پی ڈی ایم ’آر یا پار‘؟


تماشا کہیں، دل لگی کہیں، دھوکا کہیں۔۔۔ نظام کو فریب اور انتظام کو تماشا بنایا جا چکا ہے۔ سینٹ انتخابات کی دھول ابھی کم نہ ہوئی تھی کہ چئیرمین سینٹ کے انتخاب کا سٹیج سج گیا۔ فلم کو کامیاب کرنے کے سب ’حربے’ استعمال ہوئے۔ لائٹس، کیمرا اور ایکشن۔۔۔ سب کچھ موجود تھا، فلم کے سب کردار اپنی جگہ موجود لیکن سکرپٹ لکھنے والے نے جو کردار نہیں بھی لکھے تھے وہ اچانک نمودار ہو گئے۔ فلم کامیاب ہوئی یا نہیں مگر جمہوریت کو ناکام بنانے کی کامیاب کوشش ضرور کی گئی۔

چیئرمین سینٹ انتخاب کی فلم کے لوازمات میں کیمروں کا لگایا جانا، سینٹر مصدق ملک، سینٹر مصطفی نواز کھوکھر اور سینٹر شیری رحمن کے سٹنگ آپریشنز نے بغیر سکرپٹ کے کہانی میں جان ڈال دی۔

مصطفیٰ نواز اور مصدق ملک کو کمرہ امتحان میں چھپے کیمروں کا اشارہ ایک غیر معمولی لیمپ سے ہوا اور پھر کیا تھا قطار در قطار کیمروں کی بہار۔۔۔

سوال یہ ہے کہ کہیں بھی، کسی بھی انتخاب میں یوں کیمرے برآمد ہوتے تو کیا طوفان جنم نہ لیتا۔ آج واٹر گیٹ سکینڈل کی دھوم ہے جس میں امریکی صدر کو محض ایک اخبار کی اسٹوری کی وجہ سے گھر جانا پڑا اور یہاں انتخابات کو ایک تماشا بنا دیا گیا مگر کوئی چوں چُرا تک نہیں کہ وہ خفیہ کیمرے کس نے لگائے؟

گیلانی، سنجرانی انتخاب میں وہ سات سینٹرز جن کے ووٹ کو یقینی بنانے کے لیے ناموں پر مہر لگانے کا کہا گیا اُنہوں نے طے شدہ منصوبے پر عمل کیا تاکہ یہ شُبہ نہ رہے کہ وہ دباؤ میں آ گئے۔ اگر اُن کے ووٹ غلط تسلیم کر بھی لیے جائیں تو یہ سوال اپنی جگہ برقرار رہے گا کہ گیلانی کو سنجرانی پر ایک ووٹ کی برتری حاصل تھی۔

قانونی جنگ تو عدالت میں لڑی جائے گی لیکن پی ڈی ایم کے کیمپ میں اس بات کے شادیانے ضرور ہیں کہ ان کے ووٹ کم از کم سنجرانی کے مقابلے میں بکے نہیں۔ قومی اسمبلی میں بھی سینٹ انتخابات کے لیے اپنے ووٹرز کے ’ایمان‘ کے پیش نظر ووٹ کی پرچی کو ن لیگ، پی پی پی اور جے یو آئی ایف کے اراکین کو بالترتیب چار، تین اور ایک تہہ لگانے کا کہا گیا تھا جس پر بخوبی عمل ہوا۔

معاملہ جو بھی ہو جب بات یہاں تک پہنچ جائے کہ سیاسی جماعتوں کے منتخب اراکین اعتماد کھو چکے ہوں تو نظام کو کوسنے کی بجائے نظام کو متعفن کرنے والوں کو کیوں مورد الزام ٹھہرایا نہیں جا سکتا؟

ابھی ان کیمروں کی داستان اور ’کر پٹ کیمرا پریکٹس‘ پر کارروائی شروع بھی نہیں ہوئی اور بجائے اس کے کہ اتنے سنگین الزام کی تحقیق کو تکمیل تک پہنچایا جاتا، حکومت نے الیکشن کمیشن کے خلاف بھی ایک نیا محاذ کھول لیا۔ حکومت کے تین معزز وزراء نے اچانک چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے استعفے کا مطالبہ کر دیا۔

تحریک انصاف کی حکومت فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے سے قبل الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈال رہی ہے یا مقصد کچھ اور تاہم جس تیزی کے ساتھ پارلیمنٹ اور اب الیکشن کمیشن جیسے آئینی اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کا نتیجہ ادارہ جاتی محاذ آرائی کے سوا کچھ نہیں۔

دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں چھبیس مارچ کے لانگ مارچ سے قبل سینٹر سٹیج حاصل کر رہی ہیں۔ مریم نواز اور میاں نواز شریف استعفوں کے معاملے پر مولانا کے ہمنوا ہیں اور پہلی بار میڈیا کے ذریعے پیغام رسائی کرتے دکھائی دیے ہیں۔ مریم نواز کے لہجے کی تلخی بڑھ گئی ہے اور وہ پیپلز پارٹی کو استعفوں کے معاملے پر اب کی بار اُن کی بات ماننے پر بضد نظر آ رہی ہیں۔

پی ڈی ایم ایک بار پھر ضمنی اور سینٹ انتخابات سے پہلے کی صورت حال پر جا کھڑی ہوئی ہے۔ مگر اہم سوال یہ ہے کہ استعفے دے کر سڑکوں پر نکلنے سے کیا پی ڈی ایم کے آزاد اور منصفانہ انتخابات کے مقاصد حل ہو جائیں گے؟ کیا ضمنی انتخابات شفاف ہو پائیں گے؟ کیا سسٹم سے نکل کر سیاسی جماعتیں پرفارم کر پائیں گی؟ لانگ مارچ کامیاب ہو پائے گا؟ کپتان اور ادارے لانگ مارچ کے دباؤ کے تحت اسمبلیاں برخاست کر دیں گے؟ ان سارے سوالات پر یقیناً پی ڈی ایم غور کرے گی لیکن ڈسکہ الیکشن سے ایک بات واضح ہے کہ تصادم ہو گا اور استعفوں کی صورت اتنے بڑے پیمانے پر ضمنی انتخاب کہاں کہاں، کیا کیا محاذ کھولیں گے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ملک بہر حال ایسی صورت حال کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

اب تک اپوزیشن کی ایوان میں حکومت کو تھکانے اور سیاسی اعتبار سے نقصان پہنچانے کی اسٹرٹیجی کسی حد تک کامیاب دکھائی دی ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ پی ڈی ایم حکومت کو اندر سے کافی حد تک ہلا چکی ہے، پنجاب کا محاذ ابھی بھی اوپن ہے وہاں ن لیگ کی ذرا سی ’کوشش‘ حکومت کو چیلنج کر سکتی ہے۔ البتہ بجٹ کے بالکل قریب حکومت گرانے کی کوئی بھی کوشش اپوزیشن کو نقصان اور تحریک انصاف کو سیاسی شہادت کی صورت فائدہ دے سکتی ہے۔ ایسے میں خود بجٹ اور مالیاتی بل کی منظوری بھی حکومت کے لیے ایک اہم چیلنج ہو گا۔ طریقہ کار کا یہی اختلاف پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم میں دراڑیں ڈال سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).