یوسف رضا گیلانی سینٹ چیئرمین کیوں نہ بن سکے؟


بارہ مارچ کے دِن سینٹ چیئرمین کے انتخاب میں ایک دلچسپ مقابلہ ہوا اوریوسف رضا گیلانی کے سات ووٹ مسترد ہوگئے۔ان سات ووٹ کے مسترد ہونے پر ،یوسف رضاگیلانی چیئرمین سینٹ کے عہدے سے محروم ہوگئے۔پی ڈی ایم جماعتوں کے متفقہ اُمیدوار کاچیئرمین سینٹ نہ بننا ،سیاسی سطح پر معمولی واقعہ نہیں ۔اس انتخاب کی ہارجیت نے سیاسی اُفق پر وسیع پیمانے پر اپنے اثرات مُرتسم کرنے ہیں۔یہی وجہ تھی کہ دونوں طرف سے فتح یابی کے تمام ’’حربے‘‘بروئے کار لانے کی سرتوڑ کوشش کی گئی۔

حکومت کامیاب ٹھہری اور صادق سنجرانی دوبارہ چیئرمین سینٹ منتخب ہوگئے۔اس عمل میں جن لوگوں کے ووٹ مسترد ہوئے،یا اُنھوں نے جان بوجھ کر اپنے ووٹ مسترد کیے ،اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔ہر مقابلے میں ایسے ہی لوگ ہارجیت میں کلیدی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کہ یہ میرٹ اور وفاکی دھجیاں بکھیر کر نتائج کو تبدیل کروادیتے ہیں اور تنازعات کو بڑھاوا دے کر تصادم کی سیاست کا دروازہ کھول کر ریاست اور عوام کا بھاری نقصان کرتے ہیں۔

اس تازہ معرکہ میں سات ووٹ دانستہ یا غیر دانستہ مسترد ہونے کا جوواقعہ رُونما ہوا ہے ،یہ اگلے کئی ماہ تک ہماری سیاسی توانائیوں کو نگلتارہے گا ۔ ایک ایسے وقت میں جب عوام کے مسائل گمبھیررُخ اختیار کررہے ہیں ،مہنگائی اور بے روزگاری کا عفریت ہمارے دروازوں سے گھروں میں داخل ہو چکا ہے ،ہماری توانائی سات مسترد ووٹ کھاجائیں گے اور مہنگائی و بے روزگاری کا عفریت مزید طاقت پکڑ ے گا۔

حکومت اور اپوزیشن کی سطح پر کئی پریس کانفرنسیں ہوں گی،وزیرِ اعظم کی سربراہی میں کئی اجلاس ہوں گے،ٹی وی ٹاک شوز کا محور یہی ایشو رہے گا،عدالتوں میں معاملہ جانے سے دونوں اطراف سے وکلاء میدان میں اُتریں گے،سماجی سطح پر مباحث کا دائرہ سات مسترد ووٹ کے گرد گھومتارہے گا،سیاسی جماعتوں اورملکی اداروں کے مابین فاصلے بڑھیں گے۔ یہ سلسلہ محض یہاں تک نہیں رُکے گا،اگلے عام انتخابات پر اس واقعہ کے سائے پڑیں گے اور تنازعات مزید گمبھیر ہوتے جائیں گے۔

جس قدر سیاسی تنازعات گمبھیر ہوں گے ،اُس قدر لوگوں کے مسائل سے پہلو تہی ہوتی رہے گی۔ اِن تنازعات سے جڑے مباحث سماجی سطح پر جب جنم لیتے ہیں تو عام آدمی اپنے اصل سوالوں سے بے خبر ہوتا چلا جاتا ہے ۔ سیاسی اشرافیہ کا ایک ’’حربہ‘‘یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگوں کو اُن کے اصل سوالوں سے بے خبر رکھا جائے اور ایسے تنازعات میں اُلجھایا جائے کہ وہ خود کو فریق سمجھنا شروع ہوجائیں ۔ اگرچہ سیاسی و جمہوری عمل کے ایک فریق عوام ہوتے ہیں ،مگر تنازعات میں اِن کو فریق جان بوجھ کر بنایا جاتا ہے۔

وزیرِ اعظم عمران خان جو کہ اس ملک میں سماجی تبدیلی کے نام پر اقتدار میں آئے تھے،کی اس وقت ساری توانائی اپوزیشن سے نمٹنے میں صَرف ہورہی ہیں،اِن کی تقریریں اپو زیشن کے خلاف ہوتی ہیں ،یعنی وزیرِ اعظم کے مخاطب عوام کے بجائے اپوزیشن کی جماعتیں ہیں ، یہ عوام کی فلاح سے زیادہ اپوزیشن جماعتوں کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ یہی ماجرا اپوزیشن جماعتوں کا ہے ،اپوزیشن جماعتیں عوام کے مسائل پر حکومت کا محاسبہ کرنے کی بجائے ’’سیاسی دائو‘‘پر اپنی توانائیاں لگاتی پائی جارہی ہیں ،اِن کے نزدیک سیاست کامطلب بہترین سیاسی دائو پیچ ہے ۔

سیاسی جماعتوں کی اس سوچ کے بیچ عوام منہا ہو جاتے ہیں۔ عوام کی اکثریت اپنے خلاف سیاسی جماعتوں کے طرزِ عمل سے ناواقف ٹھہرتے ہیں۔ یہی ناواقفیت سیاسی اشرافیہ کی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ دوسری طرف جب سیاسی جماعتیں باہم اتحاد کرتی ہیں تو اتحاد کی بنیادی وجہ حکومت کے خلاف ’’سیاسی دائوپیچ‘‘کو بروئے کار لا کر حکومت کو مشکل میں ڈالنا ہوتا ہے ،مگر’’اتحاد‘‘کے باجود یہ ایک صفحے پر نہیں ہوتیں ، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اِن کی جدوجہد اپنے مقاصد کے حصول میں یکسر ناکام ٹھہرتی ہے ۔

سینٹ چیئرمین کے معرکہ میں پی پی پی اور پی ایم ایل این کے رہنمائوں کے خیالات اورسوچ کا اظہار مختلف انداز سے سامنے آیا ہے۔ سینٹ چیئرمین کے انتخاب کے معاملے پر پی پی پی آخری لمحات تک یہ مؤقف اپنائے رہی کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہے جبکہ اس ضمن میں پی ایم ایل این کا مؤقف بہت سخت رہا۔ دونوں جماعتوں کے سوچنے کا مختلف اندا ز اِن کو سینٹ چیئرمین شپ سے محروم کرگیا۔ دونوں جماعتیں اس اہم معرکے میں ایک جیسا لائحہ عمل اپنانے سے قاصر رہیں،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اُن کا حربہ ،حکومتی حربہ کے سامنے مات کھا گیا ۔

ہماری سیاسی جماعتیں ’’حربوں‘‘کو سیاست سمجھتی ہیںاور انھیں بروئے کارلانے کے نت نئے طریقے ڈھونڈتی رہتی ہیں۔یہ حربے زیادہ تر ناکام ٹھہرتے ہیں کہ حربوں کا حصہ بننے والے انفرادی سطح پر ’’دائو پیچ‘‘کا مظاہرہ کر گزرتے ہیں،جیسا کہ یوسف رضاگیلانی کی جیت اور بعدازاں اُن کی ہار کی صورت میں ہوا۔

ہماری سیاست کو سیاسی حربوں سے ملک و عوام کے مسائل کی جانب آنا ہوگا۔ایسا کب ہوگا؟ایسا اُس وقت ہوگا،جب سیاسی جماعتیںاپنے زاویہ نگاہ میں تبدیلی لاکر نئے سرے سے اپنے اپنے بیانیے ترتیب دیں گی۔اِن بیانیوں میں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘کا مطلب ہونا چاہیے کہ سیاسی جماعتیں عوام کو عزت دیں،عوام کے حقوق اور اُن کے مسائل پر مبنی نعرے حقیقی معنویت کے حامل ہوں۔ سیاسی جماعتیں ملک و قوم کو درپیش مسائل سے بہ خوبی آگاہ ہوں اور اُن کی تشویش محسوس بھی ہو۔ حالیہ دِنوں میں مریم نواز شریف کو جب مبینہ طورپر دھمکیاں دی گئیں تو میاں نواز شریف نے بہت سخت ویڈیو پیغام نشر کیا۔

میاں نوازشریف کی یہ تشویش قوم کے لیے کبھی کیوں نہ محسوس کی گئی؟

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments