جمہوریت کی فتح و شکست کی گردان


ضمنی الیکشن اور سینیٹ الیکشن میں مرکز کی نشست پر شکست کے بعد حکومت کو چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا چیلنج درپیش تھا۔ یہ معرکہ حکومتی جماعت سر کرنے میں کامیاب رہی۔ سینیٹ کی مرکز کی نشست جس نے سینیٹ الیکشن کو خاصا دلچسپ اور اہم بنا دیا تھا، اس پر حکومتی جماعت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ حکومتی امیدوار عبدالحفیظ شیخ کو اس انتخابی معرکے میں قومی اسمبلی میں اکثریت ہونے کے باوجود شکست ہوئی جبکہ اپوزیشن / پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار سابق وزیراعظم و پی پی رہنما سید یوسف رضا گیلانی اقلیتی ارکان کی سپورٹ یا ووٹ ہونے کے باوجود کامیاب ہو گئے تھے جس کا مطلب یہ تھا کہ حکومتی اراکین میں سے کچھ لوگوں نے انہیں ووٹ دیا تھا۔

اب ایسی ہی کچھ صورتحال چیئرمین و ڈپٹی چئرمین سینیٹ کے الیکشن میں دیکھنے کو ملی جب حکومت و ان کے حامیوں کی ایوان میں اقلیت جب کہ اپوزیشن کی اکثریت تھی لیکن وہ یہ معرکہ سر کرنے میں ناکام رہے ہیں اور حکومتی اتحاد یہ معرکہ سر کرنے میں کامیاب رہا۔ چیئرمین سینیٹ کے حکومتی امیدوار صادق سنجرانی کو 48 ووٹ ملے جبکہ اپوزیشن / پی ڈی ایم کے امیدوار پی پی رہنما و سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو 42 ووٹ ملے جبکہ 07 ووٹ مسترد ہوئے (یاد رہے کہ یہ 07 مسترد شدہ ووٹ گیلانی صاحب کو ہی ملے ہیں) جبکہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لئے حکومت کے امیدوار مرزا محمد آفریدی 54 جبکہ اپوزیشن کے امیدوار جے یو آئی رہنما عبدالغفور حیدری نے 44 ووٹ حاصل کیے اور یہاں کوئی ووٹ ضائع نہیں ہوا۔

اپوزیشن کا یہ دعویٰ ہے کہ انہیں جان بوجھ کر ہرایا گیا ہے، ان کے ووٹ کو مسترد کیے گئے۔ وہ یہ کہہ رہے ہیں جان بوجھ کر ووٹ مسترد کیے گئے ، اگر یہ ووٹ گنتی میں شامل کر لیں تو گیلانی صاحب جیت جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ ووٹ مسترد کیوں ہوئے ہیں؟ اگر چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں ووٹ مسترد ہو بھی گئے تو ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں تو کوئی ووٹ مسترد نہیں ہوا تو وہ کیسے ہار گئے؟ کہیں ایسا تو نہیں ہوا کہ اپوزیشن میں سے کچھ لوگوں نے مخالف امیدوار کو ووٹ دے دیا ہو؟

بتایا یہ جا رہا پے کہ ووٹ دینے کے لئے جو طریقہ کار تھا ، وہ ٹھیک طریقے سے نہیں اپنایا گیا جس کی وجہ سے ووٹ مسترد ہوئے۔

انتخاب کوئی بھی ہو ہر ایک کا اپنا ایک طریقہ کار ہوتا جو کہ پہلے سے بتا دیا جاتا ہے۔ اب ایسا بھی نہیں کہ یہ سب لوگ انتخاب کے طریقہ کار سے ناواقف تھے، انہیں اس انتخاب سے قبل ووٹ دینے کا طریقہ کار بتایا گیا تھا۔ اگر چیئرمین کے انتخاب میں طریقہ معلوم نہ تھا ، کوئی غلطی سرزد ہو گئی جس کی وجہ سے ووٹ مسترد ہو گئے، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں تو سب نے ٹھیک ووٹ ڈالا لیکن پھر بھی ناکام رہے۔ اس کا مطلب یہ کہ اپوزیشن کے اپنے ہی چند لوگوں نے حکومتی رکن کو ووٹ دیا اور جو ووٹ مسترد ہو گئے تھے وہ بھی جان بوجھ کر غلط طریقہ کار اپنا کر مسترد کروائے گئے۔ اب اپوزیشن کو یہ سوچنا ہو گا کہ ایسا کس نے اور کیوں کیا؟

اس سارے معاملے میں ایک چیز جو سامنے آئی ہے ، وہ پاکستان کی جمہوریت کا بدنما چہرہ ہے کہ کیسے اکثریت اقلیت پر یا اقلیت اکثریت پر بھاری ہو جاتی ہے۔ کیسے وفاداریاں تبدیل ہوتی ہیں اور جمہوریت کو جمہوریت کے چیمپیئن خود شکست دیتے ہیں۔

آپ کو یاد ہو گا جب سینیٹ الیکشن میں مرکز کی نشست پر حکومتی جماعت کو شکست ہوئی تو انہوں نے کیا کیا باتیں نہیں کی تھیں۔ انہوں نے اس پورے نظام پر سنگین الزامات عائد کیے کیونکہ وہ اکثریت میں ہونے کے باوجود ہار گئے تھے۔ تب ان کی ہار جمہوریت کی شکست تھی لیکن آج جب وہ اقلیت میں ہونے کے باوجود ہار گئے ہیں تو یقیناً ان کے نزدیک یہ جمہوریت کی فتح ہے اور اپوزیشن کے نزدیک یہ جمہوریت کی شکست ہے حالانکہ یہی اپوزیشن اقلیت میں ہونے کے باوجود سید یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر بنوا چکی۔ تب یہ ان کے لئے جمہوریت کی فتح کا دن تھا۔ یہ وہ دہرے معیار ہیں جو ہماری جمہوریت کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے۔

خرید و فروخت ہے، وفاداریاں تبدیل ہوتی ہیں، دھونس دھاندلی ہے ، الزامات ہیں اور اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جو جیت گیا وہ جمہوریت کا چیمپیئن ، جو ہار گیا تو وہ ہار کر جمہوریت، جمہوریت کی گردان سناتا پھر رہا ہے ، اس کے نزدیک اس کی شکست جمہوریت کی شکست ہے۔ بس یہی ہماری سیاست ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments