پہلی جنگِ عظیم: فرانس میں پہلی عالمی جنگ کے دور کی ’موت کی سرنگ‘ کیسے دریافت ہوئی؟


 

A wartime picture of the German soldiers outside the tunnel at Winterberg

Pierre Malinowski
پہلی عالمی جنگ کے دوران لی گئی اس تصویر میں جرمن فوجی ونٹربرگ سرنگ کے باہر موجود ہیں

سنہ 1970 سے اب تک فرانس میں پہلی عالمی جنگ کے دور کی اس قدر اہم دریافت نہیں ہوئی ہے۔

ریمز شہر سے کچھ ہی دور ایک پہاڑی پر جنگل میں 270 سے زیادہ جرمن فوجیوں کی لاشیں ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے سے پڑی ہیں۔ ان فوجیوں کو دردناک ترین اموات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

جنگ کی افراتفری اور گھبراہٹ کے باعث ان کا حقیقی مقام اب تک ایک راز تھا اور فرانسیسی و جرمن حکام بھی اس گتھی کو سلجھانے کی جلدی میں نہیں تھے۔ مگر مقامی تاریخ دان باپ، بیٹے کی ایک ٹیم نے شیمن ڈے ڈیمز کے میدانِ جنگ میں ونٹربرگ سرنگ کا داخلی راستہ ڈھونڈ نکالا ہے۔

Three of the 270 soldiers whose lives were lost in the Winterberg tunnel

ونٹربرگ سرنگ میں ہلاک ہونے والے تین فوجی

پہلا سوال تو یہ ہے کہ اب کیا کیا جائے؟ کیا ان لاشوں کو فوراً باہر نکال کر کسی جرمن جنگی قبرستان میں دفن کیا جائے؟ کیا یہاں پر وسیع پیمانے پر کھدائی ہونی چاہیے تاکہ ہمیں اس جنگ اور اسے لڑنے والے افراد کے بارے میں معلومات حاصل ہو سکیں؟ کیا کوئی یادگار یا میوزیم بنایا جانا چاہیے؟

دونوں حکومتیں اب بھی ان سوالوں پر غور کر رہی ہیں مگر وقت کا دباؤ موجود ہے۔ اور اگر ہم فرض کر لیں کہ اس سرنگ کا مقام اب بھی ایک راز ہے تو یہ ایک ایسا راز ہے جسے قطاً چھپایا نہیں گیا۔

جب میں نے چند دن قبل اس جگہ کا دورہ کیا تو معلوم ہوا کہ ایک رات پہلے ہی وہاں نوادرات کی تلاش میں لوگ موجود تھے۔ داخلی راستے کے قریب ایک تین میٹر گہرا سوراخ کھودا گیا تھا اور جنگ کے دور کی چیزیں مثلاً کلہاڑیاں، بیلچے، سرنگ کی چھت کو سہارا دینے والے شہتیر اور پھٹ نہ پانے والے بم تک ایک ڈھیر میں چھوڑ دیے گئے تھے۔

The Winterberg tunnel lies deeper than the three metres dug by looters at the site

ہمیں وہاں پر انسانی بازو کی ایک ہڈی بھی ملی۔

لٹیرے سرنگ میں داخل ہونے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے کیونکہ وہ اس سے بھی گہرائی میں ہے۔ انھیں جو ملا وہ اس سرنگ کو بند کر دینے والے بم دھماکے سے اڑ کر اوپر آنے والی چیزوں کے ٹکڑے تھے۔

Some of the debris uncovered by looters at the site

وہ سامان جو لٹیرے چھوڑ گئے

مگر سب کو ہی معلوم ہے کہ لٹیرے واپس آئیں گے کیونکہ ونٹربرگ سرنگ میں جو بھی سب سے پہلے داخل ہوا اس کے ہاتھ خزانہ لگے گا۔

سنہ 1917 کی بہار میں فرانس نے دریائے این سے چند میل دور شمال میں مشرق سے مغرب کی لکیر میں واقع پہاڑیوں کو واپس حاصل کرنے کے لیے ایک ناکام حملہ کیا۔


شیمن ڈی ڈیمز کے ساتھ ساتھ موجود ان پہاڑیوں پر جرمن دو سال سے بھی زیادہ عرصے سے قابض تھے اور ان کے پاس ایک پیچیدہ زیرِ زمین دفاعی نظام موجود تھا۔

کرایون کے گاؤں کے قریب سے ونٹربرگ سرنگ شروع ہوتی اور پہاڑی کے شمالی جانب سے 300 میٹر تک چلتی اور جنوبی جانب موجود ڈھلوان پر جرمن سرنگوں کی پہلی قطار سے جا ملتی۔ یہ سرنگ فرانسیسی سپاہیوں کی نظروں سے اوجھل تھی۔

Map of tunnel

111 Reserve Infantry regiment
اس علاقے کا پہلی عالمی جنگ کے زمانے کا ایک جرمن نقشہ

چار مئی 1917 کو فرانس نے توپ خانے کے ذریعے سرنگ کے دونوں سِروں پر بمباری کی اور شمال کے رخ پر موجود ڈھلوان کو دیکھنے کے لیے ایک غبارہ ہوا میں بھیجا۔

اُن کا ایک بار نشانہ بالکل ٹھیک بیٹھا۔ بحریہ کی توپ کا ایک گولہ داخلی دہانے پر گرا جس سے وہاں پر ذخیرہ کیے گئے بارود میں مزید دھماکے ہوئے اور زہریلا دھواں سرنگ میں پھیل گیا۔ ایک اور گولے کے پھٹنے سے خارجی دہانہ بند ہو گیا۔

اندر 111 ریزرو رجمنٹ کی دسویں اور گیارہویں کمپنیوں کے سپاہی موجود تھے۔ اگلے چھ دنوں میں جب آکسیجن آہستہ آہستہ ختم ہو رہی تھی تو کچھ کا دم گھٹ گیا، تو کچھ نے خودکشی کر لی۔ کچھ نے دوسروں سے کہا کہ اُنھیں مار دیا جائے۔

The Winterberg tunnel

Pierre Malinowski

اب یہ قسمت ہے کہ تین افراد اتنے دن زندہ رہ گئے کہ انھیں امدادی کارکنوں نے یہ پہاڑی فرانس کے قبضے میں جانے سے صرف ایک دن قبل بچا لیا تھا۔ اُن میں سے ایک شخص کارل فِشر نے آنکھوں دیکھا حال یوں بیان کیا:

‘ہر کوئی پانی مانگ رہا تھا مگر یہ بے فائدہ تھا۔ موت یہاں کھڑی ہنس رہی تھی اور موت دہانے پر بھی پہرہ دیے کھڑی تھی، سو کوئی نہیں بھاگ سکتا تھا۔ کچھ لوگ مدد کے لیے چلا رہے تھے تو کچھ پانی کے لیے۔ ایک ساتھی میرے ساتھ زمین پر پڑا ہوا تھا اور اس نے ٹوٹتی ہوئی آواز میں کسی سے کہا کہ وہ اس کی پستول اس کے لیے لوڈ کر دے۔’

جب فرانس نے پہاڑی پر قبضہ حاصل کیا تو باہر کے مناظر غیر معمولی تباہی اور افراتفری کے ہوں گے۔ سرنگ کی کھدائی کرنا ترجیح نہیں ہوگی اس لیے انھوں نے اسے چھوڑ دیا۔ جرمنز نے شیمن ڈے ڈیمز کو بعد میں دوبارہ حاصل کر لیا مگر اس وقت اُن کے پاس بھی باقیات کی تلاش کے لیے وقت نہیں ہوگا۔


جنگ کے اختتام تک کسی کو یقینی طور پر ونٹربرگ سرنگ کا محلِ وقوع معلوم نہیں تھا۔ چونکہ اس سرنگ کے اندر فرانسیسی لاشیں نہیں تھیں، اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ انھیں پڑے رہنے دیا جائے جیسے کہ آج بھی مغربی محاذ پر لاتعداد لاشیں اپنی دریافت کی منتظر ہیں۔

درخت دوبارہ اُگ آئے اور گولوں سے بننے والے گہرے گڑھے صرف معمولی ناہمواری کے طور پر رہ گئے۔ آج یہ جگہ کتے گھمانے کے لیے پسندیدہ ہے۔

مگر ایک مقامی شخص ایلین میلیناؤسکی اس سرنگ کا خیال جھٹک نہیں سکے۔ اُنھیں یقین تھا کہ یہ اس پہاڑی پر ہی کہیں ہے۔

پیرس میٹرو پر 1990 کی دہائی میں کام کرتے ہوئے وہ روزانہ دارالحکومت جایا کرتے اور اپنا فارغ وقت شیٹو ڈے وانسین میں فوجی ریکارڈز کھنگالتے رہتے۔ پندرہ سال تک اُنھوں نے اس جگہ کے بارے میں تفصیلات، نقشے اور قیدیوں سے کی گئی تفتیش اکٹھی کی مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس پوری جگہ کی ہیئت بمباری سے اس قدر متاثر ہوئی تھی کہ اُس دور کی دستاویزات اور آج کی صورتحال کے درمیان کوئی معنی خیز موازنہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔


پھر سنہ 2009 میں اُن کے ہاتھ ایک موجودہ دور کا نقشہ لگا جس میں نہ صرف سرنگ دکھائی گئی تھی بلکہ دو راستوں کا ملاپ بھی نظر آ رہا تھا جو اب تک بچ گیا تھا۔ انتہائی احتیاط کے ساتھ اُنھوں نے زاویے اور فاصلے کا حساب لگایا اور اس مقام پر پہنچ گئے جو کہ اب جنگل کا ایک بے نام حصہ ہے۔

ایلین میلیناؤسکی نے لی مونڈے کو بتایا ‘میں نے اسے محسوس کیا۔ مجھے معلوم تھا کہ میں قریب ہوں۔ میں جانتا تھا کہ سرنگ کہیں میرے قدموں کے نیچے ہی ہے۔’

The site of the Winterberg tunnel

اگلے دس سال تک پھر کچھ بھی نہیں ہوا۔ انھوں نے حکام کو اس دریافت کے بارے میں اطلاع دی لیکن انھوں نے بھی پھر اس میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی۔

یہ واضح نہیں کہ ایسا اس لیے ہوا کہ انھیں ان کی بات پر یقین نہیں تھا، یا ان کو جنگ عظیم کے دوران ہلاک ہونے والوں کی مشترکہ قبریں کھودنے کا شوق نہیں تھا۔

لیکن پھر آتے ہیں اس کہانی میں ان کے بیٹے پیئر مالینوسکی، جو خود 34 سال ایک سابق فوجی تھے، اور اب وہ ماسکو میں نپولین کے دور میں جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی باقیات کی تلاش کرتے ہیں۔

سرکاری عدم دلچسپی کے بعد پیئر نے سوچا کہ وہ اب فرانس اور جرمنی کی حکومت کو دلچسپی لینے میں مجبور کریں اور اسی غرض سے انھوں نے اس سرنگ کو خود کھودنا شروع کر دیا۔ یہ تھا غیرقانونی کام، لیکن انھوں نے سوچا شاید اسے بہانے مقصد پورا ہو جائے۔


گذشتہ سال جنوری میں وہ ایک ٹیم کے ہمراہ آئے اور اپنے ساتھ ایک سرنگ کھودنے کی مشین بھی ساتھ اس مقام تک لائے جس کی ان کے والد نے نشاندہی کی تھی۔

صرف چار میٹر کی کھدائی کرتے ہی انھیں اس سرنگ میں داخل ہونے کی جگہ مل گئی۔

وہاں سے انھیں ایک گھنٹی ملی، جو الارم بجانے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ وہاں پر بڑی تعداد میں گیس ماسک رکھے ہوئے تھے، اسلحے کو لے جانے کا سامان، دو مشین گن، رائفل، خنجر اور دو انسانی لاشوں کی باقیات۔

ان میں سے ایک نے کہا: ‘یہ بالکل پومپیئ جیسا ہے۔ کچھ بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔’

پئیر مالینوسکی نے اس کھودے گئے حصے کو چھپا دیا، اور بالکل ایسی حالات میں چھوڑ دیا جیسا ان کو ملا تھا اور ایک بار پھر وہ حکام کے پاس گئے۔ لیکن جب مزید دس مہینے گزرنے کے بعد بھی ان کی شنوائی نہیں ہوئی ، تو وہ لے مونڈ اخبار کے پاس گئے اور انھیں پوری کہانی سنائی۔


یہ کہنا درست ہوگا کہ پئیر مالینوسکی کو آثار قدیمہ اور تاریخی مقامات کی تلاش کرنے والوں میں زیادہ پسند نہیں کیا جاتا۔

ان لوگوں کا سمجھنا ہے کہ نہ صرف پئیر مالینوسکی نے قانون توڑا، بلکہ انھوں نے اس نکتے کی بھی خلاف ورزی کی ہے کہ مردوں کو نہیں چھیڑا جائے اور اپنے اقدامات سے انھوں نے حکومت کو مجبور کیا کہ وہ اس کے لیے کوئی قدم اٹھائے اور اس سے بھی زیادہ بری بات یہ تھی کہ انھوں نے ان لوگوں کے لیے مثال قائم کی ہے جو اس نوعیت کے کام اکیلے کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کی نیت میں فتور ہوتا ہے۔

اس تفتیش کی غرض سے حکام کا ہچکچانا واضح ہے۔ جرمن وار گریوز کمیشن کی ترجمان ڈائین ٹیمپل بارنیٹ نے جرمن ریڈیو کو بتایا: ‘سچ کہوں تو ہم اس دریافت پر بہت خوش نہیں ہیں۔ بلکہ ہم اسے بدقسمتی سمجھتے ہیں۔’

یاد رہے کہ جرمنی میں پہلی جنگ عظیم کو ‘بھولی ہوئی جنگ’ سمجھا جاتا ہے۔

This picture of the Winterberg tunnel was taken under heavy artillery fire

Pierre Malinowski
یہ تصویر ونٹربرگ پر بھاری گولا بارے کے بعد لی گئی

تاہم اب اس سرنگ میں مرنے والوں کے لواحقین کی تلاش کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔

سوئس الپس کے باڈن خطے میں اس وقت 111 رجیمنٹ کے جوان متعین تھے اور 1917 میں چار اور پانچ مئی کو اس حادثے میں ہلاک ہونے والوں میں سے نو فوجیوں کی شناخت ہو چکی ہے۔

عظیم جنگوں کے بارے میں تحقیق کرنے والے مارک بیئرنارٹ کہتے ہیں کہ ‘اگر میں کسی ایک بھی خاندان کو ان کے آبا و اجداد سے ملوا سکوں جو اس سرنگ میں ہلاک ہوئے تھے، وہ میرے لیے بہت ہوگا۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ اس سرنگ سے باہر نکلیں اور انھیں باعزت طور پر دفن کیا جائے اور ان تمام ساتھیوں کو، کامریڈز کو ایک ساتھ دفن کیا جائے۔’

جب 1973 میں اسی طرح کے ایک واقعے میں ریمز کے علاقے مونٹ کورنیلیٹ میں چار سو سے زیادہ جرمن فوجیوں کی باقیات دریافت ہوئی تھی تو انھیں ایسے ہی ایک ساتھ دفنایا گیا تھا۔

پئیر مالینوسکی بھی کہتے ہیں کہ ان فوجیوں کو اعزاز ملنے چاہیے۔

‘ان لوگوں میں سے کوئی کسان تھا، کوئی حجام تھا، کوئی بینک کلرک تھا، لیکن وہ سب اپنی مرضی سے جنگ لڑنے آئے، اور ایسے ختم ہوئے جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔’

انھوں نے انسانی باقیات کے وقار اور عزت کا پوری طرح إحساس ہے اور ان لاشوں کی انھوں نے تصویر لینے سے منع کیا ہوا ہے۔

‘ان لاشوں کو اسی طرح احتیاط سے ہیں جیسے مصر میں ممیوں کو رکھا جاتا ہے۔ یاد رکھیں، اس سرنگ میں فوجی اپنے دن اور رات گزارتے تھے، اور ان کے روز مرہ کے استعمال کا سارا سامان وہیں ہے۔ ہر فوجی کی ایک کہانی ہوگی۔ یہ پہلی جنگ عظیم میں مرنے والوں کی سب سے بڑی باقیات ہوں گی۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32506 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp