھ پہلوی لکھنا شروع کیا، گویا ایران کا تین ہزار سال پرانا تشخص دوبارہ دنیا کے نقشے پر ابھر چکا تھا۔ کسی بھی آمر حکومت کی طرح رضا خان نے بھی آغاز میں ترقی و خوشحالی کا نعرہ لگا کر عوام کی ہمدردیاں حاصل کیں۔ قاچاری حکومت کے ظلم و ستم میں دہائیوں تک زندگی گزارنے والے عوام نے بھی عوامی رجحانات کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے نئی حکومت سے امیدیں وابستہ کر لیں اور رضا خان کی شکل میں لوگوں کو ایران کا نجات دہندہ نظر آنے لگا۔

یہ بات یاد رہے کہ رضا خان ایک معمولی فوجی افسر تھا ، جس کو قاچاری دور حکومت میں تہران کے بگڑتے ہوئے حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا، جس کے بعد انہی حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عالمی طاقتوں کی پشت پناہی سے رضا خان اقتدار پر قابض ہو گیا۔ قاچاری حکومت میں بننے والی لولی لنگڑی پارلیمنٹ بھی ابھی چل رہی تھی، جس کو کچھ عرصہ تو رضا خان نے چلنے دیا لیکن جیسے جیسے پہلوی حکومت کے قدم مضبوط ہوتے گئے، نام نہاد پارلیمنٹ اور دستوری بادشاہت ختم ہوتی گئی اور رضا خان کے استبدادی چہرے سے نقاب ہٹنا شروع ہو گئی۔

شاید یہ بات دنیا کی تمام آمرانہ حکومتوں میں مشترک طور پر دیکھی جا سکتی ہے کہ آمر حکمران کے لیے سب سے بڑا خطرہ وہ افراد ہوتے ہیں جن کی مدد سے اس کی حکومت وجود میں آئی ہوتی ہے اور انہی افراد سے جان چھڑانا ضروری ہوتا ہے۔ رضا خان نے بھی سب سے پہلے اپنے ایسے ہی قریبی ساتھیوں سے چھٹکارا پانا شروع کیا۔ محمد علی فروغی پہلوی حکومت کا پہلا وزیراعظم تھا کیو نکہ فروغی نہایت ذہین اور گہری سیاسی بصیرت رکھنے والا انسان تھا۔

رضا خان کی حکومت کو مضبوط کرنے میں فروغی نے بہت اہم کردار ادا کیا لیکن سب سے پہلے اسی شخص کو رضا خان نے اس کے اپنے گھر میں نظر بند کر دیا اور مرنے تک محمد علی فروغی اپنے گھر سے باہر نہ نکلا۔ قریبی لوگوں سے نمٹنے کے بعد رضا خان نے مخالفین میں موجود با اثر شخصیات کو نشانہ بنانا شروع کیا اور ان کو مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے سے میدان سیاست سے باہر کرنے لگا۔ سید حسن مدرس نہضت مشروطیت کے انتہائی اہم افراد میں سے تھے اور حق گوئی کی وجہ سے بہت مشہور تھے۔

پہلے انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے حسن مدرس کو شکست دلوائی اور اس کے بعد ایران کے کسی دور دراز پسماندہ دیہات میں منتقل کروا دیا۔ حسن مدرس کا خوف اس قدر رضا خان کے دل میں بیٹھ چکا تھا کہ اس نے صرف جلاوطنی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ بعد میں اسی دیہات کے اندر سید حسن مدرس کو بے دردی کے ساتھ قتل کروا دیا۔

دوسرا اہم قدم جو رضا خان نے اٹھایا وہ مذہب کی کھلم کھلا مخالفت اور مذہب کی سرکوبی کے عملی اقدامات تھے۔ رضا خان فوجی ہونے کی وجہ سے مصطفیٰ کمال سے بہت متاثر تھا اور چونکہ اسی زمانے میں ترکی کے اندر ایسے ہی کچھ مذہب مخالف اقدامات مصطفیٰ کمال نے ترقی کے نام پر انجام دیے تھے ، اس لیے رضا خان بھی ملکی ترقی کی راہ میں مذہب کو سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتا تھا۔ مذہب کو پسماندگی کی علامت سمجھتے ہوئے بہت سی مذہبی مناسبتوں، مذہبی شخصیات اور علمی درسگاہوں پر پابندی عائد کر دی۔

حجاب پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی، کوئی بھی خاتون جو باحجاب ہو کر گھر سے باہر نکلتی، فوجی اہلکار بندوق کی سنگین سے اس کے سر سے چادر اتار دیتے۔ مسجد گوہر شاد (مشہد) کے اندر حجاب کی حمایت میں ایک جلسہ ہوا جس پر پہلوی حکومت کے فوجیوں حملہ کر کے دن دیہاڑے سینکڑوں افراد کو قتل کر دیا۔ علماء کے عبا قبا پہننے پر پابندی عائد کر دی گئی، محرم و صفر میں مراسم عزاداری کو بہت زیادہ محدود کر دیا گیا۔ وہ مذہبی طبقہ جو آغاز میں اس آمر کا حامی تھا، اب شدید پشیمانی میں مبتلا ہو گیا کیونکہ بھیڑ کی کھال میں چھپا بھیڑیا مکمل طور پر باہر آ چکا تھا اور بے دردی کے ساتھ مذہبی طبقے کو کچل رہا تھا۔

ایک جھوٹے احساس برتری کا شکار رضا خان بھی تھا، اس کے آس پاس موجود چاپلوس افراد نے اس احساس برتری کو تقویت دی اور یوں رضا خان اپنے ہر قدم کو مملکت کی ترقی کی ضمانت سمجھنے لگا۔ جبکہ درحقیقت رضا خان کے اندرکوئی بھی سیاسی بصیرت موجود نہیں تھی، علم مملکت داری سے یکسر خالی دماغ جس کے اندر صرف اور صرف جاہ طلبی، اقتدار، اوراستبداد کا نشہ سمایا ہوا تھا۔

رضا خان کا تیسرا قدم جو ملک کی تباہی اوربربادی کا باعث بنا، وہ ایرانیت کا نعرہ تھا۔ ایرانیت بعنوان وطن، آریائی بعنوان نسل اور فارسی بعنوان زبان، ان تین عناصرکی بنیاد پر ایرانی نسل پرستی کی بنیاد رکھی۔ دین اسلام کو صرف عرب خطے کا مسئلہ قرار دیا گیا، عربی رسم الخط کو ختم کر کے انگریزی رسم الخط پر فارسی زبان کو منتقل کیا جانے لگا، فردوسی کے شاہنامے کو آئین کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ مختصراً یہ کہ رضا خان کے ان نسل پرستانہ اقدامات کی وجہ سے ملک کے اندر اور باہر دونوں جگہ، پہلوی حکومت اپنا مقام کھونے لگی۔

یہ بات واضح و روشن ہے کہ لسانیت، قومیت اور وطنیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ دین و مذہب ہے۔ کیونکہ دین درحقیقت ان تمام امتیازات کی نفی کرتا ہے اور ان کو صرف اور صرف پہچان کا ایک ذریعہ سمجھتا ہے۔ دین رنگ، نسل، اور ذات پات کو نہیں بلکہ انسانی اقدار کو معاشرے کا محور قرار دیتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں بھی لسانیت، قومیت یا وطنیت کی بنیاد پر کسی نے خود کو دوسروں سے برتر سمجھا، وہ طبقہ معاشرے کے دیگر طبقات سے جدا ہو کر تنہا ہو گیا اور اس کو اپنی بقاء کے لیے مافیائی نظاموں کا سہارا لینا پڑا۔

رضا خان جو کہ روز اول سے ہی ایرانی مفادات سے زیادہ برطانوی اور امریکی مفادات کا محافظ تھا، اپنے احمقانہ اقدامات کے باعث ملک کے اندر دن بہ دن نفرت کا شکار ہوتا چلا گیا اور آخری دن تک اس خوش فہمی میں مبتلا تھا کہ امریکہ و برطانیہ ہمیشہ اس کا اقتدار باقی رکھیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments