جیلیں کب تک مقدر رہیں گی؟


افراد کا کردار ان کو امر کر دیتا ہے اور بے کرداری ہمیشہ کے لئے باعث ننگ و ناموس بن جاتی ہے مگر کردار کو امر کرنے کے واسطے اپنے آپ کو مارنا پڑتا ہے اور دوسروں کے لئے جینا ہی بس مقصد قرار پاتا ہے۔ مولانا گلزار احمد مظاہری بس ایک ایسی ہی شخصیت تھے ان کے صاحبزادگان فرید پراچہ اور حسین پراچہ سے سلام دعا ایک مدت سے ہے مگر ان کے والد مولانا گلزار احمد مظاہری سے غائبانہ شناسائی زمانہ طالب علمی سے ہے کہ جب مولانا مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی کے قلم سے شناسائی ہوئی تو اسی زمانے میں مولانا مظاہری کی فکر سے بھی واقفیت ہوئی کہ جب تک مسٹر اور مولوی کا فرق ختم نہیں ہوتا اس وقت تک معاملات ایک مستقل اضطرابی کیفیت میں رہیں گے۔

یہ تمام خیالات یاداشت پر اس وقت بکھر نے لگے کہ جب مولانا مظاہری کی سوانح حیات ”زندگی۔ جیل کہانی“ ہاتھوں میں آئی۔ کتاب ہاتھ میں آ گئی تھی کہ ایک ہی نشست میں تمام کر ڈالی۔ مولانا مظاہری کی زندگی بس جیل کہانی نہیں ہے بلکہ ان افراد کے لیے ایک مشعل راہ ہے کہ جو نظریات کی خاطر صعوبتوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ کتنا مشکل مرحلہ ہوگا جب ان کی زوجہ نے ان کو خط لکھا کے بچے آپ کی واپسی کے منتظر رہے ان کو جواب میں تحریر کیا کہ حالات کو نارمل کرلو کیونکہ اگر ہمارے خلاف فیصلہ آیا اور میں واپس گھر نہ آ سکا تو آپ لوگوں کے لئے اور زیادہ تکلیف دہ ہو گا۔

مولانا کی زندگی کے 1958 سے 1965 تک کے ماہ و سال یا تو جیل میں کٹے یا ریل میں گزرے مگر ان کی شناخت صرف یہی نہیں کہ وہ پامردی سے مقابلہ کرتے رہے۔ بلکہ انہوں نے انہی ایام میں ووٹ کی اہمیت کے حوالے سے ایک رسالہ جو کہ مختصر اور نہایت جامع ہے تخلیق فرمایا۔ اور یہ رسالہ اس قابل ہے کہ اس کو تمام جمہوریت پسند سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کو مہیا کرے تاکہ ان کو ایک عالم دین کے قلم سے نکلے ہوئے الفاظ کے سبب سے یہ احساس ہو سکے کہ ووٹ کو عزت دو کی تحریک کتنی اہمیت کی حامل اور مقدس ہے۔

مولانا کے دیگر کاموں میں فرقہ واریت کے آگے بند باندھنے کے لئے جمعیت اتحاد العلما پاکستان کا قیام بہت اہم تاریخی واقعہ ہے کہ جب مسالک کے نام پر علما دست و گریباں ہونے لگے تو آپ نے اصلاح احوال کی خاطر اس تنظیم کی بنیاد رکھی اور اسی کی مانند علما اکیڈمی ایک ایسی شعوری کوشش ہے کہ جس کے قیام سے علما کی ایک ایسی کھیپ تیار کرنے کی کوشش کی گئی اور مستقل کی جا رہی ہے کہ جو نہ صرف کے رائج مذہبی علوم سے آگاہ ہوں بلکہ عصر حاضر بھی ان سے پوشیدہ نہ ہو۔

لیکن یہ ایک انتہائی قابل افسوس معاملہ ہے کہ وطن عزیز سیاسی طور پر جن حالات سے ایوبی آمریت کے دور میں دوچار تھا کہ مخالفین کے لئے پابندی سلاسل ہونا طے تھا اسی کی مانند آج بھی حالات موجود ہے۔ پنجاب اسمبلی کے قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز کی گرفتاری سے رہائی تک محسوس ہوتا ہے کہ پس پردہ طاقتوں نے تاریخ سے، تجربات سے کچھ سبق حاصل نہیں کیا ہے۔ حمزہ شہباز کو گرفتار رکھا ان حالات میں گرفتار رکھا گیا کہ جب ان کو ایک طویل عرصے بعد خدا نے اولاد جیسی نعمت سے نوازا تھا۔

اپنی چھوٹی سی بچی سے دور کر کے صرف سیاسی انتقام کی آگ کو بجھانے کی غرض سے جو ڈرامہ رچایا گیا تھا اس کا تو ڈراپ سین ہو گیا۔ مگر اس سب کے سبب سے جو منفی اثرات قومی سیاست پر مستقل طور پر مرتب ہو گئے اس کا ازالہ ہوتے ہوتے ایک مدت درکار ہوگی۔ وطن عزیز کے غیر یقینی حالات بار بار اس بات کو واضح کرتے ہے کہ اس کو بار بار تجربات کی نظر نہ کیا جائے۔ اس سے ناصرف کے معاشرہ سماجی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے، صوبائیت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ کمزور اقتصادی حالت قومی سلامتی کے لیے اور بھی بہت ساری مشکلات کو جنم دیتی ہے۔

اگر ابھی بھی ہوش کے ناخن لے لئے جائے تو کم از کم چند سالوں میں اس صورتحال سے تو چھٹکارا پایا جا سکتا ہے کہ ہماری معاشی کارکردگی بنگلہ دیش سے تو بہتر ہو جائے۔ یوسف رضا گیلانی کی کامیابی اس حوالے سے ایک امید کی کرن ہے کہ شاید اب سے پردہ طاقت سیاسی حالات کو فطری بہاؤ دینے کے لیے تیار ہو جائے۔ کیونکہ اس کامیابی کے بعد اس حوالے سے کوئی ابہام نہیں رہنا چاہیے کہ اگر سیاسی طاقتوں کو، ان سے وابستہ افراد کو غیر معمولی دباؤ کا سامنا نہ کرنا پڑے تو ایسی صورت میں وہ حالات کے مستقل دگرگوں ہونے سے بہت زیادہ نالاں ہو چکے ہیں اور اصلاح احوال کا کوئی راستہ نکالنا چاہتے ہیں۔

بہت مناسب ہوگا کہ سیاسی طاقتوں پر بھروسا کیا جائے اور مداخلت کی راہ کو ترک کر دیا جائے۔ سیاسی طاقتوں کو بھی درکار ہے کہ وہ اپنے آپ کو عوامی مسائل کے حل کی خاطر مکمل طور پر تیار کریں۔ یہ تیاری پہلے بھی عرض کر چکا ہوں بس اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب نواز شریف کے پیش کردہ اس منصوبے پر عمل کیا جائے کہ تمام قوتیں مل بیٹھ کر پاکستان کے لیے اگلے پچیس سال کے لیے ایک پروگرام پر اتفاق کر لیں کہ جس کو میثاق پاکستان کا نام دیا جائے۔ اور اس میں مستقل جاری سول ملٹری کشمکش کا بھی حل پیش کیا جائے کہ جس کا مقصد کسی کی فتح شکست نہ ہو بلکہ صرف پاکستان کی فتح ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments